دوستو! آداب
آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں.
ہماری پہاڑی زبان میں کٹی گھاس کا ڈھیر یا ترتیب میں گھاس کی گڈیوں کو جب
ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے تو اسے' گھاڑا'کہتے ہیں، اردو لغت کے مطابق اسے
گھاس گنجی، گاہ انبار یا گھاس کا چوٹی دار ڈھیر کہتے ہیں. اکثر یہ 'گھاڑے'
گاؤں کے باہر زمینوں کے کونوں پر ہوتے ہیں اور حسب ضرورت مویشیوں کی خوراک
کے لیے لوگ یہاں سے گھاس لاتے ہیں اور جانوروں کے سامنے ڈال دیتے ہیں.
اکثر' گھاڑے' محفوظ جگہوں پر کھڑے کیے جاتے ہیں تا کہ ان کا گھاس تیز ہواؤں
یا آندھیوں کی نظر نہ ہو جائے. ان کے اطراف کانٹوں کی باڑلگائی جاتی ہے
تاکہ جانور اس گھاس کو نقصان نہ پہنچائیں. گاؤں کی زندگی کا یہ حسن ہوا
کرتا تھا کہ سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اعتبار کے رشتے میں بندھے ہوتے تھے
اور کوئی کسی کے 'گھاڑے' کو نقصان نہیں پہنچاتا تھا، کسانوں کی زندگی انہیں
چھوٹی چھوٹی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے سہارے گزر جاتی. ہمارے گاؤں میں
کبھی کوئی لڑائی نہیں ہوتی تھی، کبھی کوئی چوری نہیں ہوئی تھی، کبھی کسی نے
کسی کی فصل کو نقصان نہیں پہنچایا تھا، کبھی کوئی کسی کی زمین پر قبضہ نہیں
کرتا تھا اور کبھی بھی کسی کی ماں، بہن، بیٹی کی توہین نہیں کی جاتی تھی .
آپ کہہ سکتے ہیں یہ گاؤں ایک چھوٹا سا یوٹوپیا تھا جس میں خود کشی کا رواج
نہ تھا، یہاں کوئی گھر سے بھاگتا نہیں تھا اور نہ ہی کبھی کسی کو کوئی ذہنی
بیماری تھی. ہاں جسمانی بیماریاں تھیں مگر وہ بھی عجیب سی تھیں اور ان کا
علاج اتنا ہی غریبوں والا تھا.
پہلی بیماری بچوں کو سردی لگنا ، دوسری بیماری بچوں کو زیادہ اچھل کود کی
وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہونا اور تیسری اور سب سے بڑی بیماری جسم پر
کوئی پھوڑا پھنسی نکلنا تھا اور ان سب کا علاج ایک ہی دوا تھی! ' شیر مارکہ
' گولی. میں نے ایک بار فینٹا ٹافی کے ساتھ بھی علاج ہوتے دیکھا ہے. اس کے
علاوہ یہ لوگ اپنی روحوں کی طرح جسموں میں بھی ولی لوگ تھے. اب جہاں لوگ
ایسے تھے تو یہاں کے جانور، چرند پرند اور جنات کا کیا حال ہو گا اس بارے
میں بات کرنے سے پہلے اس دور میں واپس جانا ضروری ہے. میں آنے والے دنوں
میں ان سب پر بات کروں گا مگر آج مجھے میرا گیدڑ بہت یاد آ رہا ہے.
کون؟
گیدڑ، جی ہاں آپ نے سہی سنا اور پڑھا ہے، مجھے میرا گیدڑ یاد آ رہا ہے.
