یاد رفتگاں: احسان دانش غربت و افلاس کا نمائیندہ شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط اول

یاد رفتگاں: احسان دانش غربت و افلاس کا نمائیندہ شاعر
افضل رضویؔ
ماناکہ نگاہوں سے بہت دور ہے دانش
ہر فکر سے آزاد ہے مسرور ہے دانش
جمہور نے بخشا ہے اسے منصبِ اعلیٰ
سرتاجِ سخن، شاعرِ مزدور ہے دانش
اردو ادب کی رومانوی تحریک نے تقریباً چالیس برس تک ہر صنفِ ادب کے نوجوان ادیبوں کو اپنے سِحر میں مقید رکھا۔اس میں شک نہیں کہ ان ادیبوں کی رومانیت کی جہتیں مختلف ہیں؛ تاہم ان سب کو اکھٹا کیا جائے تو رومانیت کے نقوش واضح ہو جاتے ہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مغرب کی طرح ہند میں بھی اس تحریک نے نئے نئے خیالات کو آشکار کیا۔جذبے کی بلند پروازی اور ادیب کو اپنے خارج سے داخل کی طرف جھانکنے نیز تخلیقی عمل سے ان دونوں میں امتیاز پیدا کرنے کی راہ دکھائی۔رومانیت کی ضد کے طور پر جس تحریک نے جنم لیا، وہ ترقی پسند تھی۔ اس تحریک نے اساسی طور پر موجود زندگی اور اس کے گرد وپیش کو اہمیت دی اور اس شعور کو بیدار کرنے کی سعی کی جس سے رومانی ادیب بالعموم اغماض برت رہا تھا۔حقیقت نگاری کا زاویہ علی گڑھ تحریک کا اساسی جزو تھا؛ جب کہ رومانی تحریک نے علی گڑھ تحریک کے خلاف ردِعمل کا ظہار کیا۔
مذکورہ بالا ہر دو تحریکوں نے اپنے اپنے پلیٹ فارم سے بے شمار ادبا ء اور شعراء کو جنم دے کر اردو نظم و نثر کو بے پناہ خزینوں سے مالا مال کیا۔شعراء کا ایک طبقہ رومانی تحریک کے ساتھ وابستہ ہو گیا؛جب کہ ایک دوسرا طبقہ ترقی پسند تحریک کا علمبردار بن گیا، مگر کچھ کا ظہور رومانی تحریک اور ترقی پسند تحریک کے سنگھم پر ہوا۔شاعروں کا وہ گروہ جو اس حوالے سے منصہ شہود پر آیا؛ ان میں ایک نمایاں نام احسان دانش کا ہے، جو 1914ء میں کاندھلہ ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے۔کون جانتا تھا کہ ایک انتہائی مفلس نیک والدین کا یہ نومولود کل کو اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔احسان دانش کے والدین کے مالی حالات ناگفتہ بہ تھے یہی وجہ تھی کہ آپ کے والد (دانش علی) حسبِ خواہش اپنے بیٹے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ نہ کر سکے۔اس بات کا ذکر دانش ؔ نے اپنی خود نوشت”جہانِ دانش“ میں کچھ اس طرح سے کیا ہے:
جب میں تیسری جماعت کے امتحان میں کامیاب ہوا اور اپنی کامیابی کی خبر گھر جاکر سنائی تو میرے والدین کے بُشروں پر بشاشت کھل گئی، جیسے ڈھلوان پر بارش سے ٹھیکریاں ٹھنڈی اور سیراب ہو کر نکھر آتی ہیں؛لیکن ایک لمحہ بعد دیکھتے ہی دیکھتے چہروں پر ایسی اداسی اتری کہ جھریاں سوتی ہوئی معلوم ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر میں عصر کا وقت ہو گیااور والدہ نماز مین مصروف ہوگئیں۔نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے دعا کو ہاتھ اٹھائے اور گڑ گڑا کرمنہ ہی منہ میں کچھ کہنے لگیں۔دیکھتے ہی دیکھتے ان کے خد وخال پر غم کا پانی پھر گیا اور آنسو جاری ہوگئے۔انہین روتے دیکھ کر میں بے اختیار بھاگ کر ان سے لپٹ گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے میری طرف سے منہ پھیر کر آنچل سے آنسو پونچھ لیے۔ میں نے رونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کچھ نہ کہا اور مجھے گلے سے لگا لیا پھر میرے والد سے کہنے لگیں، بھلا اب احسان کیسے پڑھے گا“؟
اور پھر دانش کی والدہ نے گھر کے تانبے کے برتن فروخت کر دیے تاکہ دانش کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا جاسکے مگر کب تک! دانش کے والدین مفلسی کی اس زنجیر کے حصار کو نہ توڑ سکے جو ان کی زندگی کے ساتھ لازم و ملزوم ہو چکی تھی۔ناچار اپنی تعلیم کو دانش نے خیر باد کہا اور تلاشِ معاش میں سرگرداں ہوگئے اور منشی محمود علی جو کا ندھلے میں محرر ضلعداری تھے پترولی سیکھنے لگے مگر اتنے خوش قسمت کہا ں تھے کہ یہ کام سیکھنے کے بعد فوراً ملازمت مل جاتی لہٰذا اس دور کا آغاز ہو گیا کہ جس میں در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور قسمت آزماتے رہے۔
پہلی ملازمت دہلی میں آٹھ روپے ماہانہ کے عوض بحیثیت ”انک مین“ قبول کی لیکن اسے زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکے اور پھر بادلِ نخواستہ قصبہ کے ایک مہاجن کے یہاں پانچ روپے ماہانہ پر تقاضوں کی نوکری کر لی۔یہ بھی زیادہ دیر جاری نہ رہی۔ ٹھوکروں کا یہ سلسلہ جو اوائل عمری میں شروع ہوا تا دم مرگ ساتھ رہا اور دانش زندگی بھر پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں صبر قناعت کا ایسا جو ہر پیدا کر دیا تھا کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی کبھی مایوس نہ ہوئے اور مفلسی کی چادر کو دستِ سوال سے تار تار نہ ہونے دیا۔ جہانِ دانش میں رقم طراز ہیں:
ہر چند کہ میں ابھی تک افلاس کے اونچے اونچے ٹیلوں میں بھٹک رہا ہوں لیکن مایوسی کا سایہ تک مجھ پر نہیں پڑا۔ شاید اس لیے کہ میں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنی صداقت کو داغدار نہیں کیا۔ میری زندگی قرض کی ندامت سے پاک ہے۔
دانش ؔنے حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ڈٹ کر اور صبر ورضا کا عصا ہاتھ میں تھامے سفرِ حیات یو ں جاری رکھا کہ اپنے آپ کو زمیں پر سونے اور ایک وقت کھانے کا عادی بنالیا۔ڈاکٹر فیضان دانش اپنے والد کے اس وصف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
والد صاحب زندگی کے جن جن خار زارون سیگزر کر حاتم طائی کی مدد کے بغیر جس مقام تک پہنچے، کبھی کبھی تو بڑے بڑے صاحب ِ فہم وفراست لوگوں کو بھی داستانی کردار لگنے لگتے ہیں۔ان کے آلام ومصائب جن، بھوت پریت یا کسی جادوگر کے پیدا کردہ نہیں تھے بلکہ ایک مخصوص اور محدود طبقے کی عنایات تھیں۔
اورایس۔ایف گیلانی دانش کی تحریکی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتی ہیں،”دانش شاعری کی دنیا میں آئے تو خود ایک تحریک بن کر ابھرے جو مزدور تھریک کے نام سے منظرِ عام پر آئی“۔
دانش کی شاعری میں محنت کش طبقے کی حالت نوحہئ غم سے عبارت اور نغمہئ شادی سے بے گانہ سہی، لیکن ان کی الم انگیز زندگی اپنے دامن میں کچھ ایسی خصوصیات بھی چھپائے ہوئے ہے جو اونچے طبقوں کی زندگی میں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔احسان جن مزدوروں کی تصویر کھینچتا ہے وہ اپنے غم والم کے باوجود اونچے طبقوں کی نگاہ رحم وکرم کے متمنی ہونے کے بجائے اپنی قوتِ بازو پر بھروسا کرنے والے ہیں۔ ان کی خوداری، ان کی غیرت مندی اورضمیر وایمان کی چمک مفلسی کے باوجود نیکی اور شرافت کے لیے ایسے ایسے جوہر اپنے اندر رکھتی ہے جو اعلیٰ تر انسانی معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہیں۔ان کی غربت اور افلاس طبقاتی تمدن پر ایک دھبہ سہی؛ لیکن ان کی شرافت، پاکیزگی، نفس اور ضمیر اونچے طبقوں کی بے ضمیر زندگی پر ایک زبردست استز اد اور گہری طنز ہے۔درج ذیل اشعار میں اسی مؤقف کو کس درد انگیز انداز میں بیان کیا ہے۔
کر سیوں سے اٹھ کر ان کے جھونپڑوں تک بھی تو آؤ
کیوں بلندی سے نہیں، پستی کی جانب کو بہاؤ
تابکے میلے شلوکوں میں سلگتے دل کے گھاؤ
کب بھڑک اٹھیں نہ جانے گرم سینوں کے الاؤ
وہ صرف امیروں کو ہدفِ تنقید نہیں بناتے بلکہ ایسے لوگ جو فرشتہ صفت ہیں ان کے لیے رطب اللسان بھی ہوتے ہیں؛ چنانچہ اپنی خود نوشت”جہانِ دانش“ میں ایک جگہ مزدوروں کی کسمپرسی اور حالتِ زار کے بیان میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جو رقیق القلب انسانوں کو رلا دیتا ہے۔لکھتے ہیں:
ایک دن حکیم نیئر (جو اپنے وقت کے بہت بڑے حکیم تھے) کے مطب میں ایک مفلوک الحال اور نادار قسم کا انسان آیااور نہایت عاجزی سے کہنے لگا حکیم صاحب! میری لڑکی بیمار ہے آپ اللہ کے لیے اسے چل کر دیکھ لیں۔ اس فقرے کے ادا کرتے کرتے اس کی پتلیاں آنسؤوں میں ڈوب گئیں۔ وہ بیکو کمپنی کا ایک مزدور تھا جو حکیم صاحب کے مطب سے چار فرلانگ کے فاصلے پر رہتا تھا۔
حکیم نیر واسطی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور خاموشی سے اٹھ کر اس کے ساتھ ہولیے۔ لوگ حیران تھے کہ یہ تو بڑے بڑے امرا کے یہاں اس طرح نہیں جاتے اور پھر اس وقت جب مطب مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔
حکیم صاحب اس کے کوارٹر میں گئے، میں ان کے ساتھ تھا، دیکھا کہ ایک کمزور مگر جوان لڑکی ایک جھلنگے کے چوکھٹے میں ڈوبی ہوئی لیٹی ہے اور ٹانگوں پر پرانے اخباری کاغذ ڈھکے ہوئے ہیں۔
حکیم صاحب نے پوچھا یہ اس کی ٹانگوں پر اخبار کیوں ڈالے ہوئے ہیں، پھر خفگی سے کہا ہٹاؤ انہیں۔
لڑکی کے باپ نے جھکی ہوئی آنکھوں سے جواب دیا حکیم جی! بے پردگی کے خیال سے کاغذ ڈھک دیے ہیں، بچی کا پاجامہ کئی جگہ سے پھٹاہوا ہے۔
حکیم صاحب تو یہ سن کر سناٹے میں آگئے، کھڑے کھڑے آنسؤوں سے گلہ بھر گیا اور ہونٹ کانپنے لگے۔ بمشکل ضبط کیا اور نبض دیکھ کر کچھ اور سوالات کیے جو لڑکیکی بیماری سے متعلق تھے۔ اس کیفورا'' بعد لڑکی کے باپ کو ساتھ لے کر مطب گئے اور اپنے دوا ساز سے جلد دوا تیار کرنے کے لیے تاکید کرکے اپنے زنان خانے میں گئے اور دوا کے تیار ہونے تک اپنی بیگم کے دو نئے جوڑے، ایک چادراور بیس روپے دیتے ہوئے مزدورسے کہا دیکھو یہ کپڑے اس بچی کو پہناؤ، چا در اُڑھاؤ اوراس معمولی سی رقم سے کھانے پینے کا سامان لا کر گھر میں رکھو، بلاناغہ دوا خانے سے آکر دوا لے جانا، اور بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا۔پھر نہ جانے کب تک دوا جاتی رہی۔
دانش بذاتِ خود تاجروں اور سرمایہ داروں کے زخم خوردہ تھے اور نوکر شاہی کی مثالی خود غرضی ان پر عیاں تھی؛یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی ان طبقو ں کا ذکر آجاتا ہے۔،ان کا قلم بے رحم منصف بن جاتا ہے۔ان کی ایک نظم کا بند ملاحظہ کیجیے جس میں اسی بات کی عکاسی کی گئی ہے:
دولت کے محافظ سانپوں کو بانبی میں نہ چھوڑا جائے گا
قبروں میں دریچے کھولیں گے، مردوں کو جھنجوڑا جائے گا
گمراہ عدالت گاہوں کے قانون کو توڑا جائے گا
حاکم جو رعایا دشمن ہیں دجاّل ہیں وہ حکام نہیں
اے دوست! ابھی آرام نہ کر، آرام کا یہ ہنگام نہیں
احسان دانش مزدوروں کو مقدر پر قانع رہنے کے بجائے تدبیرکی راہ سمجھاتے ہیں کیونکہ جاگیر داری اورسرمایہ داری کوئی الہیاتی چیزیں نہیں؛بلکہ سیاسی،سماجی معاشرتی اور معاشی نظام کے ناسور ہیں جن کا علاج کرکے انسان ان نظام ہائے معاشرہ کو بہتر بناسکتا ہے۔ دانش کو اس بات کا یقین تھا کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب معاشرے میں انقلاب برپا ہو گا۔دانش کی زندگی ایک مزدور کی زندگی تھی، اسی لیے انہیں مزدوروں کی کٹھن زندگی کا گہرا ادراک تھا۔وہ اپنی ایک نظم میں انہی جذبات کا اظہار کرتے ہیں:
عرشِ اعظم ہے فغان بے کساں سے متصل
قدسیوں کا ان کی خاموشی پہ پھر آتا ہے دل
ان کی فریادوں سے لگ جاتی ہے کہساروں میں آگ
ان کے آنسو لوٹ لیتے ہیں ستاروں کے سہاگ
موت کت تیور ہیں ان کی گود کے پالے ہوئے
آسماں ہے ان کے قدموں پر سپر ڈالے ہوئے
ان کی جرئات توڑ دیتی ہے طلسم ِ انتظام
ہے بغاوت ان کی باندی، انقلاب ان کا غلام
بجلیوں کی بھاگ ہے ان کی دعا کے ہاتھ میں
ہاتھ ہے ان فاقہ مستوں کا خدا کے ہاتھ میں

Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 172124 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More