یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم اپنے گھرکے ریتلے صحن
میں مٹی سے کھیلاکرتے تھے۔دیہات میں اوربڑی سڑک سے چندمیل کے فاصلے پر
ہمارا گھر ہونے کی وجہ سے وہاں ملکی اوربین الاقوامی حالات سے آگاہی
کااکلوتاذریعہ ریڈیوہواکرتاتھا۔ اس دورمیں ذرائع ابلاغ کے خاندان میں
اخبارات اور پاکستان ٹیلیوژن بھی شامل ہوچکے تھے۔ لیکن یہ دونوں سہولتیں
ہمارے جیسے دیہاتی علاقوں میں میسرنہیں تھیں۔ حالات سے آگاہی اورتفریح
کاذریعہ ریڈیوہی تھا۔ رات کے آٹھ بجے ریڈیوپاکستان سے خبرنامہ سننا دیہات
میں رہنے والے پاکستانیوں کے روزانہ کے معمولات میں شامل تھا۔ کئی لوگ
برطانوی نشریاتی ریڈیواسٹیشن سے بھی خبریں سن لیاکرتے تھے۔ ریڈیوپاکستان
ملتان سے نشرہونے والے سرائیکی پروگرام ’’جمہوردی آواز، ہکابکااوراتم کھیتی
‘‘دیہات میں رہنے والے پوری توجہ اورشوق سے سناکرتے تھے۔ اس تمہیدکامقصدصرف
یہ ہے کہ آج ہم ایک ایسے طبقہ کے بارے میں لکھ رہے ہیں کہ ملک میں جب بھی
کوئی ناخوشگوارواقعات پیش آتے ہیں اس کے ردعمل میں وہ طبقہ ضرور متاثر ہوتا
ہے ۔ اس دورمیں جب ذرائع ابلاغ کاذریعہ ریڈیوہواکرتاتھا۔ دنیاکے کسی بھی
طبقہ کے کسی بھی شخص کے پاس ریڈیوموجودہوتا چاہے اس کے گھریادکان میں
پڑارہتایاوہ اسے اپنے ساتھ لیے پھرتا ، وہ ریڈیو سے چاہے جیسے پروگرام
یاآوازیں سنتارہتا توکسی کوکوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن جس طبقہ کے بارے میں
ہم لکھنے جارہے ہیں ، اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فردکے پاس کوئی
اور شخص ریڈیودیکھ لیتا تو اسے حق اورسچ بولنے کی ذمہ داری اسی وقت
یادآجاتی ۔ وہ دیکھو جی ۔یہ دیکھوجی مولوی کے پاس ریڈیوہے۔ کوئی یہ
کہتاہواسنائی دیتا کہ مولوی کاکیاکام ریڈیوسے۔ کچھ لوگ تومولوی کوبراہ راست
مخاطب کرکے کہتے کہ مولوی صاحب!آپ کے پاس بھی ریڈیوہے؟اس طرح کے جملوں اور
فقروں کا مقصدمولوی کی تعریف نہیں بلکہ اس پرتنقیدہواکرتی۔ اس طرح کے جملوں
کے پردے میں درحقیقت یہ کہنے کی کوشش کی جاتی کہ مولوی کے پاس ریڈیونہیں
ہوناچاہیے ۔ اس دورمیں کسی بھی مولوی کے پاس ریڈیوکاہونااس کے کردارکومشکوک
بنانے کے لیے واضح اوربہترین ثبوت سمجھاجاتاتھا۔ حالانکہ ریڈیو سے حالات
حاضرہ کے پروگرام نشرہواکرتے تھے جن کاسنناکوئی گناہ یاجرم نہیں تھا اس سے
بڑھ کرمذہبی پروگرام بھی نشرہواکرتے تھے۔ مولوی کے پاس ریڈیودیکھ کرہرایک
اپنے طورپریہ سمجھ لیتاتھا کہ ریڈیو سے جوکچھ ہم سنتے ہیں مولوی بھی وہی
سنتاہے۔ اس دورمیں معلومات کے حصول اورتفریح کاایک اور ذریعہ بھی تھا جسے
ٹیپ ریکارڈرکہاجاتا۔ ریڈیوکی طرح ٹیپ ریکارڈربھی دنیاکے کسی بھی طبقہ کے
کسی بھی فردکے پاس ہوتا، وہ اس کے گھریادکان میں موجودرہتایاوہ اسے ساتھ
لیے پھرتا، چاہے وہ ٹیپ ریکارڈر سے جس طرح کے بھی کیسٹ سنتا توکسی کوکوئی
اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن یہی ٹیپ ریکارڈرکسی مولوی کے پاس کوئی اورشخص دیکھ
لیتا تووہ ٹیپ ریکارڈرکے مولوی کے پاس ہونے پرتبصرہ کرناضروری سمجھتا۔ کوئی
کہتا کہ وہ دیکھوجی مولوی کے پاس بھی ٹیپ ریکارڈرہے۔ کوئی یہ کہتا کہ یہ
دیکھوجی مولوی نے بھی اپنے پاس ٹیپ ریکارڈررکھاہواہے۔ کوئی یہ کہتے ہوئے
