بڑا مزاح نگار

کہتے ہیں سو سال زندہ رہنے کے لئے ضروری نہیں کہ سو سال زندہ بھی رہا جائے،بس ایسے کام کر جائیں کہ لوگ صدیوں آپ کو زندہ رکھیں،ایسے ہی مزاح نگار کے لئے ضروری نہیں کہ بہت ضخیم کتابوں کا مصنف ہو۔میرے خیال میں بڑا مزاح نگار بننے کے لئے بس’’مضامینِ پطرس‘‘کا ہونا ہی ادبی زندگی کی طوالت کی علامت ہے۔یہ بات طے شدہ ہے بلکہ تہہ شدہ ہے کہ پطرس اگر عصرِ حاضر میں ہوتے اور بہت سا لکھتے پھر بھی کشیدِ ادب مضامینِ پطرس ہی ہوتا۔ہم ایسے تمام لکھاریوں کو پطرس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جو صرف مزاح لکھتے ہیں کہ اگر بخاری صاحب مضامین پطرس نہ لکھتے تو آپ کیا لکھتے،ہوتا یوں کہ لوگ معدوم ہوتی ہوئی بائیسکل کو کب کا بھول چکے ہوتے،اردو کی آخری کتاب واقعتا ،آخری کتاب ہی خیال کر لی جاتی،’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلتی ‘‘تو’’ کتے‘‘کوچہ وبازار میں آوارہ گردی کرتے ’’لاہور کا جغرافیہ‘‘معلوم کر رہے ہوتے،میاں صاحب جیل میں ہوتے یا لندن میں ببانگِ دہل کہتے کہ ہاں ’’میں ایک میاں ہوں‘‘اور تو اور ’’میبل اور میں‘‘کے دونوں کردار شادی کروا چکے ہوتے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان کی اولاد مضامینِ پطرس کو ہی ’’اردو کی آخری کتاب‘‘سمجھ کر مصروفِ مطالعہ ہوتے یا پھر’’ہاسٹل میں رہنا‘‘کے عیوب ومحاسن گنوا رہے ہوتے۔

ویسے بڑے مزاح نگار کا اندازہ اگر بلحاظِ جسم کیا جائے تو جیدی اور ضمیر صاحب سب سے بڑے مزاح نگار ہوتے لیکن یہ بات بھی کنفرم ہے کہ مشاعرہ میں ان کی جگہ کا تعین بلحاظِ لحم ہی کیا جاتا۔مزاح نگار اور سنجیدہ رائٹر میں فرق صرف شکل کا ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر یونس بٹ کو دیکھ کر ایسا بالکل بھی نہیں لگتا،ڈاکٹر یونس بٹ واحد مزاح نگار ہیں جو نسخہ لکھ رہے ہوں تو رائٹنگ ہی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ کسی ڈاکٹر نے ہی لکھا ہے۔میڈیکل سٹور والے نسخہ سے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کسی بٹ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائی ہے کیونکہ نسخہ میں دوائی بعد میں،دال چاول پہلے لکھے ہوتے ہیں،ڈاکٹر صاحب واحد بٹ ہیں جس کے پیٹ میں کوئی’’وٹ‘‘نہیں ،کسی کے پیٹ میں اگر ’’وٹ اٹھ‘‘رہے ہوں تو ان کے نام کے ساتھ فوراً بٹ لکھ دیتے ہیں کہ وٹ ہے تو بٹ ہے۔ڈاکٹر صاحب کا کوئی بھی مضمون پڑھ لیں لگتا نہیں کہ ان کی پشت سے بھی کوئی ڈاکٹر رہا ہو لیکن ایک خوبی ہے کہ پشت پہ نہیں،بلکہ لکھ کر وار کرتے ہیں۔کتاب میں ہوں تو معاشرہ اور کلینک میں ہوں تو مریض کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھتے ہیں اور اس وقت تک رکھتے ہیں جب تک مریض کا ہاتھ جیب میں نہ چلا جائے۔

پاکستانی ڈاکٹرز تو اتنے نبض شناس ہیں کہ مریض کی نبض پہ ہاتھ رکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس کی جیب میں پرس ہے کہ نہیں۔کہتے ہیں نبض شناسی میں ہی مردم شناسی ہے،اس فقرہ کی اگر سمجھ نہ آئے تو تشریح کسی حکیم سے کروالیں ہاں انہیں اپنی نبض مت دکھائیں وگرنہ آپ بھی مردانہ امراض کی فہرست میں دھر لئے جائیں گے۔ظاہری شکل وصورت سے کسی کے فن کا اندازہ نہیں لگانا چاہئے اگر ایسا ہوتا تو انور مقصود سنجیدہ جبکہ جاوید چوہدری مزاحیہ لکھنے والے ہوتے،استادِ محترم انور مسعود اتنا مزاحیہ لکھتے نہیں جتنا مزاقیہ ہنستے ہیں۔

پنجاب میں کرنل کے چاول اور کرنل خان کا مزاح اپنے’’روما‘‘سے ہی پہچان لیا جاتا ہے۔کالج لائف میں جب کتابیں پڑھنے کا نیا نیا شوق چرایا تو ایک روز ماں جی نے بازار سے کرنل کے چاول لانے کو کہا تو جواباً کرنل محمد خان کی بجنگ آمد اور بسلامت روی لے آیا،پھر کیا تھا گھر میں وہ جنگ چھڑی کہ کچھ بھی سلامت نہ رہا۔ہمارے ہاں مزاحیہ مشاعرے اتنے نہیں ہوتے جتنے شاعر۔

سنجیدہ وفکاہیہ مشاعرہ میں فرق صرف مکرر اور واہ واہ کا ہوتا ہے،سنجیدہ مشاعرہ میں سامعین اس وقت تک مکرر ،مکرر کی صداؤں سے باز نہیں آتے جب تک کہ شاعر پڑھنے سے باز نہ آجائے،فکاہیہ مشاعرہ میں مکرر اور واہ واہ نہیں ہوتی ،بس محفل قہقہوں سے کشتِ زعفران ہوتی ہے۔ایک دوست کو ڈاکٹر نےlaughing theoropy کے لئے فکاہیہ مشاعروں میں شمولیت تجویز کیا،ماشا اﷲ سے اب وہ خود فکاہیہ شاعر ہیں۔ان سے جب بھی پوچھیں کہ کیا چل رہا ہے؟تو فوراً بتائے گا
علاج
ابھی کہاں ہو؟
مشاعرہ میں
مگر تم تو کہہ رہے تھے کہ علاج
جی ہاں مشاعرہ ہی علاج ہے
تو پھر کھاتے پیتے کہاں سے ہو؟
مشاعرہ سے
گھر والے کہاں ہوتے ہیں
ساتھ ہی
قدرے غصہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟
ڈاکٹر کی تجویز
ڈاکٹر کون ہے؟ وہ بھی شاعر ہیں ،نام کیا ہے ؟
سعید اقبال سعدیؔ

اوہ اچھا انہیں تو میں جانتا ہوں،وہ واقعی قابل ڈاکٹر ہیں اور’’ تحسین ‘‘کے قابل بھی ہیں اور تو اور دکھنے میں بھی کابل کے لگتے ہیں۔ان کی یہ خاص خوبی ہے کہ مریض اور مشاعرہ کو ایک ہی وقت میں دیکھ لیتے ہیں۔مشاعرہ میں کوئی داد سے نہ نوازے تو سٹیج سے ہی پکاراٹھتے ہیں،تم سب کو ایک ایک کر کے دیکھ لوں گا۔جہاں بھی مشاعرہ پڑھیں سامعین میں مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے،اس مشاعرہ میں تو مریضوں کی تعداد لاتعداد ہوتی ہے جس میں نوٹ لکھا ہوا ہو کہ ڈاکٹر صاحب مریضوں کو فری چیک کریں گے۔خدا ترس ہیں مشاعرہ پڑھنے اور مریض دیکھنے کے پیسے کم ہی لیتے ہیں۔پرچی پر دوا بعد میں مشاعرہ کی تاریخ پہلے لکھتے ہیں تاکہ’’ تاریخ رقم ‘‘کی جا سکے۔رقم دے کر تاریخ رقم کرنے کے سخت خلاف ہیں اسی لئے تاریخ خود ہی لکھتے ہیں۔امید ہے ہمارے سبھی مزاح نگاروں کو تاریخ سنہری الفاظ میں یاد کرے گی۔
 

Murad Ali Shahid
About the Author: Murad Ali Shahid Read More Articles by Murad Ali Shahid: 100 Articles with 86016 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.