کیا سوشل میڈیا نے ہمیں نرگسیت کا شکار بنایا ہے؟

ذہنی بالیدگی اور تندرستی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔اس حق کا خیال بھی انسان کو خود ہی رکھنا پڑتا ہے۔اللہ کو عجز و انکساری پسند ہے۔ تکبر اور گھمنڈ سے نفرت ہے۔سورہ فرقان میں اللہ کا فرمان ہے کہ '' اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔ اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں''(فرقان 63)۔ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم رحمن کے بندوں میں شامل ہیں کہ نہیں۔تکبر سے اکٹرتے تو نہیں۔جباروں اور ظالموں کی طرح اپنی گفتار اور سوشل ایکٹویٹز سے اپنا زور تو نہیں جتاتے۔اپنی سیلفیوں سے ریا کاری کی نمائش تو نہیں کررہے ہیں۔کہیں تصنع کی فریب کاری کا شکار تو نہیں۔بہر صورت یہ وہ باتیں ہیں کہ ان سے بچنے سے ہی رحمان کا بندہ بننا ممکن ہوتا ہے۔اگر ہماری اچھی کاوشوں پر بھی کوئی جاہلانہ طور طریقے اپنالے اور بے ڈھب گفتگو کرے،تو ہمیں پھر بھی سلامتی کی بات کرنی چاہیے۔سلامتی ہی میں ہم سب کی کامیابی ہے۔اگر کوئی مسلسل بے ڈھبی سے کام لیتا ہے اور توہین و تضحیک پر اُتر آتا ہے ، سلامتی کا بات کا اثر بھی نہیں لیتا تو خاموشی سے ایسے لوگوں سے کنارہ کشی بہتر ہے۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔

میرے ایک دوست نے سوال اٹھایا کہ '' کیا سوشل میڈیا نے ہمیں نرگسیت کا شکار بنایا ہے؟کہیں ہم مجموعی طور پر نرگسیت کا شکار تو نہیں''۔ یہ دراصل میری ایک پوسٹ پر ایک سنجیدہ کمنٹس تھا۔اس کمنٹس کا تعلق اگرچہ پوسٹ سے نہیں تھا لیکن یہ سوال بہت اہم ہے۔مجموعی طور پر ہم اپنی زندگی پر نظرڈالیں تو واقعی بہت سارے معاملات میں ہم نرگسیت کا شکار ہیں۔ سوشل میڈیا ہو یا عام لائف، واقعتا ہم بری طرح اس کے شکنجے میں آچکے ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر نرگسیت ہے کیا چیز ، اس کا مفہوم کیا بنتا ہے۔ یہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ نرگسیت ایک ایسی کیفیت ہے کہ شعوری اور غیرشعوری طور پر ہم زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر شکار ہوہی جاتے ہیں۔ یہ ایک ایساعمل ہے جو دانستہ اور نا دانستہ طور پرہم انجام دیتے ہیں۔ اپنے آپ میں حد سے زیادہ کھو جاتے ہیں، اپنی ذات کے خول میں بند ہوجاتے ہیں۔اپنی شخصیت کی لامتناہی محبت کے اسیر ہوجاتے ہیں۔اپنی باتوں اور لن ترانیوں میں فریفتگی کی حد تک ملوث پائے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ نرگسیت کا یہ عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ ہم دلیل و برہان کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ، درست بات کو بھی تسلیم کرنے سے جھجک جاتے ہیں۔تسلیمِ حق اپنی توہین لگتی ہے۔کوئی ہماری رہنمائی سچائی کی طرف کرے بھی تو ہم جھڑک دیتے ہیں۔آواز اونچی کردیتے ہیں۔تعصب اور نفرت سے اس کا سامنا کرتے ہیں۔ اور سوشل میڈیا میں تو بلاک تک کرکے سکھ کا سانس لیتے ہیں اور اس پر اتراتے بھی ہیں۔ ہمارے اندر ایک اَنا سی پیدا ہوجاتی ہے جو ہمیں سچ اور حق تسلیم کرنے سے بھی روک دیتی ہے۔ہم جانے انجانے میں بہت ساری باتیں، بہت ساری ایکٹویٹیز اور اعمال ایسی کرجاتے ہیں ،جن سے ہماری خود پسندی بلکہ نرگسیت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ اپنی ذات ، اپنی خاندان، اپنے مسلک و مذہب، اپنے حسن و جمال اور اپنے علاقے و نسل اور اپنی رائے کی برتری پر اتنی شدت اختیار کرجاتے ہیں کہ ہم خودپرستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔بلکہ نرگسیت زدہ بن جاتے ہیں۔کھبی کبھار ہم اپنے فن و علم پر گھمنڈ کرنے لگتے ہیں۔ اپنی تحریر کے سحر میں کھوجاتے ہیں۔ تقریر کے اسیر ہوجاتے ہیں اور اپنے حسن و جمال کے خوغر بن جاتے ہیں۔تب ہم کسی کو خاطر میں نہیں لاتے، یہی وہ کیفیت ہوتی ہے جو مکمل طور پر خود ثنائی، انانیت،خود ستائی،خودنمائشی اور نرگسیت کہلاتی ہے۔نرگسیت کے حوالے سے میرے بیان کردہ باتوں سے آپ اختلاف کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم آخر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یا ہم نرگسیت کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟۔اس سوال کے افہام و تفہیم سے پہلے ہمیں ایک اصول کا ادراک کرنا چاہیے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر حال میں زندہ رہنا چاہتا ہے بلکہ نمایاں طور پر زندہ رہنا چاہتا ہے اور مسلسل آگے بڑھنا چاہتا ہے۔میں نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے ذیل میں دو اصول کہیں پڑھے ہیں۔ڈارون کا ایک اصول ''جُہدللبقاء'' یا ''تنازع للبقاء'' (Struggle of existence) ہے۔ اور اسی سے ملا جلا دوسر ا اصول ''بقائے اصلح'' (Survival of the fittest) ہے۔ ان دونوں اصولوں کا خلاصہ یہی بنتا ہے کہ ہر انسان کو زندہ و جاوید رہنے کے لیے مستقل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے کچھ نیا کرنا پڑتا ہے۔دنیا میں وہی انسان زندہ رہ سکتا ہے، معروف ہوسکتا ہے جو دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش رکھتا ہے اور اس خواہش کی تکمیل کی صورتیں نکال لیتا ہے۔

اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم سوشل میڈیا میں جو پھرتیاں دکھاتے ہیں کہیں وہ زندہ رہنے کے لیے اور نمایاں بننے کے لیے تو نہیں کرتے۔؟ جناب ڈارون صاحب کے دور میں سوشل میڈیا کا وجود نہیں تھا۔ معلوم نہیں ،کہ لوگ نرگسیت زدہ زندگی کے لیے کیا کرتے ہونگے، لیکن ہم مجموعی طور پر بنظر غائر دیکھیں تو یہی کچھ کرتے دکھائی دیتے ہیں جو نرگسیت کے زمرے میں آتا ہے۔ہم غور سے دیکھیں تو آج سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک میں بہت سار ے لوگ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور رفاہی تنظیمیں چلارہے ہوتے ہیں۔فٹافٹ سینئر رہنماء، صحافی، اسکالر،ماہرامراض اور نہ جانے کیا کیا بننے کی تگ و دو کررہے ہوتے ہیں۔ کچھ علامے اور فہامے بنے پھرتے ہیں۔کچھ علم و فن کی موتیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔کچھ لوگ بڑے بڑے بزنس دکھا رہے ہیں۔کچھ اپنے حسن وجمال کی ساحرانہ تبلیغ کرتے ہیں۔

کوئی کسی بڑے لیڈر کیساتھ سیلفی بناکرخود کو بڑا ثابت کرنے اور پُروایکٹوو بننے میں مصروف ہے۔دنیا کے بڑے بڑے لوگ سیلفی کے خبط میں شکار ہوجاتے ہیں۔اپنی خدا ترسی کو بیان کرنے کے لیے کسی غریب، فقیر یا بھکاری کے ساتھ سیلفی تک لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، لیکن اگلے ہی مرحلے میں ہاتھ جھاڑتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ہم دائیں بائیں کا جائزہ لیں تو ہم سیلفی کے سہارے جی رہے ہوتے ہیں۔ہمارا کل اثاثہ کسی بڑے لیڈر، علمی شخصیت،مفکر و ادیب اور فنکار و گلوکار اور کسی حسین وجمیل انسان کے ساتھ لی گئی سیلفی ہوتی ہے۔جو بار بار شیئر کی جاتی ہے۔ اگلی سال اسی دن انکل فیس بک ہماری وہ سیلفی دکھا رہا ہوتا ہے اور ہم فخریہ شیئر کررہے ہوتے ہیں۔یہ ماننے میں مجھے باک نہیں کہ نرگسیت کا شکار فرد اپنی ہی ذات اور برتری کے خول میں مرتکز ہوکر دنیا اور اہل دنیا کا مشاہدہ کررہا ہوتا ہے۔جو لوگ اپنی ذات میں گم ہوکر دنیا دیکھتے ہیں و ہ حقیقی اور معروضی دنیا سے نابلد ہی ہوتے ہیں۔

