ڈاکٹرمحمد لقمان سلفی رحمہ اللہ کی زندگی سے چند اسباق

زندگی اور موت کا کھیل پرانا ہے ، اس پہ کسی کو حیرت واستعجاب نہیں ہے، ہاں افسوس اس موت پر بیحدہوتا ہے جس سے اہل زمانہ فائدہ اٹھا رہا تھا۔ہم سب روزانہ کتنی لاشیں دیکھتے ہیں بلکہ آج کلوبلائزیشن کے دور میں دنیا کےکونے کونے کی ہلاکت واموات کی خبریں ہم تک لمحہ بہ لمحہ پہنچتی رہتی ہیں مگر اہل زمانہ کو سب کی موت پر افسوس نہیں ہوتا، مرنے پر ہرکسی کو یکساں یاد نہیں کیا جاتاکیونکہ سب جانتے ہیں یہ زمانےکی پرانی ریت ہے، ایسا شروع سے چلتا آرہا ہے اورقیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، ہم بھی آج ہیں کل نہیں ہوں گے ۔

موت کی اس پرانی ریت میں کسی کسی کو بہت یاد کیا جاتا ہے ، کسی کے لئے بہت رویا جاتا ہے ۔کسی کے لئے یادگارسیمنار، خصوصی شمارے اور مخصوص مذاکراتی محفل منعقد کی جاتی ہے ۔ میں بہار کی اس عظیم سپوت کی بات کررہاہوں جن کے سانحہ ارتحال سے ستہتر(77)سالہ تاریخی عہد کا خاتمہ ہوگیا۔تاریخ ساز اس شخصیت سے میری مراد ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ ہیں جنہیںعبقری شخصیت شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی خاص علمی رقافت نصیب ہوئی۔

سعودی عرب میں رہتے ہوئے بھی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوسکا مگر آپ کے جلائے ہوئے دئے کی روشنی دنیا کو منور کررہی ہے ، اس روشنی سے کون نظر چرا سکتا ہے؟ ایک طرف تعلیمی مراکز(جامعہ ابن تیمیہ ، کلیہ خدیجۃ الکبری، مرکزعلامہ ابن باز للدراسات الاسلامیہ وغیرہ)سلفیت کی کرنیں بکھیر رہی ہیں تو دوسری طرف قلم گہربار سےنکلے تیسیرالرحمان لبیان القرآن اور الصادق الامین جیسی شاہکارتصنیفات قرآن وسنت کی خوشبوئیں بکھیر رہی ہیں جس سے ایک طرفمعبود برحق کی یکتائی وکبرائی سے فضامعطر ہورہی ہے تو دوسری طرف پیغمبرعالم کی رفعت وسنت کی عطربیزی ہورہی ہے۔

میں نے ڈاکٹرصاحب کی وفات پر کئی اہل علم کے مضامین پڑھے خصوصا تیمی برادران کی مختلف تحریرں پڑھی کیونکہ وہ ہی لوگ ڈاکٹرصاحب کے قریب ترین ہیں ، ان تحریروں کو سامنے رکھتے ہوئے اور میں نے بذات خود جن باتوں کو محسوس کیا اور آپ کی ذات بابرکت سے جن اسباق ملتے ہیں ان میں سے چند سطور ذیل میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔ ساتھ ہی یہ امید کرتا ہوں کہ ممکن ہے کہ کوئی آپ کے ان خوبیوں سے متاثر ہوکر دوسرا ڈاکٹرمحمد لقمان پیدا ہوجائے جو ان کی طرح ایسا علمی دیا روشن کرے جس سے زمانہ کی جاہلی اندھیرے ختم ہوسکیں۔

