ــ’’جب میں کل قبرستان سے فاتحہ پڑھ کر واپس آرہا تھاتو
میں نے خانہ بدوش کے خیمے مین ایک نابینا کو دیکھاوہ آئینے کو پیار سے چوم
رہا تھامیں نے جب اس سے حیرانی سے استفسارکیا تم اندھے ہو، آئینہ نہیں دیکھ
سکتے تو پھر آئینے سے اتنا پیار کیوں کرتے ہوتو وہ اندھامسکرایااور بولا
صاحب جی! کیا ہواجو میں آئینہ نہیں دیکھ سکتا، آئینہ تو مجھے دیکھ سکتا ہے۔
اس کی اس بات سے میں اب تک رو رہا ہوں کیا ہوامیں ربّ کو نہیں دیکھ سکتا
اگرچہ ذرّے درّے میں اس کا جلال نمایاں ہے مگر میرا رب تو مجھے دیکھتا ہے
وہ مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے وہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ اس کو اونگھ آتی
ہے بس وہ بیٹھا مجھے پیارسے دیکھتا رہتا ہے اس ماں سے بھی ذیادہ پیارسے جو
اپنے بچے کو دیکھ کر مسکراتی ہے اس وقت بھی مجھے دیکھ رہا ہوتا ہے جب میں
غفلت کی نیند سو یا رہتا ہوں ـ‘‘۔طارق بلوچ صحرائی کی کتاب گونگے کا خواب
سے اقتباس
طارق بلوچ صحرائی کی تحریروں کو پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے آپ اپنی ماں اور
خدا سے محوِگفتگو ہیں۔ میں اس وقت دبئی میں مقیم تھا جب پاکستا ن میں میری
ماں اپنے خالق حقیقی سے جاملی ۔ اگرچہ جنازے میں شریک ہونے کا موقع تو مل
گیا لیکن اپنی ماں کی آخری گفتگو سے محروم ہوگیا۔ صحرائی صاحب کی تحریروں
کو پڑھ کر بالکل ایسے ہی لگا جیسے میں اپنی ماں سے باتیں کر رہا ہوں اور
اپنے خدا کو اپنے اردگرد ہی پایا۔ ان کی تحریریں کہنے کو تو ایک افسانہ ہیں
لیکن میرے خیال میں یہ اپنے افسانوں میں بہت سی تلخ حقیقتیں اس قدر دلچسپ
پیرائے میں بیان کر جاتے ہیں کہ انسانی سوچ کو اس کا تعاقب کرنے کے لیئے
اپنے فہم وادراق کے تمام پردے اور راستے کھولنے پڑتے ہیں۔ موجودہ دورمیں ہم
جتنے خدااور ماں سے دور ہوتے جارہے ہیں اتنی ہی ہماری زندگی مشکل ہوتی
جارہی ہے۔ ماں اور خدا پیار کے انمول جذبے ہیں اور باپ ان کی تحریروں میں
سراپا نصیحت نظر آتا ہے۔ کوشش کے باوجود بھی مجھے ان کی کوئی بھی تحریر
ایسی نہ مل سکی جس میں کوئی پیغام نہ ہو۔ ان کی گفتگو سننے کا اتفاق قاسم
علی شاہ فاؤنڈیشن لاہور کے ایک سیمینارکی ویڈیو میں ہوااور پھر ان کی
کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ ان کی دوکتابیں گونگے کا خواب اور سوال کی
موت پڑھ چکا ہوں اور ان کے ایک ایک لفظ سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ اردو ادب
کو پڑھنے کا شوق اور جنون مجھے تب سے ہے جب میں چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا۔
اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو پڑھنے کا اتفاق مجھے پنجاب یونیورسٹی کی میں
لائبریری میں ہوا جب میں ہیلے کالج آف کامرس سے ایم کا م کررہا تھا۔ ان دو
سالوں میں میں نے پنجاب یونیورسٹی کی میں لائبریری میں موجود اردو ادب کی
تمام نثری اور شاعری کی کتابوں کو پڑھ لیا تھا۔ مجھے افسانے پڑھنے کا شروع
سے ہی بہت شوق رہا ہے لیکن صحرائی صاحب کے افسانوں کا انداز جداگانہ سا ہے۔
افسانے کے انداز میں جب آپ کوئی بات سیکھا جاتے ہیں تو اس کو بھولنا آسان
نہیں ہوتا۔
’’میں نے کہا:بابا جنت میں کون جائے گابولے پُترجنت میں وہ جائے گا جن کے
دل پرندوں کی مانند ہوں گے کیونکہ پرندے آپس میں جھگڑا نہیں کرتے، فساد
نہیں پھیلاتے، رزق کے معاملہ میں توکل کرتے ہیں کل کی فکر نہیں کرتے، اﷲ کی
حمدوثناء اور تسبیح بیان کرتے ہیں اور تنکوں سے گھونسلے بنا تے ہیں۔ ایک دن
کہنے لگے :بیٹا!رزق حرام کے قریب مت جانا اس کو کبھی بھی اکھٹا نہ کرنا ہر
وہ پیسہ جو کسی کا استحصال کرکے حاصل کیا جائے وہ رزق حرام ہے۔ ‘‘۔طارق
بلوچ صحرائی کی کتاب کونگے کا خواب سے اقتباس
توکل اور رزق کے جو معانی صحرائی صاحب نے بتا ئے ہیں میں ان سے پہلے ناواقف
تھا۔ کچھ لوگوں کے پاس دین ہی دین ہوتا ہے وہ آپ سے کچھ لیتے نہیں ہیں لیکن
آپ کو اپنے پاس سے بہت کچھ دے جاتے ہیں اور صلے کی کوئی توقع نہیں رکھتے۔
صحرائی صاحب بھی میرے خیال میں انہی میں سے ایک ہیں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر
آپ ایک مختلف اور انوکھی دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ان کا طرزِتخاطب جداگانہ
ہے۔ میں ان کو بولتے ہوئے بھی سُناتو گویا وہ کانوں میں رس گھولتے ہیں اور
جب ان کو پڑھا تو یوں لگا کہ جیسے میں کسی صوفی کے پاس بیٹھا ہوں اور ان کی
طرزِ فکر کو اپنے اندر سموئے جارہا ہوں ۔مرشد کامل وہی ہوتا ہے جو اپنے طرز
فکر کو آپ کے اندر منتقل کردے اور آپ کو پتہ بھی نہ چلے۔ آپ جب کسی کی آواز
سن کر بلاچون وچرااس کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور اس کی کہی ان کہی باتوں پر
عمل شروع کردیتے ہیں تو یقینا اس شخص کے اندر کوئی تو ایسی مقناطیسیت ہوتی
ہے جو آپ کو اس پر مجبور کر دیتی ہے۔ صحرائی صاحب کی تحریروں میں سچ اور
حقیقت کی پرچھائی نظر آتی ہے۔ عورت کو اردو ادب میں بہت سے لوگوں نے
افسانوں میں صرف رنگ بھرنے کے لیئے استعمال کیا ہے لیکن صحرائی صاحب نے
عورت کے فہم وفکراور اس کی لازوال محبت کو اس خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے
کہ یہ صرف زیب داستان نہیں نظر آتی بلکہ مرد کے ہم پلہ اور فکرودانش اور
محبت کا پیکر نظر آتی ہے۔
صحرائی صاحب کی تحریریں پڑھ کر مجھے اپنی ماں بہت شدت سے یا د آئی لیکن
میرے دل میں کوئی خلش باقی نہیں تھی ۔بقول انکے جن کے دل میں خلش ہوتی ہے
وہ اپنی ماں کی قبروں کو بناتے سنوارتے ہیں اور جن کے دل میں خلش نہیں ہوتی
وہ حد درجہ مطمئن رہتے ہیں۔ صحرائی صاحب سے میری براہ راست ملاقات تو نہیں
ہوئی لیکن ان کی تحریرں ان سے آدھی ملاقات کے برابر تو ہیں اور ان کی
تحریریں پڑھ کر دل سے بے ساختہ یہی دُعانکلتی ہے۔ کہ اﷲ کرے زورِ قلم اور
ذیادہ۔
|