میں آج ایک دلچسب ‘ولولہ انگیز
اور جرات مند فٹ پاتھیے بشر کا ذکر کرنے چلا ہوں۔جو نہایت بزدل ہونے کے
ساتھ ساتھ حیرت انگیز حد تک بہادر بھی ہے۔یقیناً یہ آپ کے لیئے اچنبھے کی
بات ہو گی ۔لیکن میں ان برعکس باتوں کو اپنے نا قص علم کے مطابق دلائل سے
ثابت کروں گا مگر دلائل انشاللہ مضبوط تر ہوں گے۔ پہلے بات بہادر ی کی کر
لی جائے تو قدرے بہتر ہو گا۔کسی کے پوچھنے پر اس نے کہا”مجھے موت سے خوف
کیونکر آئے کہ جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آسکتی“۔جبکہ ہم ہی میں
سے بہت سے ایسے ہیں جو نجانے موت روکنے کے لیئے کیسے کیسے پاپڑ بیلتے پھرتے
ہیں۔حیدر کرار‘شیر خدا حضرت علی ؓسے کسی نے پوچھا آپ نے محافظ کیو ں نہیں
رکھا تو آپ نے برجستہ جواب دیا ”موت میر ی حفاظت کر رہی ہے جب تک اس کا مقر
ر کردہ وقت نہیں آتا وہ کسی کو میر ے قریب پھٹکنے ہی نہیں دے گی“۔لیکن
ایمان سے خالی لوگ کیا جانیں؟؟۔لیکن وہ شخص اللہ کے آسرے پر کسی سے نہیں
ڈرتا ۔اور خوف کھائے بھی کیوں ؟کہ وہ مادی وسائل کے بجائے خالق حقیقی سے آس
و لو لگائے ہوئے ہے ۔اس مضمون میں آپ کو لفظوں کی سادگی کے ساتھ ساتھ حقیقت
کی چاشنی بھی ضرور میسر آئے گی۔ادھر ادھر کا ذکر کرنے اور تعریف و توصیف کے
بجائے ہم اپنے اصل مقصد کی طرف آتے ہیں۔جس طرح وہ شخص مقاصد حق کی طرف
لپکتا ہے۔اس بشر کو سیاست میں دو عشرے بیت گئے ‘خودی کا دامن نہیں
چھوڑا‘حقیقت سے کبھی منہ نہیں موڑا۔کسی نے خوب کہا ہے
تخت سکندری پر وہ تھوکتے ہی نہیں
بستر لگا ہو جن کا تیرے در کے سامنے
کسی نے آسائش کی بات کی تو بلا تامل چلا اٹھا میں کیسے پر سکون رہوں جب خلق
خدا بے گھر ‘بے آسرا‘ بے روزگار اور ذلیل و خوار ہے‘مفلسی میں جنم لینے
والے انتہائی مفلسی کی لکیر سے بھی نیچے کاروان حیات گزارنے پر مجبور
ہیں۔تریسٹھ برس بیت گئے عوام بکتے رہے‘نیلام ہوئے‘بدنام ہوئے‘ان کا خون
ناحق بہایا گیا‘لیکن حد ہوتی ہے ہر شہ کی ایک حد ہوتی ہے ۔اسی طرح ظلم و
جور و زیادتی کی بھی۔۔
کسی نے خوب کہا ہے
ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے
داماد رحمت اللعالمین ‘صحابی رسولﷺ مولا علی فرماتے ہیں”کفر کی حکومت قائم
رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں“۔وہ نیک فطرت بشر ظلمت کی تاریکی میں روشنی کی کرن
پھیلانے کو بے تاب ہے۔کمزور‘ناتواںو بے نام لوگوں میں حق گوئی و بے باکی
لہر دوڑانے کا ہنر خوب جانتا ہے ۔دروغ گو لوگوں کو کہتے سنا گیا کہ اس کے
ساتھ تو چند گنتی کے لوگ ہیں اور وہ بھی کمزور تر‘اس کی سیاست بھی پائیدار
نہیں۔ان کے لئے نہایت ادب سے التماس ہے وہ کسی یزید کا تابعدار نہیں ‘کسی
فرعونیت کا طلب گار نہیں‘قارون کی طرح اس کے پاس دولت کے انبار نہیں۔جذبہ
ہے اس کے پاس فقط پر خلوص جذبہ۔ کئی صدیا ں بیت گئیں مشہور فرانسیسی جنگ جو
