کورونا کے تعلق سے عوام میں سب سے زیادہ فکر مندی لاک
ڈاون سے متعلق ہے ۔ اس معاملے میں امیر اور فقیر کی کیفیت یکساں ہے۔ مکیش
امبانی کو دکھ ہے اسے 19سو کروڈ کا نقصان ہوچکا ہے۔گوتم اڈانی ۶ سو کروڈ ،
شیو ناڈر ۵ سو کروڈ اور اودے کوٹک ۴ سو کروڈ کا خسارہ کر بیٹھے ہیں اور
نہیں جانتے کہ یہ ریت کی دیوار کہاں تک سرکے گی؟ ہر دن کنواں کھود کر پانی
پینے والےغریب مزدور فاقہ کشی کا شکار ہونے لگے ہیں ۔ امدادی رقم پر گزارہ
ان کی عزت نفس کے خلاف ہے۔ وہ ہاتھ پھیلا کر نہیں بلکہ محنت سے اپنی روزی
کماکر عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ ان پر انتظار کا ایک ایک پل قیامت
ہے۔حکومت ٹھیکیداروں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کا خیال رکھیں اور
بغیر کام کے تنخواہ دیں لیکن انسانیت سے عاری کنٹراکٹر گدھے کے سر سے سینگ
کی مانند غائب ہوگئے ہیں ۔ انسانی ہمدردی کے ناطے اپنی ذمہ داری ادا کرنے
والے چھوٹے موٹے ٹھیکیداروں کو یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ ان کی مختصر سی جمع
پونجی کب تک کام چلائے گی؟ بغیر آمدنی کے اپنا اور اپنےملازمین کا پیٹ
کیسے بھرا جائے گا؟
دیش بندی کو ختم کرنے کا فیصلہ تو بہر حال سیاستداں کریں گے لیکن ان پر سے
عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے اس لیے کسی یقین دہانی پر یقین کرنے کے بجائے
لوگ مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ اس بابت
سیاستدانوں کو بھی پوری طرح قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ عوام وخواص
دونوں کا معاملہ گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ کا ہے۔ سیاسی رہنما بھی
چونکہ عوام کے درمیان سے اقتدار میں جاکر ان کی نام نہاد نمائندگی کرتے ہیں
اس لیے دونوں کی طبیعت میں عجلت پسندی کا عنصر یکساں ہے۔ کورونا سے متعلق
سیاستدانوں کے بیانا ت کا دارومدار اپنے صوبے میں روزآنہ کی بنیاد پر
متاثر ہونے والوں یا اموات کی تعداد میں کمی یا اضافہ پر منحصر ہوتا ہے ۔
پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہوگا لیکن فیصلوں کی ترسیل میں گوں ناگوں وجوہات کے
سبب تاخیر ہوجاتی تھی ۔ حالات کی تبدیلی اور مزید غورو خوض ان میں تبدیلی
کا سبب بنتا تھا لیکن اب تو ہر کسی کے پاس ٹوئٹر نام کی چڑیا ہے جو منٹوں
کے اندر حکمرانوں کے فیصلے کروڈوں لوگوں تک پہنچا کر انہیں تشویش میں مبتلا
کردیتی ہے ۔
آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راو نے پہلے تو مذکورہ تعداد میں
کمی کو دیکھ کر اعلان کیا کہلاک ڈاون کو مرحلہ وار اٹھانے کا منصوبہ
بنرہاہے ۔ عوام کو پر امید ہوگئے کہ یہ سلسلہ 14 اپریل سے پہلے شروع ہوجائے
گا اور بہت جلد حالات زندگی معمول پر آجائیں گے۔ اس کے دو دن بعد جب
مٹاثرین کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوگیا توانہوں نے لاک ڈاون کی مدت میں
دوہفتوں کی توسیع کا عندیہ دے کر عوام کی توقعات پر اوس ڈال دی۔ اسی طرح
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا کہ
لاک ڈاون وقت مقررہ پر ختم ہوجائے گا ۔ عوام نے سوچاممکن ہے یوگی مہاراج نے
کورونا کو قابو میں کرنے کا کوئی جنتر منتر ڈھونڈ نکالا ہو لیکن ایک دن بعد
