کیا ازبک کھانے واقعی ’موت کا نوالہ‘ ہیں؟

image


ازبک کھانا کیا ہے؟
سابق شاہراہ ریشم کے ساتھ واقع ازبکستان نے ہمیشہ سے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ چیزوں اور اشیا کا تبادلہ کیا ہے۔ اس تبادلے نے اس کی ثقافت کو چار چاند لگا دیے ہیں جو کہ ملک کی دلکش پچی کاری، دستکاری، آرٹ کے نمونے اور خصوصاً کھانوں میں نظر آتا ہے۔
 

image


ازبک پکوان
ازبکستان کے پکوان ہر علاقے میں مختلف ہیں لیکن کھانوں کو چند ’قومی ڈشیں‘ یکجا کرتی ہیں جو کہ پورے ملک میں کھائی جاتی ہیں اور ہر جگہ دستیاب ہیں۔ یہ مشہور کھانے حسب ذیل ہیں:

پیسٹریاں جو عموماً گوشت اور پیاز سے بھری جاتی ہیں اور مٹی کے تندور یا اوون میں پکائی جاتی ہیں۔
چاول گوشت اور نوڈل کا سوپ۔
ہاتھوں سے بنائی گئی نوڈلز اور گوشت کی ڈش۔
گوشت اور سبزیوں سے بنایا گیا مشہور سوپ۔
گرل کیے ہوئے گوشت اور مصالحوں سے بنائے گئے کباب۔
بھاپ سے گرم کر کے بنی ہوئی پکوڑیاں جن میں گوشت اور پیاز بھرا جاتا ہے۔
روایتی روٹی جو عموماً تندور میں پکائی جاتی ہے۔
چاول، گاجر اور گوشت سے بنا ہوا پلاؤ۔
 

image


راوشان خودیئو، جو ایک ازبک فوڈ بلاگر ہیں کہتے ہیں کہ ’ازبک کھانے قسم قسم کے اور علاقائی ہیں۔ ان کے متعلق بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور ان زبردست کھانوں کے متعلق بہت کچھ لکھا بھی جا سکتا ہے۔‘
 

image


کہانیوں سے بھرپور تاریخ
سینٹرل ایشیا کی، جس میں آج کے زمانے کا ازبکستان شامل ہے، ایک لمبی اور دلچسپ تاریخ ہے۔ 329 قبل از مسیح کو سکندرِ اعظم نے اس علاقے کو فتح کر کے جنگجو قبائل کو متحد کیا تھا، جس کے بعد علاقے میں ایسا استحکام آیا کہ یہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک اہم تجارتی روٹ کے طور پر ابھرا۔ شاہراہ ریشم کے افسانوی شہر بخارا، خیوا اور سمرقند اہم مراکز کے طور پر سامنے آئے جہاں تاجر چیزیں بیچتے اور خریدتے اور خیالات کا تبادلہ بھی کرتے۔

آٹھویں صدی تک اس خطے میں اسلام آ چکا تھا اور تاجروں کے پیسے سے بنے ہوئے شاندار مدرسے اور مساجد شہروں کی زینت بن گئے تھے۔ بخارا کو تعلیم کے ایک اہم مرکز کے طور پر جانا جانے لگا، جہاں تمام مسلم دنیا سے دانشور آ کر جمع ہوتے اور خیالات کا تبادلہ کرتے۔

اس پس منظر میں آج کے دور کے ازبک کھانے بننا شروع ہوئے۔ کھانا پکانے کا عمل دنیا بھر کے تاجروں اور فاتحوں سے متاثر ہوا، جس کا اچھوتا نتیجہ نکلا۔ آج بھی ازبکستان کے قومی پکوانوں میں ترک، قازق، ویگر، منگولیائی اور دیگر ثقافتوں کا ذائقہ ملتا ہے۔
 

image


سب سے بڑی قومی ڈش
ازبکستان کی سب سے زیادہ مشہور اور مقبول ڈش پلاؤ ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ ڈش مشہور ازبک فاتح امیر تیمور کے دور میں متعارف ہوئی جنھوں نے 1300 ویں صدی میں سلطنتِ تیمور کی بنیاد رکھی۔ ایک روایت کے مطابق امیر تیمور کو فتوحات کے درمیان اپنی بڑی فوج کو کھلانے کا کوئی طریقہ چاہیے تھا اور پلاؤ کو اس کے لیے آئیڈیل فوڈ سمجھا گیا، کیونکہ اس میں بہت زیادہ کیلوریز ہوتی تھیں اور اسے آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا تھا۔

