گھر جل گیا مرا گھر کے چراغ سے
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
(خدا کے منکر نئے انسان کی تباہ کاریوں کے حوالے سے ایک تحریر) |
|
راجہ محمد عتیق افسر اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ،قرطبہ یونیورسٹی پشاور 03005930098، [email protected]
کہتے ہیں کسی بزرگ سے سوال کیا گیا کہ وہ انسان تو کمال کا ہوگا جو ہوا میں اڑ سکے گا۔بزرگ نے کہا اس میں کیا کمال یہ کام تو مکھی بھی کر سکتی ہے ۔سوال کرنے والے نے پھر پوچھا تو سمندر کی لہروں پہ تیرنے والے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ۔ بزرگ نے کہا یہ بھی کوئی کمال نہیں کیونکہ یہ کام تو ایک لکڑی بھی کر سکتی ہے ۔ سوال کرنے والے نے کہا کہ آپ ہی بتا دیجئے کہ پھر با کمال شخص کون ہوگا؟ بزرگ نے کہا وہ شخص کمال کا شخص ہوگا جو اپنی ضروریات کے پورا کرنے میں کسی کا محتاج بھی نہ ہو اور دیگر انسانوں کو اس سے کوئی نقصان بھی نہ پہنچے ۔حکیم الامت نے اسے کچھ اس طرح بیان کر دیا ہے ۔ ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے انسان کی تخلیق پہ فرشتوں کو حیرت ہوئی تھی کہ آخر ہم جیسے عبادت گزار فرشتوں کے ہوتے ہوئے انسان کی تخلیق کی کیا ضرورت ہے جو زمین میں فساد برپا کرے گا۔ لیکن خالق ِ کائنات نے انسان کو تخلیق بھی کیا ،اسے علم جیسی نعمت سے مالا مال کر کے فرشتوں پہ اس کی فوقیت ثابت بھی کر دی اور فرشتوں سے اسے سجدہ بھی کروا دیا۔ انسان دنیا میں اشرف المخلوقات قرار پایا کیونکہ اسے علم عطا کیا گیا اور آخرت میں کامیابی اور فوقیت کا معیار عمل صالح کو قرار دیا گیا۔ یعنی انسان کو علم کے ہتھیار سے مسلح کیا گیا اور اسے ہدایت و رہمائی کے ساتھ دنیا میں بھیجا گیا کہ وہ اپنے علم کو ہدایت کی روشنی میں استعمال کرتے ہوئے انسانیت کی بھلائی اور رضائے الٰہی کے لیے استعمال کرے ۔ جب بھی انسان نے علم کے اس ہتھیار کو ہدایت ِربانی کے بغیر استعمال کیا اس نے فلاح انسانیت کے بجائے انسانیت کی تباہی کا بندوبست کیا اور رب کو راضی کرنے کے بجائے اس کے قہر اور غضب کا حقدار ٹھہرا۔عرفان سے خالی علم ہی تھا جس نے انسان کو کبھی کسی مخلوق کے سامنے جھکایا تو کبھی اسے خدا ہونے کا فریب دے کر دوسرے انسانوں کے لیے وبال جان بنا دیا۔ گویا للہیت سے خالی علم انسان کو مخلوق خدا کا غلام بنا دیتا ہے ۔ یہی آج کے ترقی یافتہ انسان کے ساتھ بھی ہوا ہے ۔ رب کے عطا کردہ علم نے اسے ہواؤں میں اڑنا ، سمندروں پہ تیرنا ، زمین پہ دوڑنا اور خلاؤں کو مسخر کرنا سکھادیا ہے تو اس انسان نے خدا کو اپنی زندگی سے ہی نکال دیا اور یہاں تک غلط فہمی کا شکار ہو گیا کہ خدا کا وجود ہی نہیں ۔ا قبال نے کیا خوب فرمایا ہے : عشق ناپید و خرد می گردش صورت مار عقل کو تابع فرمان نظر کر نہ سکا ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ یہ تو روشنی ہے جو انسان کو راستہ دکھاتی ہے ۔ اگر یہ صاحب فراست شخص کے ہاتھ میں ہو تو اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی صحیح سمت میں رہنمائی کرتا ہے اور اگریہی روشنی عاقبت نااندیش لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو پرچھائیوں کے کھیل میں لوگوں کو الجھا کر راستے سے بھٹکا دیتے ہیں اور منزل سے دور لیجاتے ہیں ۔یہی حال سائنس کا بھی ہے جب تک دینداروں کے ہاتھوں میں چراغ ِ علم رہا تو انسانیت اس سے فائدہ اٹھاتی رہی لیکن جب دینداروں نے اس سے دامن چھڑا لیا تو یہ علم بھی ہتھیار بن کر ملاحدہ کی لونڈی بن گیا۔جب مغرب میں عیسائیت کی گرفت ڈھیلی پڑی اور سائنس نے ترقی کی تو یہی سمجھا گیا کہ دین عقل کا دشمن ہے اور دینی سوچ عقل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔خدا کو مذہبی افراد کی طرف سے گڑھا گیا گورکھ دھندہ قرار دیاگیا اور ہر اس ما فوق الطبیعت ہستی کا انکار کیا گیا جو جدید سائنس کے ذریعے معلوم نہ کی جا سکتی ہو ۔ خدا کے منکر انسان نے یہی سمجھ لیا کہ اگر ترقی کی راہ پہ گامزن ہونا ہے تو مذہب کو اجتماعی زندگی سے نکال باہر کرو ۔ خود کو خدا کے تسلط سے آزاد کر کے سائنسی ذہن کے ساتھ سوچو اور آگے بڑھو ۔ مذہب کو عقلی پیمانے پہ پرکھنے کے بجائے مذہب کی حقانیت کا سرے سے انکار کر دیا گیا اور بلا کسی تفریق کے ہر مذہب کو ہی عقل کے موازین کے خلاف قرار دے دیا گیا۔اسی طرح اسلام کو بھی انہی مذاہب کی فہرست میں کھڑا کر دیا گیا حالانکہ مغرب کی اس ترقی سے قبل مسلمان ہی تھے جنہوں نے سائنس کو بام عروج بخشا تھا ۔ موجودہ سائنس جن بڑے نظریات کو اپنائے بیٹھی ہے وہ چونکہ ملاحدہ کے نظریات ہیں اس لیے آئندہ کی بحث میں ملحد (سیکولر)سائنس کا لفظ بھی استعمال ہوگا اگرچہ سائنس کا کوئی مذہب نہیں ۔ اگر ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو بے پناہ سائنسی ترقی ہمیں نظر آتی ہے ۔ دنیا میں تیزی سے تغیر ات برپا ہو رہے ہیں ۔ ہر جانب دوڑتی گاڑیاں ہوا میں اڑتے جہاز ، خلاؤں میں گردش کرتے راکٹ اور مصنوعی سیارے ، ہر شخص کے ہاتھ میں موبائیل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہر علم تک رسائی ۔یہ سب سائنس کے ایسے کمالات ہیں جس نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے ۔ انسان کو سہولیات میسر آئی ہیں ۔ مسافتیں کم ہو گئی ہیں پیغام رسانی میں سہولت ہو گئی ہے ۔ پیچیدہ امراض کا علاج ممکن ہو سکا ہے ، زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ، تعمیرات میں پختگی آئی ہے ۔ نیز ہر شعبہ ٔ زندگی میں آسائش میسر آئی ہے ۔یہ سب کچھ سائنسی ایجادات اور تحقیق کا نتیجہ ہے ۔ یقینا انسان آج سے دو سو سال پہلے کے انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی یافتہ ہو گیا ہے ۔آج ایک عام شخص جیسی زندگی گزار رہا ہے آج سے دو سو سال قبل وہ بادشاہوں کو بھی نصیب نہ تھی ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ علم اگر عرفان کے بغیر ہو تو یہ انسا کو گمراہ کر دیتا ہے اور اسے رب کا باغی بنا کر مخلوق کا غلام بنا دیتا ہے خواہ یہ مخلوق خود اس کا نفس یا عقل ہی کیوں نہ ہو۔ جہاں ایک طرف سائنس نے انسان کو ترقی کے زینے پہ چڑھایا ہے وہیں دین دشمنوں کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے اس علم نے انسان کو نقصان بھی پہنچایا ہے جو ناقابل تلافی ہے ۔سائنس کے ہاتھوں انسانیت کو لگنے والے گھاؤ کا ذکر کرنے سے پہلے ضروری ہوگا کہ چند سائنسی نظریات کا ذکر کیا جائے جن کا مغربی زندگی اور سیکولر زندگی پہ گہرا اثر ہے اور یہی سائنس کی اساس بھی سمجھے جاتے ہیں ۔ان نظریات میں سب سے اہم ڈارون کا نظریہ ارتقاء (Evolution Theory )ہے ۔اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ مغربی طرز زندگی کی اساس ہی یہی نظریہ ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔اس نظریے کا لب لباب یہ ہے کہ انسان کسی خالق کی تخلیق نہیں بلکہ ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے ۔اس نظریے کے مطابق گرد و پیش کا ماحول مخلوق کا دشمن ہے اور ہر مخلوق حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرتی ہے اور وہی مخلوق باقی رہے گی جو ارد گرد کے وسائل پہ اپنا تسلط قائم کرے گی ۔انسان چونکہ سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے لہذا وسائل پہ گرفت اسی کی ہے یہ اپنے علم کی بنیاد پہ دوسری تمام مخلوقات کی نسبت زیادہ عرصے تک باقی رہے گا ۔ اس نظریے کے مغربی معاشرے پہ گہرے نقوش ہیں ۔ مغربی سیکولر ذہن نے انانیت کو اپنایا اور ہر شخص اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرنے لگا ۔خاندان ، انسانیت اور اخلاقیات سب اس کو اپنا دشمن محسوس ہونے لگا۔ اس کے بعد ایک اور نظریے نے مغربی سیکولر اذہان پہ اثرات مرتب کیے وہ ہے سگمڈفرائڈ کا نظریہ تحلیل نفسی(Psychoanalysis) ۔ اس نظریے نے اہل مغرب کو یہ باور کرایا کہ اخلاق اور مذہبی سوچ انسان کے شعور کا حصہ ہیں ۔ انسان یہ سب معاشرے سے سیکھتا ہے ۔انسان جھوٹ سے نفرت اس لیے کرتا ہے کہ معاشرہ جھوٹ کو غلط قرار دیتا ہے ۔ انسانی عقل خود سے اچھائی اور برائی کا فرق نہیں کر سکتی ۔گویا یہ اچھائی اور برائی کے معیارات انسان کے بنائے ہوئے ہیں اگر اقدار کو بدل دیا جائے تو انسانی عقل انہی اقدار کو اپنائے گی ۔ سگمڈ فرائڈ کا ہی ایک اور نظریہ مغربی زندگی پہ اثرات کا حامل ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد شہوت کی تسکین ہے ۔ ان نظریات کی گھٹی میں پل کر جو علم ترقی کرے گا وہ انسانیت کو کیا فائدہ پہنچائے گا وہ انسانیت کو فنا کے دروازے تک لے جائے گا ۔ یہی اس سیکولر سائنس نے انسان کے ساتھ کیا۔دیگر مخلوقات ے ساتھ مقابلے کی سوچ نے آگے بڑھ کر دیگر انسانوں سے مقابلے کی سوچ اختیار کر لی ہے اور انسانی شہوت ہے کہ پوری ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ سائنسی ترقی کا سب سے زیادہ استعمال کس شعبے میں ہوا ؟ اگر غور فرمائیں تو اسلحہ سازی میں ٹیکنالوجی نے زیادہ ترقی کی ۔ کیمیاوی ہتھیار تیار کیے گئے اور ان کے استعمال سے قوموں کی قومیں تباہ کر دی گئیں ۔ امریکہ کے ریڈ انڈین کہاں گئے ۔