یاد رفتگاں: احسان دانش غربت و افلاس کا نمائیندہ شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط سوم
(Afzal Razvi, Adelaide-Australia)
یاد رفتگاں: احسان دانش غربت و افلاس کا نمائیندہ شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط سوم
افضلؔ رضوی دیہات کا حسن ِ لازوال پیش کرنے کا ہر گز گز یہ مطلب نہیں کہ دانش شہر کے قمقموں میں جھلملانے والے حسن کو حسن نہیں مانتے، ان کا اپنا خیال ہے کہ: میں نے حسن و رعنائی سے زیادہ محنت اور مشقت سے ٹوٹتے ہوئے اجسام اور فاقوں سے سہمے چہروں کو اپنی شاعری میں ریڑھ کی ہڈی بنایا ہے۔میں ایک حسین چہرے اور زرق برق لباس سے متاثر ہوتا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے وہیں سے غریب اور پس ماندہ طبقے کے پیوند لگے کپڑے نظر آنے لگتے ہیں اور وہی میری شاعری کا قیمتی مواد ہے۔ میں نے اپنی اس قسم کی نظموں پربڑے بڑے سنگدل لوگوں کو روتے اور تڑپتے دیکھا ہے کیونکہ شعر مین غم کی دھاریں تلوار سے کہیں زیادہ تیز اور دل دوز ہوتی ہیں، میں لہکتے مہکتے بلند درختوں اور پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں کو دیکھ کر بھی ایک فرحت اور سرور محسوس کرتا ہوں مگر میدانوں کے سبزہزاروں میں کسانوں کے خون کی فصلیں کٹتے دیکھ کر میرے احساس میں نشتر چبنے لگتے ہیں اور جذبات شعر کی صورت میں ڈھلنے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں۔ احسان دانش کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کسی نام نہاد سیاسی تصور کا سہارا لینے کے بجائے حقیقی انسان کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے جو اس کے گرد وپیش میں موجود ہے اور اس کے ساتھ مل کر نہ صرف محنت و مشقت کررہاہے بلکہ اس کے دکھوں، آہوں، آنسوؤں اور سانسوں تک میں شریک ہے۔ پھاوڑا کاندھے پر رکھے آرہاہے اک کسان رنگ جس سے لیتے ہیں گل زاروں کے پھول دل میں جینے کی تمنائیں، فضا ناساز گار آنکھ میں سرخی، لبوں پر پپڑیاں، نتھنوں میں دھول شہر کے پروردہئ ناز ونعم کو کیا خبر کیسے چلتی ہے درانتی، کس طرح کٹتے ہیں کھیت عورتیں چنتی ہیں کیونکر سیلا دن بھر دھوپ میں کس طرح جلتے ہیں تلوے، کس طرح تپتی ہے ریت محنت کش کسان اور مزدور کے شب وروز کے بیان کے ساتھ ساتھ احسان کی نظر جب نظامِ تعلیم پر پڑتی ہے تو وہ تڑپ اٹھتے ہیں، ان کے ضمیر کی آواز اس فرسودہ نظامِ تعلیم پر کرھتی ہے اور پکار پکار کر کہتی ہے کہ اس طریقِ تعلیم سے ماہرینِ کتاب تو جنم لیتے ہیں لیکن ماہرین علم مفقود ہوتے جاتے ہیں۔ اپنے نظریہ تعلیم کو ایک نظم میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔ ہے کیا خاک وہ علم جو زندگی کے نشیبوں کو بھر کر نہ ہموار کردے نہ ذروں کو جو مہرو مہتاب کردے، نہ قطروں کو جو بحرِ ذخّار کردے نئی نسل کو دو نہ تعلیم کہنہ کہ یہ ماضیوں کی مسافر نہیں ہے یہ اولاد بے شک تمہاری ہے لیکن تمہارے زمانے کی خاطر نہیں ہے احسان دانش نے طریق تعلیم پر تنقید کے ساتھ ساتھ نوکر شاہی نظام کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ احسان کا خیال تھا کہ اس ملک پر صرف اور صرف ایک جماعت کی حکومت ہے، اور وہ ہے نوکر شاہی۔نوکر شاہی کے مختلف گروہ ہیں کچھ روس نواز اور کچھ امریکہ نواز؛ چنانچہ یہ گروہ اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ایسے پروگرام بناتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہوں اور یہ سلسلہ تاریخ ِ پاکستان کے ساتھ ساتھ تسلسل سے چل رہاہے۔”فصلِ سلاسل“کی نظم ”پیش بینی“ میں کہتے ہیں۔ اگر مناسب خیال کرتے ہو، امن کا اہتمام کر لو زبوں نظامی اگر غلط ہے، درست اپنا نظام کرلو جو پالیسی میں نہ فرق آئے، تو ملک کا انتظام کرلو تمہیں پہ اب فیصلہ ہے اس کا، مٹو کہ خود کو دوام کر لو یقین کر لو کہ زندگی میں کوئی عمل بے ثمر نہیں ہے جو وقت نزدیک آرہاہے کسی اس کی خبر نہیں ہے
