مسجدوں کو رمضان میں عبادت کے لیے کھولا رکھا جائے

پانچ سو سال بعد سپین کی فضاؤں میں اذان کی صدا سنائی دی اور جس سرزمین پر کبھی مسلمانوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی آج وہاں کے لوگ ایک بارپھر اسلام کی جانب لوٹ رہے ہیں ‘ جرمنی جومذہبی طور پر عیسائی ملک ہے ‘ وہاں بھی سپیکر پر اذان کی آواز سننے کو ملی تو دل خوش ہوگیا ۔کرورانا وائرس کی وبا نے جب سے چین ‘ یورپی ممالک اور امریکہ پر تباہی پھیلائی ‘گناہوں کی دلدل میں اتری ہوئی اقوام کوبھی خدا یاد آنے لگا ہے وہ تیزی سے اسلام کی جانب راغب ہو رہے ہیں ۔ لاس ویگاس کے تمام ہوٹلوں میں جوئے خانے بندکردیئے گئے ہیں ‘ ایمسٹرڈیم میں جسم فروشی کی آمجگاہوں میں تالے لگ چکے ہیں جن کی سالانہ آمدنی 10بلین ڈالر ہواکر تی تھی ‘ آج دنیا میں ہم جنس پرستوں ‘ نائٹ کلبوں کو بھی بند کیاجاچکاہے ‘وہ کون کونسی خرافات تھیں جنہیں ان یورپی ممالک میں اہتمام سے نہیں کیاجاتا تھا ۔یہی وہ ممالک ہیں جہاں توبہ نعودذ باﷲ نبی کریم ﷺ کے توہین آمیز خاکے بنائے جاتے تھے ۔ آزادی اظہار کی آڑ میں قرآن پاک کو بھی جلایا جاتارہا ہے ۔یہ لوگ اس قدر بے خوف ہوچکے تھے کہ انہیں خدا کا خوف بھی نہیں رہا تھا ۔دنیا کی زندگی کو ہی پرلطف بنانے میں ہر وہ حربہ استعمال کررہے تھے جو قدرت الہی کے لیے انتہائی ناپسندیدہ قرار پاچکا تھا ۔قرآن پاک میں انسان کو جن خرافات اور گناہوں سے منع کیاگیا تھا وہی گناہ دیدہ دانستہ سرے انجام پارہے تھے ۔ جب گناہ اور نافرمانیاں حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں تو قدرت الہی جوش میں آتی ہے ۔اب اصلاح احوال کے لیے کوئی نبی زمین پر نہیں اترے گا کیونکہ حضرت محمد ﷺ آخری نبی چودہ سو سال پہلے دنیا میں تشریف لاچکے ہیں اب تو مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کا انتظار ہے ۔ بہرکیف انسان نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ دنیا کے تمام طیارے گراؤنڈ کردیئے جائیں گے ‘ تمام ٹرینیں روک دی جائیں گی حتی کہ زندگی کا پہیہ بھی رک جائے گا موت کے خوف سے انسان ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے ۔ کبھی یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھاکہ امریکہ جیسا مغرور اور بددماغ ملک شرح سود کو صفر پر لے آئے گا ‘ مسلمان خواتین کو حجاب کرنے پر سزا دینے والے بیہودہ لوگ آج نہ صرف پورے جسم کو ڈھانپ رہے ہیں بلکہ نقاب اور دستانوں کے بغیر گھر سے باہر بھی نہیں نکلتے ‘ موت کے خوف نے انہیں اپنے گھروں تک محدود کردیاہے ۔کہاں ہیں وہ متکبر اور ملحد لوگ جو خدا کے وجود سے ہی انکار کیا کرتے تھے ۔وہ بے حیا لوگ جو نام نہاد لبرل ازم کا سہارا لے کر یہ کہاکرتے تھے کہ "میرا جسم میری مرضی"۔کہاں ہیں وہ ادارے جو ان مادر پدر آزاد لوگوں کوایوارڈ دے کر ان کی قومی سطح پر تشہیر کیاکرتے تھے‘ سب اپنی موت مر گئے رہے ناں اﷲ کا ۔ آج دنیا میں کوئی سپر پاور نہیں ہے صرف میرے رب کی حکمرانی ہے ‘ مسلمان ہو یا عیسا ئی ‘یہودی ہو یا کسی اورمذہب کا پیروکار سب آسمان کی طرح امید افزا نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔کوئی مرنانہیں چاہتا لیکن موت سے کوئی بچ بھی نہیں سکتا ۔ یہ نظام قدرت ہے ۔ عالمی سطح پر جو ہونا تھا وہ ہورہا ہے لیکن وطن عزیز میں کرورانا وائرس کی آڑ میں نہ عاقبت اندیشہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خرابی کی جانب گامزن ہیں ۔ وہ مسجدیں جو اﷲ کاگھر ہیں ان کو غیر ضروری طور پر بند رکھاجارہا ہے ‘اور جس مسجد میں پانچ نمازیوں سے زائد موجود ہوں وہاں امام کو گرفتار کیاجارہا ہے جو سراسر زیادتی کے مترادف ہے ایک تصویر سوشل میڈیا پر نظر آئی جس میں وزیراعظم عمران خان ایکسپوسنٹر میں کرورانا وائرس کے نئے ہسپتال کا معائنہ کررہے تھے جہاں پچاس سے زائد افراد ایک ہی چھت کے نیچے جمع تھے ‘ایک امام مسجد نے اس تصویر کے نیچے لکھا" کیا کرورانا وائرس صرف مسجدوں میں ہی حملہ آور ہوتا ہے یہاں تو پچاس ساٹھ لوگ جمع ہیں"۔ بہرکیف چند ہفتو ں بعد رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ " رمضان" شروع ہورہا ہے ‘ اس مقدس مہینے میں مسجد وں میں نمازیں اور تراویح پڑھنا اس لیے ضروری ہے کہ اﷲ اس بابرکت مہینے میں اپنے بندوں کی دعاؤ ں کو قبول کرتا ہے ‘ انڈونیشیا کی طرح ایک نمازی کی جگہ چھوڑ کریہاں بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ محکمہ اوقاف والے مسجدوں کو بندکرنے کا حکم نامہ تو پہنچا رہے ہیں لیکن انہیں امام مسجد‘ موذن اور خطیب کے مسائل کا ہرگز علم نہیں کہ ان کو بھی راشن اور احساس پروگرام کے تحت 12ہزار ضرورت ہے ان کے بچے بھی روٹی مانگتے ہوں گے۔ یہاں "کروانا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے" کی تکرار جاری ہے۔مفتی اعظم پاکستان مولانا منیب الرحمان نے تصحیح کرتے ہوئے فرمایا یہ فرعونی الفاظ اﷲ کے غصے کومزید بڑھا سکتے ہیں انسان کی اوقات ہی کیا کہ وہ آسمان سے نازل ہونے والی کسی آفت کا مقابلہ کر سکے بلکہ حکمرانوں سمیت ہر پاکستانی کو نماز توبہ اور اجتماعی طور پر آیت کریمہ کا ورد شروع کرنا چاہیئے۔ اگر آیت کریمہ پڑھنے سے حضرت یونس علیہ السلام کو چاراندھیروں سے نجات مل سکتی ہے تو اﷲ ہمیں بھی کرورانا وائرس نجات عطا کرسکتا ہے۔آخر میں صرف یہ کہوں گا کہ اگر حکومت غریب اور ڈیلی ویجز افراد کی مدد کرنا چاہتی ہے تو اسے وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیئے جو یوٹیلیٹی بلز کو گھروں تک پہنچانے کا طریقہ اختیار کر رکھاہے اگربجلی گیس کے بل گھروں میں پہنچ سکتے ہیں تو راشن اور احساس پروگرام کے 12ہزار بھی مل سکتے ہیں۔ اس موقع پرعام لوگوں کے ساتھ ساتھ موذن ‘ امام مسجد اور خطیب حضرات کو ہرگز نہ بھولا جائے ۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے نکاح اور قرآن پاک کی ٹیویشن بھی بند ہوچکی ہیں۔ قصہ مختصر میری ذاتی رائے میں رمضان میں ہر حال میں مسجدیں عبادت کے لیے کھلی رہنی چاہیئے تاکہ خداکی رحمت کو وسیلہ بناکر کورانا وائرس سے نجات حاصل کی جاسکے۔
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784736 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.