و عظیم نظم و نسق رکھنے والے نپولین (جس کے بارے میں یورپی مورخین کا خیال
ہے کہ یور پ میں اس سے بڑا فاتح جنم نہیں لے گا‘ہم اسے نپولین پڑھتے ہیں
جبکہ فرانس کے لوگ اسے نیپولین کہتے ہیں۔اس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ
انتہائی قوی یاداشت کا مالک تھا۔اسے اپنے سپاہیوں کے اسم‘گھر کے پتے کوائف
حتیٰ کہ ان کے بچوں کے نام اور تعداد بھی یاد ہوتی تھی۔فوج اور ملک کے بجٹ
کے اعدادوشمار بھی زبانی بیان کر سکتا تھا۔جسمانی طور پر ان فٹ ہونے کے
باوجود نہ صرف فوج میں بھر تی ہوا بلکہ آرمی چیف بن کر دو تہائی یورپ فتح
کر ڈالا۔اسے اتنا بھی معلوم ہوتا تھا کہ یورپ کی سرزمین پر کتنے فاصلے پر
کونسا مقام آتا ہے۔) نے کہا تھا”اگر شیروں کی باگ ڈور کسی بھیڑ کے ہاتھ میں
دے دی جائے تو وہ ان شیروں کو گھاس کھانے پر مجبور کردے گی جبکہ اگر بھیڑوں
کے ریوڑ کی باگ ڈور کسی شیر کے ہاتھ میں دے دی جائے تو وہ اسے لشکر میں بدل
دے گا“۔ رہنما ہونا چاہیئے مگر اچھا رہنما ۔اچھے رہنما ہی اچھی قوم بناتے
ہیں۔یہ فٹ پاتھ پر سونے والا بے کسوں کا ہمدرد‘درد مندوں کا مداوا شیر کی
سی قیادت کرنا جانتا ہے۔یہ بات آپ بھی جانتے ہیں ‘میں بھی جانتا ہوں۔اور
ساری دنیا بھی بخوبی جانتی ہے۔فٹ پاتھ پر بغیر کسی آہنی رکاوٹ و بلٹ پروف
جیکٹ سے نابلد یہ بشر اب گلی کوچوں میں بسنے والے نادار لوگوں کے دلوں کی
دھڑکن بننے لگا ہے۔تاریخ گواہ ہے جسے غریب چاہنے لگیں وہی عزت پاتا ہے۔عزت
و کامیابی جدا جدا چیز ہیں۔یزید کو ظاہری کامیابی تو ملی لیکن ایسا بے عزت
ہوا کے تاریخ میں مبادا ایسا بد قسمت نہ ہو۔مسلمان تو مسلمان کا فر بھی
نفرت کرتے ہیں اس کے نام سے اس کے کام سے۔اگر امام عالی مقام سیدنا حسین
ؓسے الفت ہے تو یزید کے نام سے عداوت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس جیسے کام کرنے
والوں کا دامن بھیچھوڑنا ہو گا خواہ وہ کوئی بھی ہو۔فٹ پاتھ پر اپنی محبوب
عوام کے ساتھ چین کی رات گزارنے والے کی جماعت اب تکمیل کے مراحل میں ہے
۔احتیاط اب احتیاط۔ اب اسے بھی احتیاط کرنا ہے( تنظیم سازی کرتے وقت‘ پارٹی
ٹکٹ دیتے وقت‘ اتحاد کرتے وقت‘کسی کا ذکر کرتے وقت)اور ہمیں بھی احتیاط
کرنا ہوگی۔چند ماہ گزرے اک صاحب حال نے اس سے مخاطب ہو کر کہا”ہمیں تیری
نیت پر کوئی شک نہیں“۔وہ سچا تھا‘سچا ہے اور انشاللہ سچا ہی رہے گا۔اور
نہیں تو ڈرون حملوں سے بچنے کے لیئے ہی اس کا ساتھ دینا ہو گا۔جو ہمارے
لیئے تو زہر قاتل ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان حملو ں سے امریکا کو خود بھی منہ
موڑنا ہو گا وگرنہ اس کی حمایت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔اس نہتے شخص کا
ڈرون حملو ں کے لیئے نکلنا ہم پر اس کا احسان عظیم ہے۔اور حدیث مبارک کے