بڑی بے دردی سے مار دئے گئے ۔پھر بڑیطاقتوں نے اسلحے کا مقابلہ شروع کیا اور گزشتہ صدی میں دو بڑی جنگوں میں کروڑوں لوگ لقمہ ٔ اجل بن گئے ۔گزشتہ صدی ہی میں انسان کو سائنس کے ذریعے معلوم ہوا کہ ذرے کے دل کو چیرا جائے تو توانائی حاصل ہوتی ہے ۔ اس کا تجربہ جاپان کے دو شہروں پہ کیا گیااور انہیں ملیا میٹ کر کے رکھدیا گیا۔ اسکے بعد سرد جنگ میں امریکہ اور روس نے جوہری ہتھیاروں میں مسابقت شروع کی اور کچھ دیگر ممالک بھی اس دوڑ میں آئے ۔ان ایٹمی تجربات کے نتیجے میں کتنے لوگ لقمہ ٔ اجل بنے وہ ایک الگ داستان ہے ۔ اس ایٹمی توانائی سے بجلی حاصل ہو رہی ہے ۔ ایٹمی توانائی سے روشن بلب کی جگہ کئی چراغ روشن کیے جا سکتے تھے لیکن جو زندگیاں تباہ کر دی گئیں ان کا ازالہ ناممکن ہے ۔اسی طرح حیاتیاتی ہتھیار بنا کر کروڑوں انسانوں کی جان لی گئی ہے ۔ایڈز بھی ایک حیاتیاتی ہتھیار تھا جو افریقی سیاہ فام باشندوں کی نسل کشی کے لیے امریکی لیبارٹی میں بنایا گیا لیکن اب امریکہ خود اس کی زد میں ہے ۔2018 میں 3کروڑ 37 لاکھ افراد اس مرض میں مبتلاء تھے جبکہ اسی سال اس مرض سے مرنے والوں کی تعداد 77 لاکھ تھی ۔ دورحاضر میں پوری دنیا کو وبائی دہشت میں مبتلا کرنے والے کرونا وائرس کو بھی حیاتیاتی ہتھیار قرار دیا جا رہا ہے ۔ اب سال گزرنے پہ معلوم ہو سکے گا کہ اس ہتھیار نے کتنی جانیں لی ہیں ۔ اس جانی نقصان کی مثال اس سے پہلے کہیں نہیں ملتی۔گزشتہ تیس برس میں مغربی دنیا نے مشرق وسطی اور عراق میں چالیس لاکھ افراد کو لقمہ ٔ اجل بنا دیا ہے ۔ اس وقت دنیا کے پانچ کروڑ لوگ اپنے علاقوں سے ہجرت کر کے مہاجرت ی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ کبھی بے گھر نہیں ہوئے ۔یہ سائنسی ایجادات و تحقیقات کا صلہ ہے جو انسانیت کو ملا ہے ۔ سائنسی ترقی کی وجہ سے صنعتی ترقی کا پہیہ چل رہا ہے ۔جسکی وجہ سے پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن اقدار کو پس پشت ڈال کر شہوت کی تسکین کو مقصد بنائے جانے کیوجہ سے معاشرے میں برائی اور بے حیائی کا چلن تو عام ہو ہی رہا ہے لیکن یہ اموات کا بھی سبب بنا ہے ۔ تمباکو نوشی کی لت میں چند لوگ مبتلاء تھے لیکن سائنسی ترقی نےصنعتوں کے ذریعے اس کی پیداوار اتنی بڑھائی کہ یہ ہر بچے کی پہنچ اور دسترس میں آگیا۔اسکے نتیجے میں دنیا میں ہر سال 80 لاکھ افراد موت کا شکار ہوتے ہیں ان میں سے دس لاکھ وہ لوگ ہیں جو سگریٹ نہیں پیتے لیکن دوسرے شخص کے سگریٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلاء 80فیصد افراد کا تعلق دنیا کے غریب اور کم آمدن ولے ممالک سے ہے ۔سائنسی ترقی نے شراب کو عام کر دیا ہے اور اسے مغرب کی اقدر بنا دیا ہے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 38 فیصد آبادی شراب نوشی میں مبتلاء ہے ۔ہر سال 33 لاکھ افراد شراب نوشی کی وجہ سے جاں بحق ہوتے ہیں ۔تقریبا 3 کروڑ 10 لاکھ افراد شراب نوشی کی وجہ سے پیچیدہ امراض میں مبتلاء ہوتے ہیں ۔