آئیں حال کی تلخیوں سے دامن بچا کر کچھ وقت ماضی میں گزار
آتے ہیں - اس دور میں کہ جو بچپن کا سنہری دور کہلاتا ہے - دنیا میں شاید
ہی کوئی آدمی ایسا گزرا ہو جسے اس کا بچپن فیسی نیٹ نہ کرتا ہو - اور یہ کہ
وہ اس دور کی بری بھلی یادوں کو اپنا اثاثہ نہ گردانتا ہو -
آج مجھے اپنا ماضی اپنا بچپن ایک خاص حوالے سے یاد آ رہا ہے - ہاں صاحب "
آنہ لائبریریوں " کے حوالے سے گئے وقت کو یاد کرتے ہیں - آنہ لائبریریاں
عموما ہر شہر میں پائی جاتی تھیں - یہ دیگر بات کہ ہمارے ہاں اسے آنہ
لائبریری بالکل بھی نہیں کہا جاتا تھا - یاد پڑتا ہے کہ عمران سیریز کا ایک
دن کا کرایہ ایک روپیہ ہوا کرتا تھا - شاید سن زیرو میں کسی ایسی لائبریری
کا سراغ مل جائے کہ جہاں کتاب کا ایک دن کا کرایہ ایک آنہ ہو -
وہ کتاب سے محبت کا دور تھا کہ طلباء درسی کتابوں سے دامن بچا کر اور پڑھے
لکھے اور نیم خواندہ حضرات اپنے مسائل سے جان چھڑا کر کچھ وقت کے لیے
کتابوں کی انوکھی دنیا میں جا بستے تھے -
یاد پڑتا ہے جس پہلی لائبریری سے ہم متعارف ہوئے وہ لیاقت نامی شخص نے
کھولی تھی - یہ کوئی باقاعدہ لائبریری تو تھی نہیں - لیاقت بھائی نے گھر
میں ہی کتابیں رکھی ہوئی تھیں - ہم اپنی پسند کی کہانیاں لے آتے اور پڑھ کر
اگلے دن دوسری کتاب لینے پہنچ جاتے -
دوسری بے قاعدہ لائبریری صدیق نامی لڑکے نے کھولی تھی - یہ پہلی لائبریری
سے بڑی تھی کہ اس میں عمران سیریز ملا کرتی تھیں - لیاقت کی طرح وہ بھی
ہمارا ہمسایہ تھا -
ایک اور لائبریری خورشید نامی آدمی نے کھول رکھی تھی جس میں کتابوں کا بہت
بڑا ذخیرہ ہوا کرتا تھا یہ شاید شہر کی سب سے بڑی لائبریری تھی - دربار
محبوب سبحانی کے پاس ایک خستہ حال دکان میں یہ آباد تھی - ایک ایسی شاپ جس
کا کوئی گیٹ نہیں تھا - نہ رینک تھے کہ جہاں ان کے سینے کی نوبت آتی -
کتابیں پوری دکان میں پھیلی ہوئی ہوتی تھیں جنہیں شام کو گھر منتقل کر دیا
جاتا تھا - خورشید لائبریری میں بچوں بڑوں سب کی کہانیاں دستیاب تھیں -
ساتھ میں ڈائجسٹ اور تاریخی ناول شکاریات غرض ہمہ قسم کی کتابیں باافراط
ملتی تھیں - ہم نے وہاں سے سب سے زیادہ کتابیں پڑھیں - آج بھی خورشید صاحب
وہاں ہوتے ہیں لیکن کتابیں بکتی ہیں کرائے پر دستیاب نہیں ہوتیں - اگر
دیکھا جائے تو کتاب کی آخری یادگار ہے یہ جگہ کہ جہاں کتاب کی صورت دیکھنے
کو مل جاتی ہے -
ایک اور لائبریری شمیم نامی لڑکے نے بھی کھولی تھی یہ شخص اوچ شریف کے ایک
نامور صحافی اور ادیب رسول بخش نسیم کا بیٹا تھا - اس کی باقاعدہ ایک دکان
تھی جس پر کتابیں مخصوص نمبرز کے ساتھ بڑے قرینے سے الماریوں میں سجی ہوتی
تھیں - اپنی سیٹنگ کی وجہ سے اسے ایک معیاری لائبریری کہا جا سکتا ہے -
ایک اور لائبریری ملت نامی شخص نے بھی کھولی ہوئی تھی جس کی باقاعدہ ایک
دکان تھی اور وہاں بھی کتابیں بڑے قرینے سے الماریوں میں سجی ملتی تھیں
لیکن ایک خاص فرق بھی تھا اور وہ یہ کہ ہر کتاب جلد والی ہوتی تھی اور اس
پر فوٹو سٹیٹ شدہ کاغذ چپکا ہوتا تھا جس میں ہمیں ہدایت کی جاتی تھی کہ آپ
نے کتاب کو کس طرح استعمال کرنا ہے - گویا باقاعدہ تمیز سکھائی جا رہی ہوتی
تھی - ساتھ میں یہ دھمکی بھی کہ اگر ایک صفحہ پھٹا ہوا پایا گیا تو اتنا
جرمانا دینا ہو گا - وقت کی پابندی کا بھی اس میں بطور خاص حوالہ ملتا تھا
- ایسا سخت اصولی آدمی پوری زندگی میں نظر قاصر سے نہیں گزرا - شاید اس کے
رعب کا ہی نتیجہ تھا کہ اس کے کتابیں مکمل صاف ستھری اور قابل و دید ہوا
کرتی تھیں - کتاب پر نشان ڈالنے یا نام لکھنے کی بھی ممانعت تھی - دوسری
صورت میں جرمانے کی تلوار خطرے کی گھنٹی جا دیا کرتی تھی - ایک تلخ سی یاد
بھی اس لائبریری سے جڑی ہوئی ہے جس کا تذکرہ کالم کے آخر میں ہو گا -
عبد الواحد صدیقی نے بھی ایک لائبریری کھولی تھی ساتھ میں وہ کتابوں کی
دکان بھی ہوا کرتی تھی - سختی میں وہ آدمی کسی حد تک ملت کے ٹکر کا تھا -
مجال ہے جو کسی کو بنا سیکیورٹی کوئی کتاب دے ڈالے -
خواجہ ماجد نامی آدمی نے بھی ایک لائبریری کھولی تھی جو کتابوں کی دکان بھی
تھی - مختلف موضوعات کی کتابوں کا وہ بھی ایک اچھا ذخیرہ تھا - آدمی نرم
مزاج تھا سو کتاب آسانی سے مل جایا کرتی تھی -
آخر میں اپنی اس یاد کا ذکر کروں گا جس کا ذکر اوپر کر چکا -
ہوا یہ کہ ملت صاحب سے میں نے ایک کتاب ایشو کروائی اور پڑھنے کے بعد واپس
دینے آیا تو اس نے مجھ سے ڈبل کرایہ کاٹ لیا - میں نے کہا کہ جناب میں نے
تو ایک دن کتاب اپنے پاس رکھی ہے اور آپ دودن کے پیسے کاٹ رہے ہیں تو اس
آدمی نے اپنی گھڑی دکھاتے ہوئے کہا دیکھیں کل دن بارہ بجے آپ نے کتاب لی
تھی اور آج جب آپ مجھے واپس کرنے آئے تو بارہ بج کر ایک منٹ ہو گیا تھا -
سو انٹرنیشنل اصول کے مطابق دوسرا دن شروع ہو چکا ہے - لہذا آپ سے دو دن کے
پیسے چارج ہوں گے -
یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ آنہ لائبریریاں نہ ہوتیں تو دنیا اور ادب سینکڑوں
ادیبوں سے محروم رہتے -
|