بیٹی جس کا وجود اسلام سے قبل باعث شرمندگی سمجھا جاتا
تھا۔ جن کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کی پیدائش کا سن کر زمانہ
جاہلیت کے لوگوں کے رنگ سیاہ پر جاتے تھے۔ جسے قرآن میں یوں بیان کیا گیا
ہے :
ترجمہ: " جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو
اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا
ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔
سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو،
کیسے برے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں۔" (سورة النحل)
اسلام سے پہلے بیٹیوں کی کوئی عزت نہ تھی ۔ ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے
دیکھا جاتا تھا۔ بیٹیوں کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے۔ بلکہ ان سے زندہ رہنے کا
حق بھی چھین لیا جاتا تھا۔ انکو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا تھا۔
پھر اسلام کا نور پھیلنا شروع ہوا۔ اور اسلامی تعلیمات کی بدولت جاہلانہ
رسم و رواج کا خاتمہ ہوتا گیا۔ اسلام نے انسانیت کا کھویا ہوا مقام واپس
دلایا۔ اسلام نے عورت کو ذلّت اور غلامی کی زندگی سے نجات دلائی۔ اسلام نے
عورت کو ہر حیثیت میں چاہے وہ ماں ، بہن، بیٹی یا بیوی ہو اس کے وجود کو
باعث رحمت قرار دیا۔ اسکی پیدائش کو خوشی کا سبب قرار دیا۔ ان کے حقوق مقرر
کئے۔ انکو تحفّظ فراہم کیا۔ عورتوں کو اپنی عزت محفوظ رکھنے کی خاطر پردہ
کرنے اور مرد کو اپنی نگاہیں نیچے رکھنے کا حکم دیا۔
عورت اگر ماں ہے تو اسکے قدموں تلےجنّت رکھ دی گئی اور اولاد کو اپنی ماں
کی خدمت اور اسکے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا۔
""حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اقدسؐ سے دریافت کیا کہ
رشتہ داروں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ اس کے جواب میں
حضور سرور عالمؐ نے فرمایا: تمہاری والدہ حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ مستحق
ہیں، سائل نے پوچھا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تمہاری والدہ، اس نے دریافت
کیا: پھر کون؟ آپ ؐ نے فرمایا: تمہاری والدہ، سوال کرنے والے عرض کیا: پھر
کون؟ فرمایا: تمہارے والد"۔
وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلّت اور رسوائی کا باعث سمجھا جاتا تھا
اسلام نے بیٹی کو رحمت قرار دیا۔ اسکی اچھی پرورش کرنے کا حکم دیا۔ حضورؐ
نے بیٹی کو عزت و وقار دیتے ہوئے فرمایا۔ "فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے
تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی"۔ (بخاری)
ایک اور جگہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ محسن
انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص کے یہاں بچی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر زندہ درگور
نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر و ذلیل سمجھا اور نہ لڑکوں کو اس کے مقابلے میں
ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا"(ابوداؤد)
بیٹیوں کی اچھی پرورش کرنے اور انکی اچھی جگہ شادی کرنے کے بارے میں حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا"جس کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں "
انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے رحمت عالم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا "تو میں اور وہ اس طرح جنت میں داخل ہوں گے"۔ (صحیح
مسلم ) ایک اور جگہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "وہ
عورت مبارک ہوتی ہے جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو"۔
صحیح بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں واقعہ موجود ہے ، ام المؤمنین عائشہ
رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ "میرے پاس ایک غریب خاتون اپنی دو
بچیوں کے ہمراہ آئی۔ میں نے اس کو تین کھجور دیئے، اس نے اپنی دو بیٹیوں کو
ایک ایک کھجور دے دیئے اور تیسرا کھانا ہی چاہتی تھی کہ ایک بیٹی نے وہ
کھجور بھی اس سے مانگ لیا اور ماں نے اس کھجور کے دو حصے کرتے ہوے دونوں
میں برابر بانٹ دیئے اور خود کچھ نہ کھایا اور مجھے اس کا یہ عمل بہت پسند
آیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی آمد ہوئی تو میں نے آپ سے اس خاتون کے عمل
کا ذکر کیا اور آپ ﷺ نے فرمایا"اس ایک کھجور کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس
خاتون کے لئے جنت واجب کردی اور اس کو جہنم سے نجات دے دی۔" . (سنن ترمذی
'حدیث نمبر: 1915)
ایک اور جگہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جو لڑکیوں کے بارے میں آزمایا جائے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو وہ
لڑکیاں ان کے لئے جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔" (مسلم)
اسلام نے بہن کو بھی مقام عطا کیا۔ جن کو اسلام سے قبل کچھ بھی نہ سمجھا
جاتا تھا۔ ان کے بھی حقوق مقرر کئے۔ انکو وراثت میں حقدار قرار دیا۔ لڑکیوں
کو وراثت میں حقدار قرار دیتے ہوئے فرمایا:
"تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ : مرد کا حصّہ دو
عورتوں کے برابر ہے ، اگر (میّت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں
ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس
کا ہے۔"
آپؐ نے اپنی رضائی بہن حضرت شیما کے ساتھ یوں حسن سلوک فرمایا۔ "انکے لئے
کھڑے ہوئے۔ اپنی مبارک چادر بچھا کر اس پر بٹھایا"۔ اور یہ ارشاد فرمایا۔
"مانگو تمھیں عطا کیا جائے گا۔ سفارش کرو تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔"
عورت اگر بیوی ہے تو اس کو بھی مقام و مرتبہ عطا کیا۔ ارشاد نبویؐ ہے۔ "یہ
دنیا مال و متاع ہے۔ اور دنیا میں سب سے قیمتی چیز نیک بیوی ہے"۔
اسلام نے عورت کو جو عزت و عظمت اور مقام و مرتبہ دیا ہے وہ دنیا کے کسی
مذہب میں نہیں دیا گیا۔ لیکن بد قسمتی سے آج بھی ہمارے معاشرے میں بیٹیوں
کی پیدائش پہ خوشی نہیں ہوتی ۔ انکو بوجھ سمجھا جاتا ہے بیٹوں کو ان پر
ترجیح دی جاتی ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دی جاتی۔ انکو وراثت
میں حصّہ نہیں دیا جاتا۔ شادی بیاہ کے معاملات میں ان سے رائے نہیں لی
جاتی۔ نیز انکی بہت سے معاملات میں حق تلفی کی جاتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو بیٹیاں بھی کسی سے کم نہیں ہوتی۔ یہ اپنے والدین کا
زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ انکی خدمت کرتی ہیں۔ لیکن پھر بھی انکی حق تلفی کی
جاتی ہے۔ انکو وہ پیار اور عزت نہیں دی جاتی جس کی وہ حقدار ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے، بیٹیوں کے ساتھ
پیارو محبت سے پیش آنے اور انکے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ ایک
بات کہنا چاہوں گی کہ "بیٹیوں کی پیدائش پر خوش ہوا کریں کیونکہ رب کی رحمت
ہر گھر میں نہیں ہوتی"۔
|