غرض سوشل میڈیا میں بہت کچھ ہوتا دکھائی دیتا ہے جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔اور یہاں تک کہ بڑے بڑے سمجھ دار اور سلجھے ہوئے لوگ بھی سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔پانچ کلو کا ''امدای پیکج'' دینے کے لیے دس دس لیڈر اور رفاہی رضاکار کھڑے تصویریں بنواتے ہیں اور اگلے ہی مرحلے سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل کرواتے ہیں۔ بھلا یہ سب کیا ہے؟۔انتہائی غور سے دیکھیں تو اس طرح کے لوگ غریب کی عزت نفس کا استحصال کرکے ، اس کے ضمیر اورشخصیت کو مجروح کرکے دلی سکون پاتے ہیں۔یہی اصل نرگسیت ہے۔لاریب نرگسیت زدہ لوگ انتہائی تعصب، کینہ پروراور استحصالی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی اَناوں کی تسکین کے لیے جدید طریقے استعمال کررہے ہوتے ہیں جن کا مشاہدہ روز ہمیں کسی نہ کسی نئے روپ میں ہوہی جاتا ہے۔

میری والدہ پارکن سن کی مریضہ ہے۔ یہ نیورو سے متعلق کوئی بیماری ہے۔ایک نیورو فزیشن نے مجھے بتایا تھا کہ انسان کا ذہن دوسروں کی خوشی، غمی اور جذبات کو شیئر کرتا ہے۔ لہذا آپ اپنی پریشانیاں اپنی والدہ سے شیئر نہ کریں بلکہ خوشی ہی خوشی کی بات کریں تاکہ آپ کی خوشیاں اور ہنسیاں دیکھ کر انہیں ریلکس ملے۔میں والدہ کو ہنسانے اور خوش رکھنے کے بہت سارے جتن کرتا۔بعض دفعہ جب والدہ بہت ڈسٹرب ہوتی ہے تو میں ان کے سامنے ناچنا بھی شروع کرتا، اس سے والدہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتی ہے۔

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم سوشل میڈیا میں بھی خوشی غمی کے موقعوں پر کیا ری ایکٹ کرتے ہیں۔اور ہمارا رسپونس کیا ہوتا ہے۔؟ بہت دفعہ دیکھنے میں آیا کہ ہم کسی کی خوشی میں خوشی کے گیت گارہے ہوتے ہیں۔ کسی کی پریشانی میں خود کو پریشان ظاہر کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا خوشی اور غمی میں ہمارا رسپونس حقیقی ہوتا ہے یا پھر سوشل میڈیا میں خود کو سماجی اور دردمند انسان باور کرانے کے لیے یہ سب کرتے ہیں؟۔ یہ میرا اپنا مشاہدہ رہا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا میں بڑی بڑی ڈینگیں ماررہے ہوتے ہیں لیکن جب ان کے ساتھ کہیں ملاقات ہوتی ہے تو ان کا رسپونس فرضی سا ہوتا ہے۔آپ تعارف بھی کروادیں تو ہاں ، ہوں سے گزارہ کرلیتے ہیں۔

آپ کا بھی مشاہدہ ہوا ہوگا کہ کوئی فرد آپ کی تعریفات میں مبالغہ کررہا ہوتا ہے۔آپ کو خود بھی حیرت ہوتی ہے کہ آخر میں اتنہا اہم کیوں ہوگیا ہوں۔ جب آپ ، محبت کے اس چشمے کی فراوانی کو دیکھتے ہیں تو کچھ پسیج جاتے ہیں۔جیسے ہی آپ کادل پسیج جاتا ہے تو اگلا آدمی سمجھتا ہے کہ میں نے اس کو نرگسیت اور خودفریبی میں مبتلا کردیا ، پھر وہ اپنی مطلب کی بات کرتا ہے۔دراصل یہ ایک تیکنیک ہے جو دوسروں سے مطلب براری کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اس کا جلدی شکار ہوجاتے ہیں۔

ڈارون صاحب نے شاید زندہ رہنے کے لیے اور آگے بڑھنے کی جو تجویز دی ہے وہ یہ نہ ہو ،جو ہم کررہے ہیں۔ دل ودماغ کے کسی نہاں خانے میں یہ بات رچی بسی ہوتی ہے کہ ہم زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے سوشل میڈیا میں یہی سب غیر مصنوعی کررہے ہیں۔

ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ اس سوال کا مختصر جواب یہی ہے کہ ہمیں ہر کام حکمت اور دانائی کیساتھ کرنا چاہیے۔ بیشک سوشل میڈیا سے دوری اور برات ممکن نہیں لیکن اس کے استعمال میں اندھا دھند ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جو ہماری رسوائی اورنالائقی کا سبب بن جائے۔ہمیں اچھی طرح سوچ بچار کرکے آگے بڑھنا چاہیے اور غور و فکر کرنا چاہیے کہ ہمارے اس طرح کے اقدامات کے کیا نتائج برامد ہوسکتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ دانائی و حکمت اور درست معلومات و اطلاعات کے بغیر، جلد بازی میں کیے جانے والے اقدامات اچھے نتائج کبھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔بہت دفعہ اس کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔بالخصوص ہماری صحافی برادری ''سب سے پہلے'' کے چکر میں بہت کچھ غلط کرجاتی ہے ،جس کی وجہ سے عام لوگ اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بعد میں صحافیوں کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جو ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اور اعمال و افعال اور اقوال سے پیدا کرجاتے ہیں اور مصیبت کا شکار ہوجاتے ہیں۔لاریب ہمیں ایسی درگتوں اور مصیبتوں کے عوامل کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہیے اور بقیہ زندگی میں ان سے بچنے کی احتیاطی تدابیر کرنی چاہیے۔

ایک بات یاد رہنی چاہیے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔دراصل انسان خطاوں اور غلطیوں سے سیکھتا ہے۔میں غلطیوں کو غلطیاں نہیں سمجھتا بلکہ سیکھنے کا عمل کہتا، ہاں اگر ہماری خطائیں اور غلطیاں ہمیں سیکھانے اور آئندہ بہتری کی طرف گامزن نہیں کرتی ،بلکہ ہم ان پر ڈٹ جاتے ہیں تو یہ بھی نرگسیت کی ایک قسم ہی ہوگی کہ ہم اَنا کے خول سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ بڑائی اس میں قطعا نہیں کہ انسان غلطی پر ڈٹ جائے بلکہ عظمت اسی میں ہے کہ انسان نرگسیت کے خول سے باہر نکلے ، کھلے دل سے غلطی کا اعتراف کرے او ر آئندہ بہتری کا سفر جاری بھی رکھے۔خطائیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک کا تعلق بندہ اور اس کے رب کے مابین ہوتا ہے۔ ان کو ہائی لائٹ کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ اللہ سے معافی تلافی کی جانی چاہیے ۔ اور دوسری قسم کی جو غلطیاں ہیں وہ بندہ اور بندہ اور بندہ اور معاشرہ کے مابین ہوتی ہیں۔ ان غلطیوں کا نہ صرف اعتراف ضروری ہے بلکہ ازالہ بھی ضروری ہے۔اپنی ساکھ کے مجروح ہونے کے ڈر سے اپنی یا اپنی جماعتی اور گروہی غلطیوں پر پردہ ڈالنا یقینا غلط بات ہے۔ اگر ان غلطیوں کا تعلق عامة الناس کے حقوق اورمفادات سے ہوں تو ان پر ڈٹ جانا، پردہ ڈالنا اور ازالہ نہ کرنا ظلم عظیم ہے۔میرے نزدیک یہ بھی نرگسیت کی ایک قسم ہے۔کہ انسان اپنی انا کی تسکین کے لیے یہ سب کرجاتا ہے۔جو لوگ نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں وہ تعریف و توصیف کے بھوکے ہوتے ہیں۔مدحت کے بھوکے لوگ عموما ضدی اور ہٹ دھڑم ہوتے ہیں۔اور اپنی تعریف و توصیف تو چاہتے ہیں لیکن اسی باب میں دوسروں کا استحصال کرکے انہیں سکون ملتا ہے۔اور وہ دوسروں کی بے عزتی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔نرگسیت پسند لوگوں کا یہ محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔

ہم عصبیت کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ہر حال میں خود کو برتر سمجھتے ہیں۔یقینا عنداللہ وہی لوگ مکرم ومحترم ہیں جو تقوی والے ہیں۔مگر عصبیت بعض دفعہ ہمیں بہت نقصان پہنچا دیتی ہے۔ اور ہمارا سماجی و اخلاقی اور دینی مرتبہ ختم کرنے کا سبب بنتی ہے۔عصبیت بھی ہمیں نرگسیت میں مبتلا کرجاتی ہے۔