وہ بھی پلٹ گئے اور کہہ دیا جب تک صوبے میں ایک بھی کورونا سے متاثر ہوگا
لاک ڈاون نہیں ہٹے گا۔ گویا میعاد ہی ختم ہوگئی خیر یوگی جی کے بیانات کو
سنجیدگی سے کوئی نہیں لیتا وہ تو بس تفریح کے لیے پڑھے جاتے ہیں ۔ مثلاً یہ
کہ ہم توکورونا پر قابو پاچکے تھے لیکن تبلیغی جماعت نے کھیل بگاڑ دیا ۔ اس
کو پڑھ کر بیک وقت ان کی عقل پر ہنسی اور رونا دونوں آتا ہے۔
اس دوران مودی سرکار کے کابینی سکریٹری راجیو گوبا نے سرکاری ٹوئٹر
ہینڈلپرلکھا کہ "21 دن کے لاک ڈاؤن کو بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔لاک
ڈاؤن کی توسیع سے جڑے دعوے بے بنیاد ہیں اور حکومت نے ابھی تک اس بارے میں
کوئی حکمنامہ جاری نہیں کیا ہے۔ ایسی افواہوں کے شکار نہ بنیں۔“ یہ بیان
چونکہ ایک غیر سیاسی افسر کی جانب سے آیا تھا اس لیے لوگوں نے اطمینان کا
اظہار کیا لیکن اب پتہ چلا ہے کہ اسے بھی ہٹا لیا گیا ہے۔ اس طرح گویا وہ
سکون بھی غارت ہو گیا ۔ باوثوق ذرائع سے یہ خبر بھی آرہی ہے کہ اس وباء کا
مقابلہ کرنے کے لیے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی سربراہی میں وزراء کا جو
گروہ تشکیل دیا گیا تھا اس نے ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد سفارش کی ہے کہ
اسکول ، کالج ، شاپنگ مال اور مذہبی مقامات کو15 مئی تک بند رکھا جائے۔ اس
کا مطلب ہے کہ اگر لاک ڈاون اپنے وقت پر ختم ہوجائے تب بھی مزید ایک ماہ
احتیاط کیا جائے۔ مذہبی مقامات اور مالس کی نگرانی کے لیے ڈرون کے استعمال
کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ مئی کے بعد جون کے اواخر تو ویسے بھی تعلیمی
اداروں میں تعطیلات ہوتی ہیں ۔ ملک ۸ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے لاک ڈاون کی
توسیع کا مطالبہ کیا ہے
وزیر اعظم ان سفارشات کی روشنی میں وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ
کر کے اس بابت کوئی حتمی فیصلہ کریں گے۔ عوام کے اندر فی الحال یہ اندیشہ
زور پکڑ رہا ہے کہ لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کا فرمان جاری کرنے کے لیے
جلد ہی مودی جی رات ۸ بجے ٹیلی ویژن کے پردے پر نمودار ہوں گے اور کوئی نیا
تماشا دکھا کر رفو چکر ہوجائیں گے۔ وزیر اعظم چونکہ عیش کررہے ہیں اور نہیں
جانتے کہ عوام پر کیا گزر رہی ہے، اس لیے تالی ، تھالی اور دیا بتیّ سے
کھیل رہے ہیں ۔ یہ کورونا کی آفت اگر اس وقت آتی جب وہ چائے بیچا کرتے
تھے تو انہیں دال آٹے کا بھاو پتہ چل جاتا لیکن خیر مصیبت اور عافیت کا
وقت مشیت نے طے کررکھا ہے اور ہر فرد بشر کو ایک دن اس حساب دینا ہے کہ اس
نے مصیبت کی گھڑی میں کیسے صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور عافیت کے دوران
کیسے شکر و احسان کا معاملہ کیا ۔ اس دارِ فانی میں مصیبت اور عافیت دونوں
عارضی ہیں لیکن ہر انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ روز محشر کے امتحان میں
حاصل ہونے والا نتیجہ دائمی ہوگا ۔ وہاں کوئی کسی کے کام نہیں آسکے گا ۔
ارشادِ ربانی ہے’’’’ اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر
شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو
گے تو میری سزا بہت سخت ہے ‘‘۔ ایسا لگتا ہے کہ کورونا کی وباء بنی نوع
انسان کو خبردار اور بیدارکرنے کے لیے آئی ہے۔ |