میں نے اوپر جس 'گھاڑے' کا ذکر کیا اس کے پیچھے ہمیشہ بلیاں بچے دیتی یا
کوئی گیدڑ اسے اپنا مسکن بنا لیتا ، ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر ایک اونچا
پتھریلا میدان تھا، لگتا ہے کچھ سو سال پہلے یہاں ایک چٹان ہوئی ہو گی جو
گھس گھس کر ایک پتھریلے ٹیلے کی شکل اختیار کر گئی تھی جہاں پر ایک بہت بڑا
'گھاڑا ' ا لگایا گیا تھا، اسے سب بابا جی عبداﷲ صاحب کا 'گھاڑا ' کہتے
تھے. اس 'گھاڑے' کے پیچھے ایک گیدڑ رہا کرتا تھا اور یہ ہر روز صبح یہاں سے
نکلتا اور کہیں غائب ہو جاتا. اس گیدڑ کو سب جانتے تھے مگر وہ کسی کو نہیں
جانتا تھا. جب کسی کی مرغی غائب ہو جاتی تو لوگ بھاگ کر اس 'گھاڑے' کی طرف
جاتے یا کبھی شاموں کو بچے مستی کے موڈ میں ہوتے تو اس گیدڑ کو تنگ کرنے
یہاں آ جاتے مگر یہ گیدڑ اس 'گھاڑے' میں جب تک رہا اس نے اپنی زندگی اپنے
انداز سے گزاری. میں اس گیدڑ کو اکثر یہاں دیکھتا مگر تنگ نہ کرتا، اس
'گھاڑے' کے پیچھے ایک قدیم سیٹیلمنٹ کے اثار ات تھے اور ہم بچپن میں یہاں
سے ہو کر اپنی چراہ گاہ جسے ہم ' رکھ ' کہتے تھے جاتے تھے . مجھے یہ گیدڑ
بلکل بھی برا نہیں لگتا تھا اور وہ بھی مجھ سے مانوس تھا، میں اس سے ڈرتا
نہیں تھا اور اسے بھی مجھ سے کوئی خوف نہیں آتا تھا. میں نے کئی بار اسے
منہ میں حاجی صاحب کی مرغی دبوچے 'گھاڑے' کے پیچھے جاتے دیکھا اور اس پر
پتھر برسانے کے بجائے اسے اس کے شکار کے ساتھ انصاف کرنے کا موقعہ دیا،
شائد اسے بھی احساس تھا کہ میں اس کے بارے میں زیادہ سوچتا نہیں تھا. جیسے
ہم اپنے گھر میں رہتے تھے وہ اپنے میں رہتا تھا اس لیے ہم اپنے اپنے گھروں
میں خوش تھے. بہت سال بیت گئے آج بھی مجھے اس گیدڑ کی آنکھوں میں رات کے
اندھیرے میں ابھرنے والی روشنی یاد ہے.
پھر ایک روز ایسا ہوا کہ گاؤں میں کسی منچلے نے آگ جلائی، اس روز آندھی چلی
اور جب تک اس آگ کو بجھایا جاتا کچھ چنگاڑیاں اس 'گھاڑے' کے خشک گھاس سے آ
لپٹیں اور میرے گیدڑ کا یہ مسکن کچھ ہی گھنٹوں میں راکھ کا ڈھیر بن گیا. با
با جی عبداﷲ صاحب نے پھر اس کے بعد یہاں کوئی 'گھاڑا ' نہیں لگوایا اور یہ
گیدڑ مجھے پھر نظر نہیں آیا.
زندگی اور بہتا پانی رکتا نہیں ہے، میری زندگی بھی ان گاؤں کی پگڈنڈیوں سے
شروع ہوئی جو اب برطانیہ میں ان وبا کے دنوں میں سیلف آئیسو لیشن میں گزر
رہی ہے. میں آج سے بیس سال پہلے برطانیہ آیا تھا اور تب سے اب تک اپنے گیدڑ
کو کہیں نہ کہیں مل لیتا ہوں . میں نے غیر معمولی طور پر آج سے بیس سال
پہلے میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا. اس وقت اردو میڈیا صرف
اخبارات یا ریڈیو تک محدود تھا اور جب میرے ہم عصر اکاؤنٹنٹ ، وکیل اور
استاد بن رہے تھے تو میں پورا دن کسی ریڈیو سٹوڈیو یا کسی کیمرہ کرو کے
ساتھ ہوتا. مجھے لگتا تھا کہ جب کبھی پاکستان میں میڈیا کا انقلاب آئے گا
تو میں اس ہر اول دستے میں ہونگا جو پاکستان کی اصل خوبصورتی دنیا کو دیکھا
پائے گا . چار سال بعد مجھے میری ڈگری مل گئی اور اس کے دو ماہ بعد میڈیا
کا پہلا کانٹریکٹ. مجھے گاڑی ملی، دستیاب وسائل میں جو میں کر سکتا تھا
کیا، تھوڑے بہت لوگوں نے میرے چہرے کو پہچاننا شروع کر دیا اور پھر میں نے
اپنی خواہشات کے خشک گھاس کی گڈیوں سے اپنا 'گھاڑا ' کھڑا کیا اور زندگی
بہت تیز رفتاری سے چلنا شروع ہو گئی. میں یہ بھول گیا تھا کہ جب آندھی چلتی
ہے تو کہیں سے کوئی چنگاڑی اس گھاس سے لپٹ کر اسے دھول کا ڈھیر بنا دیتی
ہے. میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہو ا اور میں ایک روز اپنے 'گھاڑے' کی دھول سے
اٹھا اور سفر پر نکل آیا. مجھے اپنی شہرت سے خوف آنے لگ گیا اور وہ کیمرہ
جس کی آنکھ سے میں اپنے لاکھوں مداحوں سے مخاطب ہوتا تھا مجھے ڈراتا تھا،
میں ہوا کے دوش پر جس ریڈیو شو میں مدھر نغموں کی زبانی کانوں میں رس
گھولتا تھا وہ اسٹوڈیو مجھے قید خانہ لگنے لگ گیا.