بات کافی طویل ہوتی جارہی ہے ، خلاصہ کلام کہ ہمیں اپنے تمام افعال و اقدام کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا کہ ہم کہیں واقعی نرگسیت کا شکار تو نہیں۔ اگر سوچ و بچار کے بعد یہ معلوم ہو کہ ہاں ! ہم نرگسیت کا شکار ہیں تو فورا فکر مند چاہیے۔نرگسیت پر قابو پانے کے لیے اپنی ذات کا جائزہ لینا، اور اپنا ہی احتساب شروع کرنا سب سے اہم ہے۔اپنی ذات کے احتساب میں یہ بات سمجھ آگئی کہ سب انسان برابر ہیں۔ فضیلت صرف اور صرف علم و تقوی کی بنیاد پر کسی کو حاصل ہوسکتی ہے تو بڑی حد تک انسان نرگسیت سے چھٹکارا پاسکتا ہے۔

نرگسیت ایک پوشیدہ مرض ہے جو ہمیں اندرسے کمزور کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ہم اپنی تمام معلومات جناب ''گوگل چاچا'' اور ''انکل فیس بک'' کے پاس Submitکروارہے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسے آپشنز ہمارے سامنے آتے ہیں کہ ان پر کلک کرنے سے ہماری جمع کردہ معلومات و افکار کے مطابق وہ آپشنز ہمیں ہماری پوری معلومات، افکار،پیشہ، اچھائی ،برائی، خاندانی معلومات غرض سب کچھ بتارہے ہوتے ہیں۔معلومات کی فراہمی بہت دفعہ ہم انجانے میں کرتے ہیں اور بہت دفعہ خود کو نمایاں اور سرفہرست بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا کہ کہ ہم اپنے آپ کو پروایکٹوو بنانا چاہتے ہیں۔ لاریب ! بہت دفعہ ہم نیک نیتی اور کارخیر سمجھ کر بھی کچھ تصاویر، معلومات،اور خیالات وافکار شیئر کررہے ہوتے ہیں۔اگر کوئی نشاندہی کرے کہ یہ درست نہیں تو اس وقت ڈٹ جانے کی بجائے سوچ و بچار شروع کرنا چاہیے کہ آخر ان چیزوں سے کسی کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا ہے؟ کسی کی شخصیت متاثر تو نہیں ہوتی ہے اور کہیں ہم اپنی انا کی تسکین کے لیے تو یہ نہیں کرتے؟اور کہیں یہ سب کچھ کرنے سے میری اپنی شخصیت مجروح تو نہیں ہورہی ہے۔ بخدا! اگر اس نتیجے پر پہنچ جائیں تو فورا اصلاح کا عمل شروع کرنا چاہیے۔نرگسیت سے بچنے کے لیے تنقید کرنے والے اور نشاندہی کرنے والی کی بات پر غور کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ تنقید برائے اصلاح کرررہا ہے تو اس کا شکریہ بھی بنتا ہے اور اپنی اصلاح کا موقع بھی ملتا ہے۔

ذہنی بالیدگی اور تندرستی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔اس حق کا خیال بھی انسان کو خود ہی رکھنا پڑتا ہے۔اللہ کو عجز و انکساری پسند ہے۔ تکبر اور گھمنڈ سے نفرت ہے۔سورہ فرقان میں اللہ کا فرمان ہے کہ '' اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔ اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں''(فرقان 63)۔ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم رحمن کے بندوں میں شامل ہیں کہ نہیں۔تکبر سے اکٹرتے تو نہیں۔جباروں اور ظالموں کی طرح اپنی گفتار اور سوشل ایکٹویٹز سے اپنا زور تو نہیں جتاتے۔اپنی سیلفیوں سے ریا کاری کی نمائش تو نہیں کررہے ہیں۔کہیں تصنع کی فریب کاری کا شکار تو نہیں۔بہر صورت یہ وہ باتیں ہیں کہ ان سے بچنے سے ہی رحمان کا بندہ بننا ممکن ہوتا ہے۔اگر ہماری اچھی کاوشوں پر بھی کوئی جاہلانہ طور طریقے اپنالے اور بے ڈھب گفتگو کرے،تو ہمیں پھر بھی سلامتی کی بات کرنی چاہیے۔سلامتی ہی میں ہم سب کی کامیابی ہے۔اگر کوئی مسلسل بے ڈھبی سے کام لیتا ہے اور توہین و تضحیک پر اُتر آتا ہے ، سلامتی کا بات کا اثر بھی نہیں لیتا تو خاموشی سے ایسے لوگوں سے کنارہ کشی بہتر ہے۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 434393 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More