سچ تو یہ ہے کہ عوام کو اس سے
کوئی سروکارنہیں کہ حکومت کس کی ہے ، اس میں ق لیگ کے شامل ہونے سے ترقی کی
کونسی راہیں کھلیں گی، ن لیگ کے حکومت چھوڑ جانے سے ملک کس قدر پیچھے چلا
جائے گا، شاید صدیاں پیچھے یا شاید پتھر کے زمانے تک۔عوام کو اس سے بھی
کوئی غرض نہیں کہ ایم کیو ایم ایک سال میں کتنی دفعہ حکومت میں شامل ہوتی
ہے ، اور کتنی دفعہ ناراض ہوکر حکومت سے نکل جاتی ہے،اور کچھ مطالبات
منوانے کے بعد نئے سرے سے حکومت میں شامل ہوجاتی ہے۔ عوام کو اس سے بھی
کوئی واسطہ نہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کب چھوڑتے ہیں اور کب دوبارہ جوائن
کرتے ہیں۔عوام کو اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ ق لیگ کا پی پی سے اتحاد
قائم رہ سکے گا بھی یا نہیں، آیا یہ فطری اتحاد ہے یا غیر فطری۔
عوام کو سروکار ہے بجلی سے، لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی معطل کر رکھی ہے ،
اگر بجلی شیڈول پر بھی آئے جائے تو بھی دس گھنٹے جدائی کے صدمے برداشت کرنے
پڑتے ہیں، لیکن یہاں شیڈول پر بھلا کونسا کام ہوتا ہے ،سوائے بے اصولی اور
کرپشن کے، کہ ان دونوں کاموں میں نہ ہی بددیانتی برداشت ہوتی ہے اور نہ ہی
تاخیر ، یہ دونوں کام نہایت دیانتداری کے ساتھ انجام پذیر ہوتے ہیں۔اگر مئی
کی گرمی میں ایک ایک دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی نہیں ہوگی، تو نظام
زندگی کیسے چلے گا؟ اب دنیا کے اکثر کام بجلی کے مرہون منت ہیں، بازاروں کے
بازار لوگ ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر دوسرے اور تیسرے گھنٹے کا انتظار کرتے ہیں
، لگتا ہے یہ زندگی ہی انتظار میں گزر جائے گی۔
عوام کو غرض ہے پٹرولیم کی قیمتوں سے ، کہ ان کی کاروباری زندگی بھی مفلوج
ہوئی پڑی ہے، نہ موٹر سائکل چلتی ہے نہ کار ، نہ کارخانہ اور نہ ہی کاروبار،
نہ جنریٹر چلتا ہے اور نہ ہی ٹرانسپورٹ ۔ ستم یہ کہ ڈیزل کی قیمتیں پٹرول
سے بھی آگے جاچکی ہیں،ہر چند روز بعد پٹرولیم کی قیمتوں کا ایک ڈرون حملہ
ہوتا ہے ، عوام کی ایک چیخ نکلتی ہے اور اس کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے،
حکمران اور عوام پھر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ حکمران عوام کا
خون چوسنے میں اور عوام ایڑیاں رگڑنے میں ۔
عوام کو واسطہ ہے امن وامان سے ، کہ نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ مال، نہ
کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ آبرو۔حکمرانوں کے گرد سیکورٹی کے حصار بڑھتے
جارہے ہیں، ان کے پرٹوکول کے قافلے مزید طویل ہوتے جارہے ہیں،پولیس جو عوام
کی حفاظت پر مامور ہونی چاہیے، وہ خود پولیس کے افسران ، چھوٹی بڑی
بیوروکریسی اور حکمرانوں کی حفاظت پر مامور ہے ۔ کسی آرپی او کا دفتر
ملاحظہ کرلیں، معلوم ہوگا کہ اس شہر کا سب سے اہم اور قیمتی فرد اسی دفتر
میں رونق افروز ہے۔رہے عوام تو ان کی حفاظت کے لئے پولیس کی نفری ہی نہیں۔
یہاں اغوا برائے تاوان ہے ، یہاں ڈاکے ہیں، یہاں سٹریٹ کرائم ہے ، کیونکہ
ان کو روکنے کے لئے پولیس فارغ نہیں۔
عوام کو دلچسپی ہے اشیائے ضرورت کی قیمتوں سے ، مگر یہ قیمتیں ہیں کہ آسمان
سے باتیں کررہی ہیں، عوام انہیں صرف دیکھ سکتے ہیں، خریدنے کی سکت صرف خواص
میں ہوسکتی ہے ، کوئی سبزی چالیس روپے سے کم کلو نہیں ملتی، ایک عدد کیلا
آپ کو پانچ روپے سے کم میں نہیں ملے گا، سیب کے بارے میں عام آدمی اپنے
بچوں کو صرف زبانی معلومات ہی فراہم کرسکے گا، دالیں ، گھی ، چینی اور
استعمال کی عام چیزیں عوام کے ہاتھوں سے اچک لی گئی ہیں، ہر طرف بے بسی اور
بے حسی کا ڈیر ہ ہے ۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جس طرح عوام کو سیاستدانوں کی پینترا بازی سے کوئی
سروکار نہیں ، اسی طرح حکمرانوں کا عوام کے مسائل اور پریشانیوں سے کوئی
واسطہ نہیں ، لوڈشیڈنگ ہے تو حکمرانوں کی جانے بلا، پٹرول کی قیمتیں بڑھتی
ہیں ، تو حکمرانوں کو کیا کہ ان کا پٹرول تو سرکاری ہے ، دلدل جیسے قالینوں
میں دھنسے ہوئے حکمران عوام کے مسائل پر توجہ کیوں دیں ، کیونکہ وہ ان
مسائل سے آزاد ہیں، مگر کیا اس تضاد کا کوئی حل ہے، کیا وسائل کا یہ وسیع
خلیج کبھی پر ہوسکے گا اور یہ کہ عیاشیوں اور مجبوریوں کی اس جنگ کا انجام
کیا ہوگا؟ |