جنگوں کے بعد اس ڈش کی آسان لیکن لذیذ ترکیب اپنے اپنے خطوں میں واپس جانے والے فوجی ساتھ لے گئے۔ آج بھی جب ازبک پلاؤ بناتے ہیں تو روایت کے مطابق وہ اس میں اجزا کا وہی تناسب ڈالتے ہیں جو امیر تیمور کی فوج میں شامل باورچی ڈالتے تھے، یعنی ایک حصہ گوشت، ایک حصہ چاول اور ایک حصہ گاجر۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم جز اس میں شامل زیادہ کیلوری والا تیل ہے۔ تاشقند میں قائم سینٹرل ایشیئن پلاؤ سینٹر میں رکھی ہوئی کچھ تراکیب میں (جس میں سبھی شامل نہیں ہیں) چربی سے بنے ہوئے تیل کے علاوہ تلوں کا تیل، سورج مکھی کا تیل، السی کا تیل اور بنولے کے تیل سے بنے ہوئے پلاؤ کی تراکیب بھی شامل ہیں۔ علاقائی ورائیٹیوں میں ان میں انڈے، لہسن، پیاز، ٹماٹر، مرچیں اور مصالحے بھی ڈالے جاتے ہیں۔

ازبکستان میں تقریباً ہر خصوصی تقریب میں پلاؤ پکایا جاتا ہے اور بہت سے ازبک اسے پورا ہفتہ روزانہ بھی کھاتے ہیں۔ یہ ڈش مشرقِ وسطیٰ کی اسی طرح کی ڈش سے مماثلت رکھتی ہے جس میں چاولوں کو گوشت یا سبزیوں کے سٹاک کے ساتھ کھلی آگ پر لوہے کے برتن میں پکایا جاتا ہے۔ روایتی طور پر یہ گھروں میں خود ہی پکایا جاتا ہے لیکن خاص موقعوں پر باورچی اسے بناتے ہی جس میں سینکڑوں مہمان ایک ہی برتن سے کھاتے ہیں۔
 

image


یہ کتنا مضرِ صحت؟
اس سال کے شروع میں جریدے دی لانسٹ نے خوراک سے متعلق اموات کے حوالے سے ایک عالمی تحقیق جاری کی تھی۔ اس تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ 2017 میں پانچ میں سے ایک ہلاکت بری خوراک کی وجہ سے ہوئی تھی۔ جو کہ بنیادی طور پر بہت زیادہ نمک کھانے، بہت کم ہول گرینز یا سالم اناج اور بہت کم پھل اور سبزیاں کھانے سے ہوئی تھیں۔ جس ملک میں خوراک سے جڑی ہوئی سب سے زیادہ اموات ہوئیں وہ ازبکستان تھا۔ اس خبر نے ان بہت سے ازبک لوگوں کو ناراض کیا جو اپنی خوراک پر فخر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس تحقیق کو بہت غلط موقع پر جاری کیا گیا ہے جس وقت ازبکستان اپنے آپ کو ایک اہم سیاحتی مقام کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

ازبک ڈاکٹر لولا عبدالراخیمووا کہتی ہیں کہ مسئلہ صرف کھانا نہیں ہے بلکہ ازبک افراد کا بدلتا ہوا طرزِ زندگی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ زرعی معاشرے کے لیے، جہاں لوگ تمام دن بہت محنت کرتے ہیں، ازبک خوراک کو اگر اعتدال پسندی کے ساتھ کھایا جائے، تو مناسب ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ صحت کے مسائل ماڈرن طرزِ زندگی میں تین تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں: زیادہ کھانا، زیادہ بیٹھے رہنے کی عادات اور خوراک میں تنوع میں کمی۔ زیادہ سے زیادہ ازبک اب شہری زندگی اختیار کرنے کے بعد کم مستعد ہو گئے ہیں اور اس وجہ سے کم کیلوریز خرچ کر رہے ہیں لیکن وہ اپنی خوراک بدلنے کو تیار نہیں۔ اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ ازبکستان میں میل جول یا سوشزلائزنگ میں عموماً خوراک کو اولین ترجیح دی جاتی ہے اور یہ کئی گھنٹے چلتی ہے۔ اگر ان سب کو ملا دیا جائے تو تباہی کے سامان کی خوراک تیار ہے۔ ماضی میں یہ خوراک سنیک کے طور پر کھائی جاتی تھی لیکن اب اس کی جگہ دوسرے ممالک سے آنے والے فاسٹ فوڈ جیسا کہ ہیمبرگر اور ڈونر وغیرہ لے رہے ہیں۔
 

image


عبدالراخیمووا کہتی ہیں کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو یہ نہیں پتہ کہ رکنا کب ہے۔ جب کہ نارمل پورشن چار منتی (ماپنے کا ایک ازبک پیمانہ) ہوتا ہے، کچھ لوگ آٹھ یا 10 کھاتے ہیں۔‘
 

image


کیا یہ اچھا ہے؟
ازبکستان کے کھانے کامن ویلتھ آف انڈیپینڈنٹ سٹیٹس (سی آئی ایس) میں جو کہ سابق سویت ریپبلک سے آزاد ہونے والی سات ریاستوں کا اتحاد ہے، بہت مشہور اور مقبول ہیں۔ مرکزی ایشیا کے اکثر شہروں میں آپ کو وہ مصروف ریستوران آسانی سے مل جائیں گے جن کی خصوصیت یا سپیشیئلٹی ازبک کھانے ہیں۔