نشہ کرنے والوں میں ایک کروڑ سے زائد انسان ہیروئن نامی نشے میں مبتلاء ہیں جبکہ نصف کروڑ سے زائد اسی سے ملتے جلتے نشوں کا شکار ہیں ۔جو افراد سرنج کی مدد سے نشہ لیتے ہیں ان میں سے 13 لاکھ افراد ایڈز کا شکار ہوتے ہیں 55 لاکھ ہیپاٹائیٹس سی کا اور 10لاکھ افراد ان دونوں بیماریوں کا شکار ہیں ۔محض تسکین نفس کے لیے کروڑوں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے ۔اور یہ نشہ آور اشیا ء بنانے اور بیچنے والے دنیا میں ارب پتی اور کروڑ پتی ہیں ۔دنیا میں 5 کروڑ 60 لاکھ بچے اسقاط حمل کے ذریعے ضائع کر دیے جاتے ہیں یعنی پیدائش سے قبل ہی قتل کر دئے جاتے ہیں اور اس کا سہرا ہماری میڈیکل سائنس کی روز افزوں ترقی کے سر ہے ۔دوسری جانب مغربی دنیا کے 40 فیصد بچے ایسے ہیں جن کے ماں باپ کا کوئی اتہ پتہ نہیں یعنی وہ ولدیت اور وراثت کے حق سے ہی محروم ہیں ۔ دیارِ مغرب ہوس میں غلطاں شراب ارزاں شباب عریاں جسے بھی دیکھو غریق ِعصیاں ہم ایسی تہذیب کیا کریں گے
گزشتہ بحث میں وہ مضمرات بیان کئے ہیں جن کا مقصد ہی تباہی تھا ۔ لیکن جو ایجاداور دریافت مثبت اغراض کے لیے کی گئیں ان کا حاصل بھی بہت بھیانک ہے ۔ دنیا میں مرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد دل کے امراض کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں کی ہے ۔10 لاکھ افراد دل کی بیماریوں جبکہ پانچ لاکھ سے زائد فالج ودیگر دماغی عوارض کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ذیابیطس جسے عرف عام میں شوگر کہا جاتا ہے ایک مہلک مرض ہے دنیا میں تقریبا ایک کروڑ پچاس لاکھ افراد براہ راست ذیابیطس کی نذر ہو کر دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں جبکہ اس وقت تقریبا دنیا کے پانچ کروڑ افراد اس سے متاثر ہیں ۔ یہ مہلک مرض نابینا پن ، گردوں کی خرابی ، جگر کی خرابی ، دل کے دورے ، فالج اور فشار خون کے امراض کا بھی باعث ہے ۔ اب اگر سنجیدگی سے ان امراض کا سبب تلاش کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سائنسی ترقیکی وجہ سے تبدیل ہوتا طرز زندگی ہی اس کی اصل وجہ ہے ۔صنعتوں کے ذریعے تیار کردہ مصنوعی روغنیات، چینی ، آٹا اور پکا پکایا کھانا یہ سب ان موذی امراض کی وجوہات ہیں اور ساتھ ہی پر آسائش زندگی جس میں جسم پہ کوئی مشقت نہیں ہوتی ان امراض کو مزید بڑھاوا دیتی ہے ۔ ایک جانب مصنوعی غذا تیار کرنے والے صنعتکار پیسہ بنا رہے ہیں تو دوسری جانب دوا ساز کمپنیاں طبی عملے کو استعمال کر کے پیسہ بنا رہے ہیں اور اربوں انسان ان چند ہزار افراد کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے انسان کتنا آگے نکل گیا ہے ۔ گاڑیاں جہاز اور ریل اسکی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں لیکن ٹریفک کے حادثات ہر سال بیس لاکھ افراد کی جان لے لیتے ہیں ۔اسی طرح ایک بڑی تعداد ملوں ، کارخانوں اور دیگر سائنسی آلات کی نظر ہو جاتے ہیں ۔