مفہوم میں ہے”جو اپنے محسن کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اپنے رب کا بھی شکر
ادا نہیں کرتا“۔اب آپ کو اس انسان کی بزدلی کے بارے میں بتاتا چلوں کہ وہ
موت کے سوا کس سے خوف کھاتا ہے۔ایک دفعہ سردار جنت‘ نواسہ رسولﷺ‘جگر گوشہ
بتولؓ امام حسین ؓکے والد حضرت علیؓکے جسم مبارک میں تیر پھنس گیا جو نکلتا
نہیں تھا۔کیونکہ آپ مضبوط جسم اطہر کے مالک تھے۔چناچہ آپ نے فرمایا کہ جب
میں حالت نماز میں ہوں تو تیر نکال لینا ۔اور جب آپ حالت نماز میں تھے تو
ساتھیوں نے باآسانی وہ تیر نکال لیا کیونکہ دوران نماز آپ کا جسم اللہ کے
خوف سے موم کی طرح نرم ہو جاتا تھا۔ آپؓدنیاوی تکالیف ومصیبتوں کو یکسر
بھلا دیتے۔حالت نماز میں فقط خالق حقیقی سے لو لگا لیتے۔ حتیٰ کہ جسم اطہر
سے ظاہری رابطہ بھی منقطع ہو جاتا۔ اور مومن ہی وہی ہے جو اللہ سے خوف
کھائے اور اس کے سامنے بندگی بجا لائے۔اپنے آپ کو مختار کل نہ سمجھے۔قوی
امید ہے کہ خدا سے ڈرنے والے اس بشر کو موقع دیا گیا تو اپنے آپ کو خاطر
میں نہ لاتے ہوئے رب کائنات کے احکام کلی طور پر بجا لائے گا۔اس سے پہلے
اسلام کے نام پر ووٹ لینے والوں کے دور میں میراتھن ریس بھی ہوئی ‘مسجدوں
کی حرمت بھی پامال ہوئی‘مبادا اس بار عوام کا رخ یکایک تبدیل ہو۔۔دین و
سیاست کا فہم و ادراک رکھنے والے ایک صاحب بصیرت نے کہا”(ع)عجب طرز کا فٹ
پاتھیا ہے وہ اس نفسا نفسی کے دور میں بھی بے لوث ‘مکمل بے لوث۔اگر عوام اس
کے علاوہ بھی کسی حق پرست و بے باک شخص کو مسند اقتدار پر بٹھا دیں تو اسے
پھر بھی خوشی ہو گی اور شکرانے کے نوافل ادا کرے گا‘کسی سے گلہ ‘شکوہ نہیں
کرے گا۔ حقوق انسانیت‘خدمت خلق‘ معاشرتی انصاف‘اقلیتوں کے حقوق۔۔اور عدل کے
سوا کسی شے کا تقاضا نہیں کرے گا۔ لیکن لیکن ۔۔شاید آپ(عوام)کو اس کے سوا
سچا بشر اس مادی دور میں نہیں ملے گا“۔آخر میں ایک شعر پیش خدمت ہے۔جو ایک
کمسن بچے نے کہا تھا جسے سن کر داغ دہلوی نے کہا تھا یہ بچہ زیادہ عرصہ
زندہ نہیں رہے گا۔ان کی دور بینی درست ثابت ہوئی اور کچھ ہی عرصے بعد یہ
بچے اپنے آشیاں میں آگ لگنے کی وجہ سے مر گیا۔اس کے دل کی آواز تھی
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگی اس گھر کے چراغ سے
ارض وطن نے جب سے ہندوﺅں سے چھٹکارا پایا ہے (سفید فاموں کا لکھ کر آپ کو
کنفیوذ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ بٹ احباب‘کشمیری‘ پٹھان اور اہل کتاب سب کی
رنگت گوری ہے۔۔۔)۔ماضی و حال تو نجانے کیسی کیسی اصطلاحوں یعنی نظریہ
ضرورت‘مصلحت‘پردہ پوشی (کوشی یا نوشی)‘میں گزرا ۔خدا کرے مستقبل قریب میں
عوام پر امن طریقے سے فضا میں تبدیلی لائیں۔اور یہ تبدیلی ہمیں راس بھی
آجائے۔کیونکہ بسا اوقات راہزن اتنا نہیں لوٹ سکتا جتنا رہبر لوٹ لیتا ہے۔ |