سب سے پہلے تو علامہ موصوف کے قائم کردہ ادارے جامعہ ابن تیمیہ کو میں ہندوستان کا دوسرا جامعہ سلفیہ مانتا ہوں ، ممکن ہے کہ سب کو اس سے اتفاق نہ ہو کیونکہ ہرکسی کے پاس سوچ وفکر کے زاوئے الگ الگ ہوتے ہیں تاہم اتنی بات سے تو ہرکوئی بلاتردد اتفاق کرسکتا ہے کہ صوبہ بہار میں جماعت کی مرکزی حیثیت رکھنے والا ادارہ ہے ۔میری اس بات سے کوئی یہ مطلب نہ نکالے کہ مالیگاؤں، دہلی ، عمرآباد وغیرہ کے سلفی ادارے حیثیت میں کم ہیں، میرا مطلب ملکی پیمانے پر بڑے سلفی جامعات میں جامعہ سلفیہ کی طرح ایک ممتاز دوسرا سلفی ادارہ جامعہ ابن تیمیہ بھی ہے۔ جس طرح جامعہ سلفیہ کے فارغین دینی وعصری تعلیم سے لیس ہوکر ملک وبیروں ملک دین ودنیا کی خدمت انجام دے رہے ہیں اسی طرح تیمی اخوان بھی نظر آتے ہیں ۔
٭ یہ ڈاکٹر صاحب کا حددرجہ کمال ہے کہ انہوں نے سلفیت کی ترویج واشاعت کے لئے نمایاں ادارہ قائم کیا جس کےنصاب میں عصری علوم کا حسین امتزاج بھی نظر آتا ہے اور یہ کام حددرجہ اشتیاق،وسیع النظری، علوہمتی، سعی پیہم،عبقری صحبت اورتن من دھن کی قربانی کا آئینہ دار ہے۔
٭ مجھے اس بات پر بیحد حیرت ہے کہ آپ کی ذات گرامی کثرت مطالعہ اور کثرت تالیف کا آئینہ دار تھی پھر بھی کس خوبی سے مختلف تعلیمی اداروں کی سرپرستی کیا کرتے تھے ؟ یہ بات اپنی زندگی کے تجربے سے کہہ رہاہوں ۔ اس وقت میں ذاتی مکان بنوارہاہوں ، اس کام میں اس قدر مصروف ہوگیا ہوں کہ مہینہ ہوگیا کوئی مضمون نہیں لکھ سکا ، آج ایک بھائی کےمخلصانہ اصرار پر ڈاکٹر کے متعلق چند سطور لکھ رہا ہوں ۔ ڈاکٹر تصنیف وتالیف ، بحث وتحقیق اور جامعہ ، طلبہ، اساتذہ ، امور مالیات وغیرہ ان سب کاموں کو کیسے جمع کرتے تھے ؟ ایسا نہیں ہے کہ وہ سعودی عرب میں رہتے تھے تو جامعہ سے لاتعلق تھے ، نہیں ، وہ جامعہ کی تمام نقل وحرکت پر باخبر ومطلع رہتے۔
٭آپ کی زندگی کی شروعات غربت سے ہوئی ہے ،شاید اس کا گہرا اثر آپ کی زندگی پر پڑا اور قوم وملت کے لئے عظیم قربانی دینےکا داعیہ پیدا ہوا اور وہ سب کچھ جنون میں کرگئے جو کئی لوگ مل جل کر بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔
٭ آپ کے قریب رہنے والوں نے ذکر کیا ہے کہ آپ کے اندر انکساری پائی جاتی تھی ، اس کا اثرآپ سے ملاقات اورگفتگومیں نظر آتا بلکہ حددرجہ مہمان نواز بھی تھے ، اس وقت بھی آپ کی ظرافت دیکھنے کو ملتی ۔ کسی قاعد ورہنما کی اعلی خصوصیت ہے کہ وہ ملنسار، خوش گفتار، نرم خو،بلند کرداراورادنی اعلی تمام لوگوں کا قدردان ہواور ڈاکٹر صاحب کی ان خوبیوں کا ان سے قریب رہنے والوں نے ذکر کیاہے۔
٭ طلبہ کو نصیحت کرتے رہنا بڑی خوبی ہے جو آپ کے بارے میں مختلف لوگوں سے سننے کو ملی ہے تاہم سب کی حوصلہ افزائی کرنا بالخصوص کمزوروں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرنا اور برابر دست شفقت پیٹھ پر پھیرتے رہنا اس سے اعلی کردار اور کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔ آپ نے طلبہ کو محض یہ نصیحت نہیں کی کہ کبر وتعلی سے دور رہوں ، کتنے ذہین وفطین اس وادی میں گم ہوکر بے نام ونشان ہوگئے بلکہ اعلی کرداروں کے ساتھ ادنی کردوں کو بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔
٭جماعت اہل حدیث میں آپ بیتی لکھنے کی طرف رجحان کم ملتا ہے ،میرا ماننا ہے کہ انسان کواپنی زندگی خود مدون کرنی چاہئے ،اس سے بعدوالوں کو بہت ہی زیادہ فائدہ ملتا ہے ۔ ہم کسی نے بارے میں وہی کچھ لکھ سکتے ہیں جو دیکھ رہے ہیں جبکہ ایک انسان اپنی زندگی کی مکمل بات خود ہی جانتا ہے جو کوئی دوسرا نہیں جان سکتا حتی اس کے والدین،بھائی بہن ،اس کی بیوی یا اولاد بھی نہیں۔ڈاکٹرصاحب نے کاروان حیات کے نام سے اپنی آپ بیتی لکھ کر ہم سب کو اس طرف دھیان دینے کا ایک عمدہ سبق دیا ہے۔
٭ آج ڈاکٹر صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے مگر آپ کے بے شمار دینی خدمات ان کی یاد تازہ کرتی رہیں گی ، آپ ایک عہد ساز شخصیت تھے ، آپ کو نہ صرف یاد کیا جائے گا بلکہ آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جائے گامثلا ڈاکٹرمحمد لقمان سلفی بحیثیت مربی، ڈاکٹرمحمد لقمان سلفی بحیثیت مفسر، ڈاکٹرلقمان سلفی بحیثیت سیرت نگار، ڈاکٹرلقمان سلفی بحیثیت مترجم ، ڈاکٹر محمد لقمان سلفی بحیثیت داعی وغیرہ ۔
ان چند سطور بالا کی روشنی میں اپنی بات سمیٹتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی عبقری شخصیت کا مقام ومرتبہ حاصل کرنے کےعلم کے حصول میں انتھک محنت کریں قطع نظر اس سے کہ آپ کند ذہن ہیں ،علم کی حصولیابی کے بعد زندگی میں کچھ کرنے کا بڑا منصوبہ عزم محکم کے ساتھ تیار کریں اس کے لئے اساطین علم وفن کی صحبت وفیض حاصل کریں ۔ منصوبے کی تکمیل کے لئے محنت سے جی نہ چرائیں اور نہ ہی مشکلات کے وقت احساس کمتری کا شکار ہوں ، آگے بڑھتے رہیں اور اپنے شوق وسعی پیہم کو ہتھیار بنائے رکھیں ، کامیابی قدم بوس ہوگی ۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی اور ان کے کارنامے ہمارے پاس ہیں ، مزید معلومات کے کاروان حیات کا مطالعہ کریں اوران کی زندگی کے انمول موتیوں سے فائدہ اٹھاکر اپنی ذات سے سیکڑوں نہیں ، ہزاروں لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا بنائیں ۔ کوئی ضروری نہیں کہ فائدہ پہنچانے کے لئے ادارہ ہی کھولیں ، اپنے علم اور اس کے مختلف وسائل سے ، تربیت اور متعدد اسلوب وپیرائے سے ، بحث وتحقیق اور دعوت وتبلیغ سے ، فکر وفن اور اس کی نشر واشاعت سے ۔ غرض یہ ہے کہ پلیٹ فارم کی کمی نہیں ہے ، کام کرنے والوں کی کمی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کس جہت سے قوم وملت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں ؟
 

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 320 Articles with 350291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.