آن لائن پر بھی آپ کو ازبک کھانوں کی مقبولیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ راوشان خودیئو جو گذشتہ تین سال سے اپنے یو ٹیوب چینل ’پروویدیو‘ (روسی زبان) پر ازبک کھانوں پر وی لاگ بنا رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے دسیوں ہزار سبسکرائبرز میں سے 60 فیصد کے قریب غیر ازبک ہیں جن کا تعلق سی آئی ایس کے دوسرے ممالک سے ہے۔ وہ انھیں فالو کرتے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ ازبکستان میں کھانا کیسے بنایا جاتا ہے اور یہ دلچسپی بڑھ رہی ہے۔

سی آئی ایس کے باہر اگرچہ ازبک کھانوں کے متعلق علم میں تیزی سے کمی آئی ہے لیکن ازبک حکومت کوشش کر رہی ہے کہ غیر ممالک میں ازبکستان کی ساکھ کو بہتر بنایا جائے۔
 

image


مقبولیت میں اضافہ
حال ہی میں ازبکستان باہر کی دنیا کے لیے کھلنا شروع ہوا ہے۔ اس نے ویزا فیس کم کی ہے، سیاحت کے لیے لوگوں کو تربیت دی ہے اور بین الاقوامی فضائی راستوں کو بڑھایا ہے۔ اپنے سیاحت کے شعبے کی ترقی کے لیے ازبکستان کا سیاحتی ترقی کا ریاستی کمیشن سوشل میڈیا کو استعمال کر کے پوری دنیا میں انفلواینسرز کو مدعو کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ یہاں آئیں اور مقامی روایات کا خود مشاہدہ کریں اور یہاں کی خوراک چکھیں۔

گزشتہ سال تھائی لینڈ کے فوڈ وی لوگر مارک ویئنز کو ازبکستان کے ’فوڈ ٹوؤر‘ پر مدعو کیا گیا تھا اور مقامی کھانوں پر ان کی ویڈیوز کو ایک کروڑ مرتبہ دیکھا گیا ہے۔ اور لگتا ہے کہ یہ اصلاحات اور ’دلکش حملہ‘ کام کر رہا ہے کیونکہ 2014 اور 2018 کے درمیان سیاحوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
 

image


ازبک شیف بخری الدین چشتی کہتے ہیں کہ ’میں نے پلاؤ کے علاوہ ہر چیز کے ساتھ تجربہ کیا ہے، کیونکہ آپ اسے شاید ’مقدس گائے‘ کہیں گے۔ آپ اس کا مزہ خراب نہیں کر سکتے۔ میں نے ایک مرتبہ
ایسا کیا۔ پھر مجھے سب نے ڈانٹ پلائی۔‘
 

image


شیفس یہ بھی چاہتے ہیں کہ غیر ملکیوں کو ازبک کھانوں سے روشناس کرایا جائے۔ سنہ 2010 میں 26 سالہ ازبک شیف بخری الدین چشتی اس وقت ایک مشہور شخصیت بن گئے جب انھیں سابق روسی صدر دمتری میدویدیو کے لیے کھانا پکانے کا موقع ملا، جو بظاہر سابق روسی صدر کو بہت پسند آیا۔

جب چشتی ازبکستان واپس آئے تو انھوں نے اپنا ایک ریستوران کھولا جہاں وہ اصلی ذائقوں کو قائم رکھتے ہوئے نئی تکنیک استعمال کر کے ازبک کھانوں کے ساتھ نئے تجربات کرتے ہیں۔ اس میں کھانے کی تیاری کے وقت کو کم کرنا، مختلف پلیٹوں کے لیے مختلف ذائقہ کے اصول اور سب سے اہم سرونگ کے حجم کو کم کرنا اہم ترجیحات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پلاؤ وہ واحد ڈش ہے جس میں وہ ترمیم نہیں کر سکے۔ انھوں نے ایک مرتبہ یہ ’غلطی‘ کی لیکن انھیں مقامی لوگوں سے ڈانٹ سننی پڑی جس کے بعد وہ باز آ گئے۔

چشتی نے قازقستان اور روس میں بھی ریستوران کھولے ہیں اور ان کا منصوبہ ہے کہ اسے مزید وسعت دی جائے اور ازبک کھانوں کے پروفائل کو بیرون ممالک میں بڑھایا جائے۔ ’جب آپ لندن آتے ہیں تو آپ دوسرے ریستورانوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ کبھی ہمارے کھانے بھی بڑے شہروں میں اتنے ہی مقبول ہو جائیں۔‘
 

image


ازبک کھانوں کا مستقبل
باصلاحیت ازبک شیفس، منفرد اور مزیدار کھانے اور ایسی حکومت جو غیر ممالک میں ان کو متعارف کرانا چاہتی ہے، کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ازبک کھانے دنیا کے کھانوں کے سٹیج پر اپنا اثر چھوڑیں گے۔ اور اگر یہ اپنی روایتی تراکیب کو مقامی افراد کی بدلتی ہوئی طرزِ زندگی اور غیر ملکی منڈی کے مطابق ڈھال لیں جس میں صحت مند خوراک کا شعور بڑھ رہا ہے تو شاید اس پر سے ’خطرناک خوراک‘ کا دھبہ بھی اتر جائے۔
 


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: