رام جی کی ایودھیا میں کورونا جی

للن مشرا نے فون پر کلن پانڈے کو پرنام کیا اور پوچھا کیوں تاو جی کیسے ہیں؟
کلن بولے میں تو ٹھیک ہوں لیکن تم کہاں غائب ہوگئے تھے ۔ دو ہفتوں سے سلام نہ کلام کوئی خیر خبر نہیں ۰۰۰۰۰۰کہیں ۰۰۰۰۰۰
للن نے پوچھا کہیں، کیا پانڈے جی ؟ آپ بولتے بولتے رک کیوں گئے ؟
وہی !دراصل میں پوچھ رہا تھا کہیں کورونا کے چکر میں تو نہیں پھنس گئے تھے؟ پھر سوچا برا مان جاوگے ۔
پانڈے جی، میری رائے ہے کہ آپ اپنے آنگن سے نیم کا پیڑ کٹوا دیں ۔
للن کی بات پر پانڈے جی چونک کربولے کیا بات کرتے ہو مشرا ۔ اسی پیڑ کی بدولت تو ہم لوگ محفوظ ہیں ۔ جہاں نیم کا درخت ہو کورونا پھٹک نہیں سکتا۔
یہ تو نئی تحقیق ہے۔ بالکل گئوموتر اور گوبر سے کورونا کے علاج کی طرح نیا فارمولا لیکن معاف کیجیے میں اسے نہیں مانتا ۔
نہیں مانتے ؟ کیوں نہیں مانتے ؟؟ اگر یہ غلط ہے تو ثابت کرو۔
مشرا جی نے ہنس کر کہا بہت خوب ! میں کیوں ثابت کروں؟ آپ نے دعویٰ کیا ہے تو آپ ثبوت دیں ۔
میں ثابت کروں ؟ این پی آر میں تو اعتراض کرنے والا ثبوت نہیں دیتا بلکہ شہادت فراہم کرنے ذمہ داری اس پر ہوتی ہے جس پر اعتراض کیا جائے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ شاہ جی کا این پی آر نہیں بلکہ قدرت کا کورونا ہے اور اس پرنیم کے سورکشا کووچ ہونے کا دعویٰ آپ کررہے ہیں ۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر یہ ثابت ہوجائے تو آپ کو نوبل انعام مل سکتا ہے ۔ کیا سمجھے ؟ اس لیے کوشش کرکے تو دیکھیں ۔
پانڈے بولے دیکھو بھائی یہ شردھا کا معاملہ ۔ شردھا کی بنیاد پر ہندوستان کی عدالت میں تو فیصلے ہوجاتے ہیں لیکنمجھے پتہ ہے کہ نوبل پرائز نہیں ملتا۔
اچھا پانڈے جی فی الحال دنیا بھرصرف بیس لاکھ لوگ کورونا کی لپیٹ میں ہیں ۔ ان کے علاوہ سارے لوگ کیا نیم کے نیچے رہنے کی وجہ سے محفوظ ہیں ۔
بھائی وہ کیوں محفوظ ہیں وہ جانیں ۔ میری حفاظت کون کررہا ہے میں بتا رہا ہوں ۔ اب تم میرے نیم کے پیڑ کا پیچھا چھوڑ کر کچھ اور بات کرو۔
ٹھیک ہے آپ کی مرضی ۔ ویسے میں تو آپ کے بھلے کے لیے کہہ رہا تھا ۔
یار تم بھی عجیب آدمی ہو، اگر میرا اتنا ہی بھلا چاہتے ہو نیم کا پیڑ کٹوانے کا سجھاو کیوں دے رہے تھے ؟
وہ دراصل ، نیم کے سائے میں رہتے رہتے آپ کی زبان میں کڑواہٹ گھل گئی ۔ آپ کے لفظ لفظ سے اس کا اظہار ہونے لگا ہے۔
اچھا ۔ بہت خوب لیکن یہ تو بتاو کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ تم کوفون پر کڑواہٹ محسوس ہوگئی ۔
وہی کورونا والی بات ۔ آپ نے مجھے کورونا کے منہ میں جھونک دیا۔
ارے بھائی میں کون ہوتا ہوں تمہیں کورونا کا شکار کرنے والا ۔ وہ تو تم غائب ہوگئے تھے اس لیے چنتا ہوگئی ، خیر تم نے بتایا نہیں کہ کہاں کھوگئے تھے؟
وہ ایسا ہے پانڈے جی کہ میں رام نومی کے اوسر (موقع) پر ایودھیا نکل گیا تھا ۔
ارے اس لاک ڈاون میں تم ایودھیا کیسے پہنچ گئے ؟نہ کوئی سادھن نہ سواری ۔ ساری دنیا گھروں میں دبکی ہے اور تم تین سو میل دور ایودھیا ہو آئے۔
جی ہاں رام للا کی کرپا سے یہ ہوگیا ۔ میں لکھنو میں پارٹی کے کسی کام سے گیا تھا کہ اچانک لاک ڈاون شروع ہوگیا اور وہیں پھنس گیا ۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن پھر وہاں سے ایودھیا کیسے پہنچے ؟
مجھے پتہ چلا کہ یوگی جی اپنے لاو لشکر کے ساتھ ایودھیا جارہے ہیں ۔ میں اپنا رسوخ استعمال کرکے ان کے قافلے میں شامل ہوگیا اور ایودھیا نگری جاپہنچا ۔