میں خوب واقف ہوں شاعری کی ملے گی دانش جو داد مجھ کو گلی گلی میں کریں گے رسوا یہ صاحبان مفاد مجھ کو قرار دے دیں گے چند نااہل مل کے اصل فساد مجھ کو مگر خدا ہے گواہ میرا، نہیں کسی سے عناد مجھ کو میں جس کا پیغام بر ہوں بعد اس کے کوئی پیغام بر نہیں ہے جو وقت نزدیک آرہاہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے احسان دانش انسان کے بلند مقام سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات بنا کر عطا کیا ہے، خوب واقف ہیں، کہتے ہیں۔ سنتا ہوں سر پہ خم تھے فرشتے مرے حضور میں جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا دانش کو آقائے نامدار ﷺ سے بے پناہ محبت تھی چنانچہ ان کے کلام میں نعت کا بھی ایک ذخیرہ موجود ہے۔ پروفیسر حفیظ تائب کہتے ہیں۔ اقلیم شعر و سخن کی شہر یاری اور جملہ سہولتوں کے ہوتے ہوئے درویشانہ اندازِ زندگی کو اپنائے رکھنے کا حوصلہ یقینا انہیں آستانِ رسالت ﷺ سے گہری وابستگی نے عطا کیا تھا۔چند نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ جب میں خود اپنے سوانح پر نظر کرتا ہوں ایک ذرے کو لیے پھرتا ہے دریا تیرا میری جاں بھی تری بانٹی ہوئی شیرینی ہے غم بھی ہے دل میں لگایا ہوا پودا تیرا تھا جس کی خلوتوں کا سہارا غم رسولﷺ وہ گوشہئ لحد میں بھی تنہا نہیں ہوا دانش اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کی غلامی انسان کی زندگی کا سرمایہئ افتخار ہے۔ جب میں بجز حضورﷺ کسی کا نہیں غلام پھر کیوں کسی کی نازش بے جا اٹھائی جائے اپنے دانش کی طرف ایک عنایت کی نظر امتی یہ بھی تو ہے، اے شہ بطحا تیرا دانش میں خوفِ مرگ سے مطلق ہوں بے نیاز میں جانتا ہوں موت ہے سنت حضور ﷺ کی اور حُسنِ فطرت کو ہجوم عاشقاں درکار تھا عاشقوں کو بہر سجدہ آستاں درکار تھا دُھوپ میں ڈھوئے تھے پتھر اِس لیے سرکارؐ نے حشر کے دن رحمتوں کا سائباں درکار تھا ہاں مرے سجدوں میں ہے دانشؔ اُسی دَر کی تڑپ میری پیشانی کو اُنؐ کا آستاں درکار تھا دانش کی زبان شناسی پر سید عبداللہ لکھتے ہیں۔ زبان اور دل کا رشتہ لازم وملزوم ہے شاعر اپنے دل کی بات کے لیے موزوں ترین الفاظ یا تراکیب استعمال کر سکتا ہے اور کرتا ہے مگر اصلاح کرنے والا مشیر یا استاد اگر قلب انسانی کا شناسا نہ ہو گا تو وہ شاعر کے کلام میں زبان و دل کی رشتہ داری کا سراغ نہیں لگا سکے گا۔ احسان دانش وہ زبان شناس اور انسان شناس تھا جو شاعر کی نوا کے ایک جز سے شاعر کے قلب کے اسرار پر محیط ہو جانے کی صلاحیت رکھتا تھا اسی لیے تو بعض دوست انہیں سلطان سخن یا سلطان دانش بھی کہا کرتے تھے۔ دانش کی وطنِ عزیز پاکستان سے بے پناہ کا اظہار ان کی نظموں اور غزلوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔دیکھیے نظم”تعمیر ِوطن“ میں پاکستان سے اسی چاہت کا اظہار کس طرح کرتے ہیں۔ جس طرح ممکن ہو تعمیر وطن کرتے رہو کام اپنا اے محبانِ وطن کرتے رہو زندگی یکسر محرب ہے سکوں یکسر ہے موت کچھ نہ کچھ اے نوجوانان وطن کرتے رہو آندھیوں کا کیا بھروسہ کیا بگولوں کا یقیں روز اُونچی اپنی دیوار چمن کرتے رہو لطف ہی کیا ہے اگر بولے نہ ہر رُخ سے جنوں ہوش سے بچتے چلو، دیوانہ پن کرتے رہو یوں ہی قطرہ قطرہ ہو جاتا ہے بحر بیکراں غم نصیبوں کو شریک انجمن کرتے رہو کاش تہذیب نوی کے کھیل کو سمجھو سراب کاش تقلید روایات کہن کرتے رہو انتشار اک پیش نامہ ہے زوال ملک کا اتحاد قوم و ملت کا جتن کرتے رہو دوستی احسان دانشؔ کچھ نہیں اِس کے سوا زندگی بھر اعترافِ حسن ظن کرتے رہو دانش کو بدلتے ہوئے حالات کا بہت زیادہ ادراک تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ انقلابی باتوں کے ساتھ ساتھ احتیاط کے دامن کو کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ ”دیکھ کر چلو“ ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو زندہ ہے دِل تو اس میں محبت بھی چاہیے آنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلو آذر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیک صر صر بنی ہوئی ہے صبا دیکھ کر چلو امسال دیدنی ہے چمن میں جنوں کا رنگ گُل چاک کر رہے ہیں قبا دیکھ کر چلو گُلچیں کے سدّباب سے انکار ہے کسے لیکن اصولِ نشو و نما دیکھ کر چلو کچھ سرپھروں کو ذکرِ وفا بھی ہے ناگوار یہ انحطاطِ مہر و وفا دیکھ کر چلو ہاں انفرادیت بھی بُری چیز تو نہیں چلنا اگر ہے سب سے جدا دیکھ کر چلو آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو ہر شے ہے بے نقاب اے بندگانِ حرص و ہوا دیکھ کر چلو ذوقِ عبودیت ہو کہ گستاخیِ نگاہ تخمینہ? جزا و سزا دیکھ کر چلو ناموسِ زندگی بھی بڑی شے ہے دوستو دیکھو بلند و پست فضا دیکھ کر چلو یہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیست اس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلو عرفان و آگہی بھی عبادت سہی مگر طرز و طریقِ اہلِ وفا دیکھ کر چلو اسبابِ ظاہری پہ بھی درکار ہے نظر باوصف اعتمادِ خدا دیکھ کر چلو ممکن ہے روحِ سرو و سمن سے ہو ساز باز کیا دے گئی گلوں کو صبا دیکھ کر چلو ہر کشمکش نہیں ہے امینِ سکونِ دِل ہر موت میں نہیں ہے بقا دیکھ کر چلو ہر لحظہ ہے پیمبرِ اندیشہ و عمل کیا چاہتا ہے رنگِ فضا دیکھ کر چلو یہ بھی روش نہ ہو رہِ مقصود کے خلاف آئی ہے یہ کدھر سے صدا ”دیکھ کر چلو“ ہمدرد بن کے دشمنِ دانشؔ ہوئے ہیں لوگ یہ بھی ہے دوستی کی ادا دیکھ کر چلو دانش ”فصلِ سلاسل“ میں لکھتے ہیں: ہر چند کہ میں احسان دانش لکھتے ہیں، میں اپنی صداقت اور حقیقت نگاری کے جرم میں زندگی بھر مشکلات سے دوچار اور پریشانیوں سے دوررہاہوں۔مگر کیا کروں خدا نے مجھے حقیقت پسند دل اور دروں بیں نظر بخشی ہے اور میں اسے انعام وعطا کا نام دیتا ہوں،یہی سبب ہے کہ میں نے کبھی اپنے غم وآلام کا شکوہ نہیں کیا۔میری نظر ہمیشہ گرد وپیش کی معاشری پستیوں اور اکلاقی ناہمواریوں پر رہی ہے۔۔۔۔میرا ایمان ہے جو معاشرہ حکمِ خداوندی اور شریعتِ پیغمبری ﷺ کے خلاف ہو گا وہ منزلِ مقصود سے محروم رہے گا۔ احسان دانش ایک ذخیرہ کتب کا اپنے پیچھے چھوڑکر اورسلطان دانش، سلطان سخن، غلام رسول، محنت کش ومزدور طبقے کی آوازقرار پاکر بلآخر 22مارچ 1982کی صبح کو اس جہانِ فانی کو خیر آباد کہا اور ملکِ عدم کے راہی ہوئے۔ان کی اہم کتب کی ایک فہرست یہ ہے:تعمیرِ فطرت(حدیثِ ادب اور درد زندگی)،نوائے کارگر،آتشِ خاموش،چراغاں،شیرازہ،مقامات،جادہ نو،زخم ومرہم،میراثِ مومن،گورستان،فصلِ سلاسل،قفس رنگ،قصرِ نگاراں،بام وروزن،عکس وآئینہ،غبار کارواں،زنجیر بہاراں،دانش ابلاغ، روشنیاں، طبقات __انشائیے،الحساب،رموزِ غالب شرح،دستورِ اردو،لغات الاصلاح،خضر عروض،تذکیر و تانیث،جہانِ دانش، جہان دیگر،علم الامثال،اردو مترادفات،قاموس المحاورات،فرہنگِ دانش،متروکاتِ اردو،فرہنگِ قدیم، وغیرہ۔ بقول شاعر: یوں ہاتھ چھڑا کر ترا جانا نہیں اچھا ہنستی ہوئی آنکھوں کو رلانا نہیں اچھا تو زندہ وجاوید ہے تاریخ ادب میں دانش ترا مرنے کا بہانہ نہیں اچھا
|