اس دنیا کو چھوڑے بہت سال ہو گئے اور اس دوران بہت سے پرانے دوست ملتے اور
واپس اس رنگ و نور کی دنیا میں جانے کو کہتے مگر مجھے میرے 'گھاڑے' کی دھول
میں اتنے شول ملے تھے کہ میرے پاس واپسی کا اختیار تھا ہی نہیں اور پھر وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ میں Outdated ہو گیا تھا اس لیے کبھی سوچا نہیں . فروری
2020 کے بعد دنیا بدل گئی، ایک وائرس نے دنیا کو انسانوں کے لیے ایک جیل
میں تبدیل کر دیا، سب اپنے اپنے گھروں میں قید خوف میں مبتلا ایک اندیکھے
دشمن کے منتظر نظریں ٹی وی پر جمائے کسی مثبت خبر کو تلاشنے میں مصروف تھے
جب مجھے لگا کہ میرے لیے اس امید کی کرن کو روشن کرنے کا ایک ذریعہ ہے
لہٰذا میں نے بہت سالوں کے وقفے کے بعد پھر سے ویب براڈکاسٹ کا آغاز کیا
اور بہت سے پرانے لوگوں سے ملاقات ہوئی یہ میرے گزرے وقتوں کے دوست تھے. ان
دوستوں میں ایک دوست ایک نامی صحافی بھی تھا، لوگ اسے موسی کے نام سے جانتے
ہیں. موسی نے مجھے مجبور کیا کہ مجھے اپنی دنیا سے باہر آنا چاہیے اور میں
آ گیا.
ایک روز مجھے کچھ ایسے لوگوں نے فون کیا جنہیں میں پندرہ سال پہلے جانتا
تھا میں نے موسی سے پوچھا کہ یہ لوگ مجھے بھولے نہیں ہیں، موسی نے ہنستے
ہوئے کہا ' یہ لوگ تمہیں کیسے بھول سکتے ہیں، کیا کبھی کوئی گیدڑ کو بھولا
ہے، گیدڑ کو پتہ نہیں ہوتا مگر گیدڑ کو سب جانتے ہوتے ہیں مگر گیدڑ کسی کو
نہیں جانتا ' اور پھر مجھے لگا کہ میرا گیدڑ جو کبھی اس پتھریلے میدان والے
'گھاڑے' میں رہا کرتا تھا آج بھی زندہ تھا.
ابھی جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو میرے کمرے کی کھڑکی کھلی ہے، بہت خوبصورت
موسم ہے اور دور سے ایک آواز آ رہی ہے
کوئی کچ دی مدھانی اے
سجناں توں وار دئیے
جند انجھ وی تے جانی اے
میں اٹھ کر کھڑکی کے پاس گیا اور یہ آواز اندھیرے کی چادر میں غائب ہو گئی
اور جب میں واپس اپنی کرسی پر بیٹھا تو یہ آواز ایک گونج کی صورت میرے ساتھ
کرسی پر بیٹھ گئی اور اب میں آپ تک پہنچا رہا ہوں، ضرور بتایئے گا کہ آپ کو
میرے 'گیدڑ ' سے ملنا کیسا لگا؟
|