جوں جوں انسان نے دنیا میں ترقی کی منازل طے کیں ہیں
اس کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں میں بھی تبدیلی وقوع پذیر ہوتی رہی ہے اور ہر
چیز مادہ پرستی ,ذاتی مفادات کے گرد گھومنے لگی ہے ۔"پہیے"کی ایجاد کے ساتھ
ساتھ انسان بھی تیزی سے اپنی ذات کے گرد گھومنے والی مشین بن کر رہ گیا ہے
۔ غاروں سے مٹی کے گھروندوں,قلعوں اور پھرعالی شان محلوں تک کے سفر نے
انسانوں کے درمیان تفریق حد بندیوں اور دوریوں کے بیج بو د ئیے۔اس بے لگام
ترقی نے انسانوں کو درندوں سے بھی بدتر مخلوق بنا دیا ۔آئے روز کے دلخراش
واقعات اس بات کا اھم ثبوت ہیں کہ ہوس زر کی طلب نے انسانیت کا جنازہ نکال
دیا ۔ایک طرف ایک شخص بھوکا سورہا ہے تو دوسری طرف اس کا ہمسایہ خوب پیٹ
بھر کر سیر ہو رہا ہے۔ بے حسی کی انتہا ہے کہ کسی کو اپنے اردگرد کوئی
دوسرا ضرورت مند دکھائی ہی نہیں دے رہا۔اگر کوئی دکھائی بھی دیتا ہے تو
کوئی اس کی مدد کرنے کو تیار نہیں احساس نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی خود
غرضی اپنے عروج پر ہے بھائی بھائی کے خون کا پیاسا بن چکا ہے ۔اس عہد وحشت
میں کسی انسان کو کسی دوسرے انسان کی پرواہ تک نہیں ہر شخص اپنی ذات سے
باہر سوچنا بھی گناہ سمجھتا ہے یہی رویہ انسانیت کی موت کا باعث ہے ہر شخص
دوسرے انسان سے گریزاں ہے۔ بابائے تھل فاروق روکھڑی نے کیا خوب کہا تھا کہ
ہر شخص گریزاں ہے دوسرے سے یہاں
تمھارے شہر کے لوگوں کو یہ ہوا کیا ہے؟
معاشرے کے ان بدلتے ہوئے رویوں کو ہم ترقی کا نام دے رہے ہیں جو میرے خیال
میں درست نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہم پستی کی طرف گامزن ھیں تو غلط نہ
ہوگا ۔آج ہمارا ترقی یافتہ معاشرہ اپنے گھروں کی چاردیواری اور انا کے خول
کے اندر بند ہو کر رہ گیا ہے ہمیں اپنے آس پاس غربت کی لکیر سے بھی نیچے
زندگی گزارتے بے بس و لاچار افراد دکھائی ہی نہیں دیتے بلکہ یوں کہ لیں کہ
سب کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں کیا یہی ترقی کے ثمرات ہیں ……؟ آج کورونا وائرس
جیسی مہلک وباء نے تمام دنیا کی ترقی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے ایک معمولی
سے نہ نظر آنے والے وائرس نے انسان کوبے بس اور لاچار بنا کر رکھ دیا ہے
فطرت سے بغاوت کرنے والا انسان آج کہاں کھڑا ہے ……؟
اس وحشت زدہ دورمیں بھی ہمارے رویوں میں ذرا برابر تبدیلی رونما نہیں ہو
رہی ہماری اشرافیہ آج بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ اپنے خوشنما
قلعوں کے اندر محفوظ ہیں ۔مگر ایسا کچھ نہیں ہے یہ مہلک وائرس وقت کے
بادشاہوں اور شہزادوں کے محلوں کی دیواریں پھلانگ کر ان تک پہنچ چکا ہے اور
بتا رہا ہے کہ تمھارے سیکورٹی کے حصار اور دیواروں پر نصب کیمرے بے معنی ہو
چکے ہیں اﷲ تعالی کی ذات کے آگے انسان کی بنائی ہوئی تدبیریں کبھی کاریگر
ثابت نہیں ہو سکتیں یہ آج کے دور کے انسان کے لیے ایک بہت بڑا سبق اور عبرت
کا مقام ہے ۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اﷲ کی طرف رجوع کریں اور ایسے
حالات میں اپنی ذات کے حصار سے نکل کر انسانیت کے درد کو محسوس کرتے ہوئے
ایسے مواقع پربے بس اور لاچار غریب لوگوں پر نظر عنایت کریں اپنے مال سے
غرباء کا حصہ نکال کر دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوں ۔اس وقت ملک میں
حالیہ لاک ڈاون کی وجہ سے بہت سے دیہاڑی دار مزدور بری طرح متاثر ہو رہے
ہیں اور ہماری مدد کے طلبگار ہیں۔ یہ ہم پر قدرت کی طرف سے ایک آزمائش ہے
ہمیں اس پر پورا اترنا ہے اس کے لیے ہر دولت مند شخص کو باہر نکلنا ہو گا
اور ضرورت مند بھائیوں کی دل کھول کر مدد کرنی ہو گی اس سے پہلے کے دیر ہو
جائے۔ہمارے مجبور اور بے بس مفلوک الحال بھائی کورونا وائرس سے تو بچ جائیں
گے لیکن بھوک ان کے سروں پر موت بن کر کھڑی ہے ان کی چیخ وپکارعرش کو ہلا
سکتی ہیں ۔بقول شاعر
تنہا ہے میری ذات جگاؤں کسے کسے
ہر شخص مجھ کو نیند میں ڈو با ہوا ملا
حکومت کے ساتھ ساتھ اس وقت فلاحی تنظیموں کا بھی رول بہت اہم ہے معاشی
بدحالی کے پیش نظر فلاحی ادارے اور تنظیموں کو اپنے حصے کا کام بھرپور
طریقے سے سرانجام دینا ہوگا جس طرح زلزلہ ،سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے
دور میں ان اداروں اور تنظیموں نے اپنی خدمات پیش کرکے دنیا میں پاکستان کی
نیک نامی کے جھنڈے گاڑھے تھے اور خراج تحسین کے مستحق ٹھہرے تھے اس وقت بھی
ملک کی بعض مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کا کردار قابل رشک ہے جن میں جماعت
اسلامی ،تحریک منہاج القران ،ایوان مہر علی گولڑہ شریف اور بہت سی دیگر
تنظیمیں اپنے حصے کا بھر پور کام کر رہی ہیں ۔حسب روایت پاک فوج کے جوان
بھی اس کار خیر میں پیش پیش ہیں۔ ہمیں یقین کامل ہے کہ حکومت، ڈاکٹرز ،پاک
فوج اور فلاحی ادارے سب مل کر مشکل وقت میں عوام کو اس وباء سے نجات دلانے
میں سرخرو ہونگے۔ پروفیسر نصرت بخاری نے کیا خوب کہا تھا کہ
تھکن سے چور ہے سارا بدن مگرنصرت
غموں کے ساز پہ اب تک حیات رقص میں ہے
|