سنائی دیتا کہ مولوی کے پاس ٹیپ ریکارڈر کیا کر رہا ہے ۔ کسی کے الفاظ کچھ
یوں ہواکرتے کہ ’’مولوی کاٹیپم ریکارڈرسے کیاتعلق ؟‘‘ اس طرح کے جملوں کا
فقروں کامقصد بھی مولوی کی تعریف نہیں بلکہ تنقیدہی ہواکرتی تھی۔ ریڈیوکی
طرح ٹیپ ریکارڈرکابھی کسی بھی مولوی کے پاس موجودہونااس کے کردارکومشکوک
ثابت کرنے کے لیے کافی تھا۔ حالانکہ ٹیپ ریکارڈرپرمذہبی کیسٹ بھی سنے جاتے
تھے۔ ملک کے نامورعلماء کرام اورنعت خوانوں کی کسیٹیں عوام سناکرتے تھے۔
ہمارے علاقے میں پیر سیّد خورشید احمدشاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ،
پیرسیّدگانمن شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ،مولانااﷲ بخش نیّر اورمایہ نازنعت
گوسرائیکی شاعرمولانااﷲ بخش کوثر رحمۃ اﷲ علیہ کے کیسٹ لوگ عقیدت واحترام
کے ساتھ سناکرتے۔ ریڈیوکی طرح ہرایک یہی تصورکرلیتاتھا کہ ٹیپ ریکارڈرپرہم
جوکچھ سنتے ہیں مولوی بھی وہی کچھ سنتاہے۔ ٹیکنالوجی نے اورترقی کی توبہت
سی پرانی ایجادات کی جگہ موبائل نے لے لی۔ ریڈیواورٹیپ ریکارڈرکی طرح
دنیاکے کسی بھی طبقہ کے کسی بھی شخص کے پاس موبائل ہو وہ اس موبائل کوجس
طرح بھی استعمال کرتاہو، جس طرح کے بھی لوگوں سے رابطہ رکھتاہو، وہ اپنے
مطلوبہ نمبرپرچاہے جس طرح کی بھی گفتگوکرتاہو ،وہ موبائل کے ممیوری کارڈ سے
چاہے جوکچھ بھی سنتا اور دیکھتاہو کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوتا ، یہی
موبائل کسی مولوی کے پاس دکھائی دے تووہی پرانے جملے اورفقرے سننے کوملتے
ہیں کہ وہ دیکھوجی مولوی کے پاس بھی موبائل ہے، موبائل کی ٹیکنالوجی نے
اورترقی کی توٹچ موبائل مارکیٹ میں آگئے۔ ٹچ موبائل نے دنیاکوسمیٹ کررکھ
دیاہے۔ دنیاکے کسی بھی طبقہ کے کسی بھی شخص کے پاس ٹچ موبائل ہووہ اس
موبائل کوچاہے جس طرح بھی استعمال کرتاہو، چاہے وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اس
موبائل پرجس طرح کی بھی ویڈیوزاورتصاویردیکھتاہو، کسی کوئی اعتراض نہیں
ہوتا، یہی ٹچ موبائل کسی مولوی کے پاس نظر آجائے تویہ مولوی کے
کردارکومشکوک ثابت کرنے کے لیے ناقابل تردیدثبوت بن جاتاہے۔ مولوی کے پاس
ٹچ موبائل دیکھ کراس پرتبصرہ کرنا ہرایک اپنی ذمہ داری سمجھتاہے۔کسی بھی
مولوی کے پاس ٹچ موبائل دیکھ کرکوئی کہتا ہے کہ مولوی کے پاس بھی موبائل
ہے، کوئی کہتاہے کہ مولوی کاموبائل سے کیاکام ۔ کوئی یہ کہتاہواسنائی
دیتاہے کہ مولوی نے موبائل کاکیاکرناہے۔ مولوی کے ہاتھ میں موبائل دیکھ
کرہرایک یہی تصورکرلیتاہے کہ جس طرح ہم موبائل فون استعمال کرتے ہیں مولوی
بھی اسی طرح استعمال کرتے ہیں۔ ٹچ موبائل پرجوکچھ ہم دیکھتے ہیں مولوی بھی
وہی کچھ دیکھتاہے۔مولوی کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کرجوجملے اورفقرے کہے جاتے
ہیں ان کامقصدبھی مولوی کی تعریف نہیں تنقیدہوتاہے۔ ایسے جملوں سے یہ بھی
ظاہرہوتاہے کہ اکثرطبقات یہ سمجھتے ہیں کہ ریڈیوہو، ٹیپ ریکارڈرہویاٹچ
موبائل جدیدٹیکنالوجی سے مولوی استفادہ نہیں کرسکتا۔حالانکہ ٹچ موبائل
پرقرآن پاک کی تلاوت، نعت شریف، علمائے کرام کے خطابات اوردیگرمذیبی وسماجی
پروگرام سن سکتے ہیں۔ ایسے واٹس ایپ گروپ بھی کام کررہے ہیں جولوگوں کے
شرعی مسائل کے جواب دیتے ہیں۔ یہ توصرف چندمثالیں ہیں۔ اس معاشرے میں مولوی
پرتنقیدکرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیاجاتا۔ مولویوں کے بارے میں
معروف تجزیہ کار اوریا مقبول جان کیاکہتے ہیں اس کی یاددہانی ہم بعدمیں
کرائیں گے۔پہلے مولویوں ،مساجداورمدارس کے خلاف اب تک حکومتی سطح پرجوکچھ
ہوتا آرہاہے۔ اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ملک میں جب بھی کوئی
ناخوشگوارواقعہ پیش آیا تومولویوں اورمساجدکوضرورمشکلات
کاسامناکرناپڑا۔شایدکسی کویادہوکہ ایک دورایسابھی تھا کہ جب مذہبی جلسوں
اورمساجدمیں عین نمازکے وقت آئے روزفائرنگ کے واقعات ہوتے رہے۔ ان واقعات
میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ جہاں تک ہمیں یادہے۔ عوام کی جان
ومال کی حفاظت کے لیے اس وقت کی حکومت نے مذہبی جلسوں کواجازت سے مشروط
کردیا۔ اس کے بعدمذہبی جلسوں میں لاوڈسپیکرکے استعمال پرپابندی لگادی گئی۔
ایک وہ دورتھا جب ہر جمعہ کے روزنمازجمعہ کے وقت مساجدکے درودشریف، نعت
شریف اورعلمائے کرام کے خطابات کی آوازیں ملک کی ہواؤں اورفضاؤں
کومعطرکردیتی تھیں۔ گھروں میں بیٹھی ہوئی خواتین بھی اسلامی تعلیمات سے
آگاہی حاصل کرلیاکرتی تھیں۔ اس کے بعدمساجداورنمازیوں کی حفاظت کے لیے لاؤڈ
سپیکرکواذان اورجمعہ کے عربی خطبہ تک محدودکردیاگیا۔اذان اور جمعہ کے عربی
خطبہ کے علاوہ لاؤڈ سپیکرکے استعمال پرپابندی لگادی گئی۔ اب تک فسادکی جڑ
مولوی اورمساجدکے چھتوں پرلگے لاؤڈ سپیکرتھے۔ مذہبی جلسوں اورمساجدسے شروع
ہونے والی دہشت گردی نے سیاسی جلسوں اورسیاست دانوں کی طرف رخ کیا توحکومتی
ایوانوں کواس بارے اپنی پالیسی کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت محسوس
ہوئی۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہواتواس کے سدباب کے لیے
دیگراقدامات کے ساتھ ساتھ مساجد کی چھتوں پرلگے لاؤڈ سپیکراتاردیے گئے صرف
ایک لاؤڈ سپیکرکی اجازت دی گئی۔ ایک لاؤڈ سپیکرکارخ بھی ایک طرف ہوتاہے
دوسری رخ میں رہنے والے نمازی یہ شکایت کرتے ہوئے سنائی دیے کہ ہمیں اذان
سنائی نہیں دیتی۔ حکومتی اورسیکیورٹی اداروں کی موثرپالیسیوں کی بدولت دہشت
گردی کے واقعات کاسلسلہ رک گیاتوکروناوائرس نے دنیاکواپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یہ ایسامرض ہے جس کاعلاج صرف اورصرف گھروں میں رہنا اورباہرنہ نکلنا ہے۔ اس
وائرس سے بچنے کااکلوتاطریقہ گھروں سے باہرنہ نکلناہے۔ عوام کواس وائرس سے
محفوظ رکھنے کے لیے دنیاکے دیگرممالک کی طرح وطن عزیزپاکستان میں بھی
صوبائی سطح پرلاک ڈاؤں کااعلان کیاگیا۔ مارکیٹیں، بازار، کھیلوں کے میدان،
پارک اورتعلیمی ادارے بھی بندکردیے گئے۔ کروناوائرس سے بچاؤ کے لیے موجودہ
حکومت سے سب سے زیادہ تعاون علماء کرام نے کیاہے۔ علماء کرام نے اپنے طے
شدہ اورتشہیرشدہ جلسے منسوخ کردیے۔ مدارس میں چھٹیاں کردیں۔ حکومت کی طرف
سے اعلان ہواکہ مساجدمیں تین سے پانچ افرادنمازپنجگانہ اورنمازجمعہ اداکریں
۔باقی افرادگھروں میں نمازاداکریں۔ ایک ایسے وقت میں جب لوگوں کواﷲ کی طرف
رجوع کرناچاہیے تھا۔ جب مساجدمیں بیٹھ کراﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی
مانگنی چاہیے تھی عوام کو مساجدسے دورکردیاگیا۔ بات کومزیدآگے بڑھانے سے
پہلے کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگرفسادکی
جڑمولوی،مذہبی جلسے اورلاؤڈ سپیکرہی تھے تومذہبی جلسوں کواجازت سے مشروط
کرنے اورلاؤڈ سپیکرکے استعمال پرپابندی کے بعدیہ سلسلہ رک جاناچاہیے تھا۔
پہلے یہ سلسلہ فائرنگ کے واقعات تک محدودتھا پھریہ بم دھماکوں اورخود کش
حملوں میں تبدیل ہوگیا۔پہلے یہ واقعات مذہبی جلسوں اورمساجدمیں ہوتے تھے
پھریہ سیاسی جلسوں میں ہونے لگے۔ پہلے دہشت گردوں کانشانہ مولوی ہواکرتے
تھے پھرسیاست دان بھی اس کانشانہ بننے لگے۔فسادکی جڑمذہبی جلسے اورلاؤڈ
سپیکرہی تھے توپابندی کے بعددہشت گردی سیاسی جلسوں، سیاست دانوں اوراداروں
کارخ نہ کرتی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کروناوائرس سے بچاؤ کے لیے
دیگرحفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنابھی ضروری ہے۔اس
لاک ڈاؤن میں بھی کئی جگہوں پرکام جاری ہے۔ زندگی کی گاڑی کورواں رکھنے کے
لیے یہ ضروری بھی ہے۔ جن حفاظی اقدامات اورشرائط پردیگرجگہوں پرکام جاری ہے
انہی اقدامات اورشرائط پرمساجدمیں بھی باجماعت نمازپنجگانہ اورنمازجمعہ
اداکرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ایک دوسرے سے فاصلہ رکھناضروری ہے اس لیے
مساجدمیں بھی نمازی فاصلہ رکھ کرباجماعت نمازپنجگانہ اورنمازجمعہ اداکریں۔
اس عنوان پرتمام مسالک کے علماء سے مشاورت کی جاسکتی ہے۔ ماسک اوردستانے
پہن کرمساجدمیں آئیں، ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملائیں۔ کیاکوئی بتاسکتاہے کہ
ایک امام مسجدجب نمازپڑھارہاہووہ نئے آنے والے نمازیوں کوکیسے روک سکتاہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے مساجداورآئمۃ المساجدسب سے زیادہ متاثرہوئے ہیں۔ اکثر
مساجدکانظام جمعہ کے چندہ اوربازاروں سے اکٹھے کیے گئے چندہ پرہوتاتھا۔
مساجدمیں پانچ نمازی زیادہ سے زیادہ کتناچندہ دیں گے۔ اس سے امام مسجد و
خطیب کی تنخواہ، مسجدکابل اوردیگراخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ مساجدمیں پانچ
سے زیادہ نمازیوں کاہوناتوامام مسجدکاجرم ٹھہراکیا اس کی مشکلات او ر مسائل
کے بارے میں بھی کسی نے سوچاہے۔ امام مسجدکی بھی معاشی اورسماجی ضروریات
ہیں۔ اس کے بھی بیوی بچے ہیں۔ اکثرآئمۃ المساجدکی تنخواہیں اتنی محدودہوتی
ہیں کہ عام آدمی اس تنخواہ میں ایک ہفتہ کاگزارابھی نہیں کرسکتا۔ اب تک
حکومتی سطح پرکوئی ایسی پالیسی نہیں آئی جس میں آئمۃ المساجدکی معاشی
مشکلات کوکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آئمۃ المساجدکے معاشی مسائل ہمارے
پالیسی سازوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہے۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں
کوآئمۃ المساجدکے معاشی مسائل کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ اوریامقبول جان
کہتے ہیں کہ ہم نے مولویوں کے ذمہ تین کام لگائے ہیں ، نماز پڑھانی ہے،
نکاح پڑھاناہے اورجنازہ پڑھاناہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مولویوں اپنی ان ذمہ
داریوں کوپوری ذمہ داری سے اداکررہے ہیں۔ آج کوئی نکاح یا جنازہ اس وجہ سے
تاخیرکاشکارنہیں ہواکہ مولوی ہڑتال پرہے اورنہ ہی مولوی نے کبھی یہ کہاہے
کہ جب تک اس کی تنخواہ نہیں بڑھائی جائے گی وہ نماز نہیں پڑھائے گا۔ |