یار تم تو بڑے جگاڑو نکلے لیکن اتنے دن بعد فون کیا ؟پیدل لوٹےہو کیا؟ ؟
جی نہیں۔ رام بھکتوں کے لیے ایودھیا سے وارانسی بس کی سویدھا ہے ۔ اس میں بیٹھ کر رام نام جپتے ہوئے لوٹ آیا۔
پانڈے جی سوال کیا، لیکن اتنے دن بعد ؟ خیریت تو تھی نا؟
تاوجی ایودھیا میں درشن کے بعد ہنومان گڑھی آشرم ڈیرہ ڈال دیا ۔ سوچا سب کام دھام تو ویسے ہی بند ہے۔کیوں نا وہیں بیٹھ کر دھنی رمائی جائے ۔
لیکن لوک ڈاون کے دوران پردیس میں اکیلے بور نہیں ہوئے ۔
پانڈے جی وہاں میں اکیلا تھوڑی نا تھا ۔ سیکڑوں عقیدتمند آجارہے ہیں ۔ درشن ہورہاہے یوں سمجھ لو کہ ایودھیا میں میلہ لگا ہوا ہے ۔
ارے بھائی لیکن پردھان سیوک تو ایک جگہ جمع ہونے سے منع کررہے ہیں اور اجتماع کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ ہورہی ہے۔
اوہو آپ بھی کتنے بھولے ہیں پانڈے جی ۔ میں حضرت نظام الدین کے تبلیغی مرکز میں تھوڑی نا گیا تھا جوقومی سلامتی کے مشیراجیت ڈوول ہمارے لیے فکرمند ہوکر ملنے آتے۔ کورونا سے بچانے کے لیے ہماری مفت میں جانچ کرواتے ، میڈیا والے ہمیں ٹی وی پر دکھاتے ۔ اخبارات میں ہماری تصاویر چھپتیں اور ہم پر ادارئیے لکھے جاتے ۔ یہ سب تو صرف مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یقین مانیے ہمیں تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں تھا ۔
پانڈے جی بولے یہ تو واقعی بڑی ناانصافی ہے دو ہزار تبلیغیوں پر اتنا دھیا ن اور ہزاروں رام بھکتوں کا کھلا اپمان ۔ آخر یہ بھید بھاو کب تک چلےگا؟
مجھے تو لگتا ہے2024میں جب مودی جی پھر سے الیکشن جیت جائیں گے تو شاید ہمارے اچھے دن لوٹ آئیں گے ۔ تب تک تو یہ سب سہنا ہی پڑے گا ۔
کلن پانڈے نے چونک کر پوچھا ارے مشرا جی اس مختصر سی گفتگو میں آپ تیسری بار کھانس رہے ہیں کہیںساتھ میں بخار بھی تو نہیں ہے؟
جی ہاں پانڈے جی یہ تو پچھلے ایک ہفتے سے چل رہا ہے ۔ سارے دیسی ٹوٹکے اپنا لیے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اچھا ! میری مانیں تو کورونا کا کی جانچ کروالیں اور یہ زحمت آپ کو خود کرنی پڑے گا ۔ سرکار کے لوگ آپ کو اپنی سواری میں لے کر نہیں جائیں گے۔
جی ہاں پانڈے جی کاش میں نظام الدین گیا ہوتا ۔ سارا کام اپنے آپ مفت میں ہوجاتا اور ٹیلی ویژن پر آنے کی من مراد بھی پوری ہوجاتی ۔
وہ تو ٹھیک ہے خیر جو ہوا سو ہوا۔ اب میری مانو تو کسی اسپتال جاکر فوراً جانچ کرالو۔ سرکاری دواخانے میں طویل قطار ہو تو نجی لیباریٹری سے رجوع کرلو۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن دھندا بیوپار بند ہے ایسے میں پرائیوٹ اسپتال کی ڈھائی ہزار روپئے فیس کہاں سے لاوں گا؟
اس کی چنتا مت کرو میں مہا سبھا کے ریلیف فنڈ سے اس کا انتظام کردوں گا ۔
اچھا لیکن یہ بتائیے کہ کیا کسی رام بھکت پر ایودھیا کی پاون دھرتی پر بھی کورونا کا حملہ ہوسکتا ہے؟
پانڈے جی بولے بھائی یہ فرقہ پرستی کا وائرس نہیں ہے جو تفریق امتیاز کرے۔ کورونا کے لیے تو رام بھکت یا تبلیغی جماعتی سب برابر ہیں ۔
مشرا جی پر پھر سے کھانسی کا دورہ پڑا ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰پانڈے جی نے گھبرا کر فون بند کردیا ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452234 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.