کورونا وائرس نے فی الحال دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی ہے
۔ اس کے ساتھ سازشی تھیوریوں کا بھی سیلاب امڈ پڑا ہے۔ پہلے تو اس وباء
کوامریکہ کی سازش قرار دیا گیا ۔ اس کے بعد اب چین کی سازش کہا جارہا ہے۔
کوئی اسے اسرائیل سے جوڑتا ہے ۔ کسی کو اس میں دجال نظر آتا ہے تو کوئی
قرب قیامت کی نشانیاں تلاش کرنے لگتا ہے۔ ایک اورپہلو چینی اور جاپانی
فلموں اور سیریل کےاندر کورونا کا ذکر ہے ۔ اس کی حقیقت تو بس یہ ہے کہ
انفلوئنزا کی ایک خاص قسم کے لیے کورونا نامی جرثومہ کو عرصۂ دراز سے ذمہ
دار سمجھا جاتا ہے ۔ اس لیے طبی دنیا کے اندر کورونا کوئی اجنبی نام نہیں
ہے ۔ فی الحال دنیا میں جو وباء پھیلی ہوئی اس کا پورا نام نوول کورونا
وائرس ہے ۔ اس کا ذکر پہلے کبھی نہیں ملتا اور ماہرین کی یہ رائے ہے کہ اس
کو انسان تجربہ گاہ میں بنا نہیں سکتا۔ اس لیے اسے حیاتیاتی (بایولوجیکل)
اسلحہ قرار دینا درست نہیں ہے۔
اس معاملے کی شروعات سابق عراقی صدر صدام حسین کی ویڈیو سے ہوئی تھی جس میں
وہ ایک ویڈیو کے اندر سرکاری نشست میں یہ کہتے ہوے دیکھے جاسکتے ہیں کہ
امریکا نے اس کی بات کے انکار پر وائرس پھیلا نے کی دھمکی دی ہے۔ یہ حسن
اتفاق ہے کہ فی الحال نوول کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض امریکہ کے
اندر ہیں اور بعید نہیں کہ بہت جلد وہ مہلوکین کی تعداد میں اٹلی سے آگے
نکل جائے۔ ان سازشی مفروضوں پر وقت ضائع کرنے والے واٹس ایپ یونیورسٹی کے
دانشور بل گیٹس کےپانچ سال قبل دئیے گئے بیان پر گفتگو نہیں کرتے۔ انہوں نے
ٹیڈ ٹاک نامی پروگرام میں یہ بیان دیا تھا حالانکہ وہ یو ٹیوب پر بھی
موجودہے ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایبولا کی وبا سے ساری دنیا پریشان تھی
۔ اس وقت مائیکرو سافٹ کے شریک بانی نےایک حیرت انگیز پیشن گوئی کرکے ساری
دنیا کو چونکا دیا تھا لیکن کسی نے اس کی جانب توجہ نہیں دی ۔
بل گیٹس نے کہا تھا ’ ’فی الحال تو دنیا ایبولا کو عالمی سطح پر پھیلنےسے
روکنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن سائنس دانوں کی عالمی برادری اگلی وبا کے لئے
تیار نہیں ہے۔مستقبل کے وائرس کا پھیلاؤ 1000 گنا زیادہ نقصان دہ ہوسکتا
ہے‘‘۔ انہوں نے نہ جانے کیا سوچ کر ایک جیوتش کی مانند بھویشہ وانی کر دی
تھی کہ آنے والی دہائی میں ایک وائرس آئے گا جو وباء کی صورت اختیار کر لے
گا۔ اس میں 6 ماہ کے اندر 3 کروڑ کے قریب افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔جس تیزی
کے ساتھ کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل رہا ہے اسے دیکھ کر اندیشہ ہوتا
ہے کہیں بل گیٹس کا اندازہ درست نہ نکل جا ئے۔ اس نے ابھی تک۴ لاکھ سے زائد
افراد کو متاثر کیا ہے ان میں ۳ لاکھ ہنوز اس لپیٹ میں ہیں اور مہلوکین کی
تعداد 19ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ ٹیڈ ٹاک کے ساتھ بل گیٹس نے نہایت چشم کشا
گفتگو کی تھی لیکن مہذب دنیا نے اس کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز
کردیا ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ ایک طرف شمالی کوریا جیسے کئی ممالک اپنے آپ کو
ایٹمی اسلحہ سے لیس کررہے تھے اور ایران کو اس سے روکنے کی کوشش کی جارہی
تھی۔ روس اور امریکہ کے دوران جوہری اسلحہ کی تخفیف پر گفت و شنید جاری تھی
بل گیٹس نے کہہ دیا تھا کہ اس وقت دنیا کو سب سے بڑا خطرہ ایٹمی تباہی سے