موجودہ دور میں موبائل فون ، کمپیوٹر، ایکس رے اور دیگر آلات نے جہاں رابطے کو آسان بنا یا ہے ، علاج معالجے میں سہولت پیدا کی ہے وہاں ان کے استعمال نے کچھ امراض بھی پہدا کیے ہیں جو انسانی زندگی کے لیے وبال جان ہیں ۔ انسانی زندگی میں معیشت کا بھی بڑا اہم کردار ہے ۔سائنسی ترقی نے جہاں انسان کو بہت کچھ کرنے کے قابل بنایا ہے وہیں اس کو مجبور بھی بنا دیا ہے ۔تیز سے تیز تر کام کر تی مشینوں نے کام میں سہولتاور پیداوار میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے لیکن یہ سب ترقی چند سرمایہ داروں کو تو امیر سے امیر تر اور امیر ترین بنا گئی لیکن خط غربت سے نیچے رہنے والوں کو غریب تر کر دیا۔ مشینوں نے ہنر مند افراد کو بے بس کر کے رکھ دیا اور انہیں چند سرمایہ داروں کی چاکری پہ مجبور کر دیا۔ اپنے ارد گرد ہی نظر دوڑائیں ۔کپڑے ، جوتے ، لکڑی ، چمڑے اور چینی کے کتنے کارخانے ہیں ۔ دنیا بھر میں ان صنعتوں کو گنا جا سکتا ہے ۔ ان کے مالکان پیسوں میں کھیل رہے ہیں ۔ پوری دنیا کے پچاس امیر ترین افراد کی دولت ایک جانب اور باقی پوری دنیا کی دولت ایک طرف ۔ یہی حال ہر ایک ملک کا ہے ۔ کارخانہ دار ، سرمایہ دار روزانہ کی بنیاد پہ اپنی ملیں بڑھا رہے ہیں جبکہ گھریلو صنعتیں اور مقامی ہنرمند افراد کے کام روزان کی بنیاد پہ بند ہو رہے ہیں ۔ دولت کے ارتکاز اور عدم توازن نے معاشرتی ناہمواری میں اضافہ کیا ہے ۔ بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ جرائم کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔لوگ ڈپریشن اور ٹینشن جیسے امراض میں مبتلاء ہو رہے ہیں اور خود کشیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔دنیا کی آبادی کا تقریبا 40فی صد حصہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے ۔ذہنی دباؤ انسان کو کام کرنے کے قابل نہین چھوڑتا اور بالآخر خودکشی کا سبب بنتا ہے ۔دنیا میں ہر سال 8 لاکھ افراد جینے کو بے مقصد قرار دے کر خودکشی کر جاتے ہیں ۔ سائنس کی کوئی بھی ایجاد ہو ، دریافت ہو یا تحقیق ہو اس پہ سرمایہ دار قابض ہو جاتے ہیں اور باقی دنیا کو اس کے ثمرات سے فیضیاب ہونے کے لیے ان سرمایہ داروں کی غلامی کرنا پڑتی ہے ۔آج کوئی دوا دریافت ہوتی ہے تو فارماسوٹیکل کمپنیاں اسے بنانے اور بیچنے کے لیے دوڑتی ہیں اور خدمت ِخلق کے بجائے کارخانہ دار کے نفعے کے لیے اس دوا کو بنایا جاتا ہے اور اس دوا سے فائدہ وہی اٹھا سکتا ہے جس کی جیب میں پیسے ہوں ۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے کتنے کام سہل کر دیے لیکن کمپیوٹر کے آتے ہی سو افراد کا کام ایک ہی کمپیوٹر آپریٹر کر لیتا ہے لہذا سرمایہ دار ایک شخص کو ذرا زیادہ اجرت دے کر ہاتھوں ہاتھ رکھ لیتا ہے اور دیگر ملازمیں فارغ ہو جاتے ہیں یوں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ہر سائنسی ایجاد و دریافت کا فائدہ چندسرمایہ داروں کو ہی ہوتا ہے ۔ موجودہ سائنسی ترقی نے چند سرمایہ داروں کو فرعون بنا دیا ہے اور یہ چند فرعون پوری دنیا کو اپنے سرمائے کی بدولت غلام بنانے کی سوچ میں ایک دوسرے سے مقابلے میں ہیں ۔