نہیں بلکہ وبائی امراض سے ہے۔بل گیٹس نے عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے
کہا تھا کہ آنے والی دہائیوں میں لاکھوں لوگ کسی جنگ سے نہیں بلکہ مہلک
وائرس سے مارے جائیں گے۔ یہ تباہی میزائل سے نہیں جرثومے سے ہو گی۔ انہوں
نےکہا تھا کہ ایٹمی تنصیبات کیلئے تو بہت زیادہرقم خرچ کی جاتی ہے لیکن
وبائی امراض کے سدباب کی خاطرقومی خزانے کا بہت مختصر حصہ مختص کیاجاتاہے ۔
وطن عزیز کے اندر بھی صحت عامہ کوبجٹ میں صرف 3.7 فیصد حصہ ملتا ہے ایسے
میں کسی وبائی مرض کا مقابلہ کیسے ممکن ہے؟
بل گیٹس نے اپنے اندازوں کی بنیاد 1918ء میں پھیلنے والے فلو کی وباء کے پر
رکھی تھی جس میں 3 کروڑ سے زائد لوگ رحلت فرماگئے تھے۔ یہ بات عقل سے
بالاتر ہے کہ جس مصیبت کو گزرے تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزرچکا تھا اس کے
ایک دہائی کے اندر لوٹ کر آنے کی بات بل گیٹس نے کردی؟اور خبردار کیا کہ
اس سنجیدہ معاملہ کے لیے سب کو فکر مند ہونا چاہیے۔ مستقبل کے سلسلے میں
امید کا اظہار کرتے ہوے بل گیٹس نے کہا تھا کہ ’’ہم بہت موثر نظام بنا سکتے
ہیں‘‘ ۔ غریب ممالک میں مضبوط صحت عامہ کے نظام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے
انہوں نے میڈیکل کور گروپ کی تشکیل کا مشورہ دیا جس میں ماہرین کو فوج کی
مدد سے تربیت دی جائے تاکہ وہ وباء والے متاثرہ علاقوں میں سرعت سے پہنچ
جایا کریں ۔ یہ کام صرف ڈاکٹروں کی تربیت سے ممکن نہیں ہے ۔ اس کے لیے
ویکسین اور تشخیص کے جدید آلات پر دسترس لازم ہے اور کثیر درمایہ درکار
ہے۔
بل گیٹس نے عالمی وباء کا مقابلہ کرنے کیلئے 3 ٹریلین ڈالر سے زائد کی
سرمایہ کی ضرورت کا اندازہ پیش کیا تاکہ لاکھوں جانوں کو تلف ہونے سے روکا
جاسکے لیکن ان کا یہ انتباہ صدا بہ صحراء ثابت ہوا۔ ایبولا کی وباء کا مثبت
پہلو انہوں نے یہ بتایا تھا کہ یہ ایک وارننگ ہے تا کہ سب لوگ اگلی وباء
کیلئے خود کو تیار کریں گے۔ پانچ سال قبل اگر ساری دنیا کے ارباب حل وعقد
سر جوڑ بیٹھتے اس ناگہانی مصیبت کا بہتر انداز میں مقابلہ کیا جاسکتا تھا ۔
فی الحال کوروناوائرس کووہ ایک بہت بڑا چیلنج قرار دیتے ہیں ۔ امریکی شہر
سیاٹل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر
یہ وباء افریقی ملکوں تک پہنچ گئی تو صورتحال بے قابو ہوجائے گی کیونکہ
وہاں حفظانِ صحت کی خاطر خواہ سہولیات موجود نہیں ہیں اور اس پر نگرانی کا
اہتمام بھی نہیں ہوسکے گا۔
بل گیٹس کے مطابق عالمی سطح پر پھیلنے والی اس وبا سے نظامِ صحت مفلوج
ہوجائے گا، معیشت تباہ ہوجائیں گی اور لاکھوں لوگ ہلاک بھی ہوسکتے ہیں ۔بل
گیٹس کا کہنا ہے کہ بہترین تشخیص اور سماجی فاصلہ رکھ کر ونا پر قابو پایا
جا سکتا ہے۔انہوں نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو پر سکون
رہنے کی صلاح دی ا ور امید ظاہر کی کہ اگر حکومتیں بہترین تشخیص کریں
اورسرحد بند کر دیں تو 6 سے 10 ہفتوں میں بہتر نتائج آسکتے ہیں کیونکہ
موجودہ اب تک یہ وباء امیر ممالک تک محدود ہے۔ کاش کہ کورونا وائرس کی وباء
سے نمٹنے کے بعد اسے بھیانک خواب کی مانند بھلا دینے کے بجائے بل گیٹس کے
مشورے پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تاکہ آئندہ اس طرح کی مصیبت کابہتر
انداز میں مقابلہ کیا جاسکے لیکن افسوس کہ عوام و خواص کو ایسے سنجیدہ
مشوروں میں دلچسپی کم ہی ہوتی ہے۔ انہیں تو چٹپٹی مزیدار خبریں درکار ہیں
چاہے اس میں حقیقت کا شائبہ بھی نہ ہو۔
|