حرص و ہوس میں مبتلاء ان چند انسانوں کو قارو ن بنا دیا ہے جو پوری دنیا کی دولت پہ سانپ بنے بیٹھے ہیں جبکہ انسانیت کا بڑا حصہ غربت کے ہاتھوں سسک رہا ہے ۔سائنسی ترقی نے ان چند لوگوں کو شداد بنا دیا ہے جو اپنی زندگی کو جنت بنانے کے لیے دنیا کی ہر آسائش جمع کیے بیٹھے ہیں جس کی قیمت دنیا کے وہ کروڑوںانسان چکا رہے ہیں جو بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہیں ۔ غریبِ شہر تو فاقوں سے مر گیا عارف امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی اب تک کی تمام گفتگو میں ہم سائنس کو غیر سائنسی معیار پہ پرکھ رہے تھے شاید اسی لیے ہم سائنس کے مثبت پہلوؤں کو پس پشت ڈال کر اسے انسان دشمن قرار دے رہے ہیں لیکن اب اہم اسے سائنس کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں ۔ماحولیات کے ماہرین آج کل جس نظریے پہ سب سے زیادہ کام کر رہے ہیں وہ ہے نظریہ عالمی حدت (Global Warming Theory) ۔ اس نظریے کے مطابق انسان کا ہر قول اور فعل اسکے ماحول پہ اثر انداز ہوتا ہے ۔ ہر آواز اور ہر ایک حرکت ماحول کے درجہ حرارت کو بڑھا دیتی ہے ۔ انسانی ترقی کی علامت مشینیں ایندھن استعمال کرتی ہیں اور پیداوار کے ساتھ ساتھ شور، گرمی اور فالتو مواد ماحول کو ودیعت کر دیتے ہیں ۔ یہ سب چیزیں ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتے ہیں ۔ ماحول سے آکسیجن کم ہوتی جا رہی ہے اور کاربن ڈائی آکسائڈ بڑھ رہی ہے ۔ اس کی وجہ سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔زمین سورج سے آنے والی خطرناک شعاؤ ں کی زد میں ہے ۔فضائی ، آبی اور زمینی آلودگی بڑھ رہی ہے ۔ زیر زمین پانی آلودہ بھی ہو رہا ہے اور قابل استعمال پانی کے ذخائر گھٹ رہے ہیں ۔ صنعتی ترقی کی وجہ سے زیر کاشت رقبہ کم ہو رہا ہے ۔ خام مال کے حصول کی حریصانہ دوڑ کی وجہ سے جنگلات اور جنگلی حیات تیزی سے معدوم ہو رہی ہیں ۔رمیں کے اوسط درجہ حرارت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اگر عالمی حدت میں اسی طرح اضافہ جاری رہا تو سطح زمین پہ موجود گلیشیر پگھل جائیں گے اور زمین کا بیشتر حصہ سمندر میں ڈوب جائے گا ۔ زمین پ پانی اور صاف ہوا کی کمی کی وجہ سے زندگی ناممکن ہو جائے گی اور بالآخر زمین دیگر سیاروں کی مانند زندگی سے خالی ہو جائے گی۔ماحولیات کے ماہرین سائنس دانوں کی تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اللہ سے باغی ہو کر ترقی کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ انسان نے اپنے ہی علم کی مدد سے نہ صرف نوع انسانی کو بلکہ زندگی کو ہی فنا کے دھانے پہ لا کر کھڑا کر دیا ہے ۔ایک جانب تو صنعتوں کا چلتا پہیہ، سڑکوں پہ دوڑتی گاڑیاں ، ہوا میں اڑتے اور سمندروں میں تیرتے جہاز اوربجلی سے چلنے والے آلات انسانی ترقی کا مظہر ہیں تو دوسری جانب چمنیوں اور سلنسروں سے نکلتا دھواں ، نالیوں میں بہتا کثیف مادہ ، فضا ء میں بلند ہوتا شور ، آلات سے نکلتی خطرناک شعائیں اسباب ِ حیات(صاف ہوا، صاف پانی اور پر سکون ماحول ) کو ہی معدوم کرتی جا رہی ہیں ۔خدا سے باغی سائنسدانوں نے اس خطرے کو جان لینے کے بعد سر جوڑ کر اسکا حل تلاش کرنا شروع کیا تو اس نتیجے پہ پہنچے کہ ہمیں انسانی آبادی کو بڑھنے سے روکنا ہوگا اور اس حل کےلیےدنیا کے بڑے وسائل صرف ہو رہے ہیں ۔ چند ترقی یافتہ ممالک نے خاندانی منصوبہ بندی کو اپنایا لیکن نصف صدی گزرنے کے بعد اب صورتحال یہ ہے کہ ان کی اپنی آبادی معدوم ہوتی جارہی ہے اور ان کی افرادی قوت کی ضرورت پورا کرنے کے لیے پسماندہ ممالککے نوجوان ان ممالک میں آباد ہو گئے ہیں اور وہ اب تعداد میں اصل باشندون زے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں ۔اب ان ممالک میں اپنی نسل و بچانے کی فکر لاحق ہے اور انہون نے یہ تمام وسائل پسماندہ ممالک کی آبادی کم کرنے پہ لگانا شروع کر دیے ہیں ۔ آج کل روزانہ موت کی خبر سناتی کرونا وائرس کی وباء اگرچہ اللہ سے بغاوت کر کے حاصل کیے گئے علم کا ہی شاخسانہ ہے لیکن اس کے بے پناہ پھیلاؤ نے انسانیت کے دروازے پہ دستک دی ہے اور انسان کو سوچنے پہ مجبور کیا ہے کہ مصنوعی زندگی ایک دھوکہ تھی ۔ جب تمام عالم موت کے خوف میں گوشہ نشین تھا اس وقت بھی کلیاں چٹک کر پھول بن رہی تھیں ، پرندے اپنے گھونسلوں میں افزائش نسل کر رہے تھے ۔خواہشات کے پیچھے دوڑنے والے انسان اس وقت ضروریات زندگی تک محدود ہو کر بھی زندہ رہے ۔مشیئت کا مذاق اڑانے والے نئے دور کے انسان نے موت کے خوف سے اپنے دروازے بند کر دئیےلیکن اپنے باغی انسانوں کی توبہ سننے کے لیے رب کائنات کے دروازے بند نہیں ہوئے ۔ وہ رب جو انسان کو ترقی کرنے سے ہرگز نہیں روکتا ۔وہ بس اس انسان سے یہ چاہتا ہے کہ خدائی میں میرا شریک نہ بناؤ اور صرف میری ہی بندگی کرو۔اس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، اسے علم دیا ہے تاکہ وہ اچھے اور برے کی تمیز کر سکے اوراس ماحول کو انسان لیے معاون اور خدمتگار بنایا ہے ۔ اب انسان کا کام ہے کہ اپنے علم اور عقل کا استعمال کرتے ہوئے دیگر انسانوں کی فلاح کرے اور اپنے ماحول کو مزید بہتر بنائے ۔مادی ترقی کو ھدف بنا کر خواہشات نفس کی بندگی کرنے والے انسان کو اللہ نے موقع دیا ہے کہ اپنے علم اور صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے مادی ترقی بھی کی جائے اور روحانی ترقی بھی کی جائے ۔انسان جو بھی قدم اٹھائے وہ خالق کائنات کی خوشنودی اور مخلوق خدا کی فلاح کے پیش نظر اٹھایا جائے ۔اگر انسان نے اپنے علم کی بنیاد پہ اپنے رب کو راضی کر لیا تو اس زمین پہ اس کا جیون بھی پرسکون ہوگا اور دوسرے جہاں میں بھی ایک با سعادت اور ہیشگی کی زندگی اس کی منتظر ہو گی ۔مایوسی کےاس دور میں بھی دین ایک امید دے رہا ہے ، بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھا رہا ہے تباہی کے دہانے پہ کھڑے انسان کا فائدہ اسی میں ہے کہ مخلوق کی بندگیوں کو ترک کر کے ایک اللہ کی بندگی اختیار کر لے ۔ اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
|