وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کی طرف سے غریب
عوام اور مستحق خاندانوں کی مالی معاونت کے لیے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام
شروع کیا گیاہے۔ پہلے مرحلے میں ملک کے تمام صوبوں میں فی کس خاندان بارہ
ہزار(12000 )روپے کیش دیے جارہے ہیں ۔ احساس پروگرام کی چیئر پرسن و معاون
خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اس کے دوسرے مرحلے میں مستحق مردوں میں نقد رقوم
کی شفاف تقسیم کا اعلان کر دیا ہے۔ احساس ایمر جنسی کیش پروگرام موجودہ
حالات میں، جبکہ پوری دنیا میں کوروناوائرس کی وجہ سے ہر طبقہ پریشان ، بڑی
طاقت ور معیشتیں اور مقروض ممالک سب شدیدمتاثر ہوئے ہیں ،، امیر و غریب
ممالک اپنے عوام کے لیے معاشی ریلیف کا اعلان کررہی ہیں، پاکستان کی دس
کروڑ غریب آبادی کے لیے حکومت کی طرف سے احساس کیش پروگرام ایک سہارا ہے،
جس سے غریب عوام کے لیے مکمل نہ سہی مگر کچھ ناکچھمدد کی صورت بن جائے گی۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے مطابق احساس کیش پروگرام کے سات روز سے جاری عمل کے
دوران 36 لاکھ 82 ہزار خاندانوں میں 44 ارب 19 کروڑ 40 لاکھ روپے تقسیم کیے
جا چکے ہیں اور امدادی رقوم کی تقسیم کا عمل رواں ماہ کے آخر تک جاری رہے
گا۔ جبکہ پروگرام میں رجسٹریشن کے لیے ایس ایم ایس سروس 19 اپریل تک جاری
رہے گی۔ معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ احساس ایمرجنسی کیش سینٹرز میں مالی
امداد وصول کرنے والوں کے لیے کورونا سے بچاؤ کے خصوصی حفاظتی اقدامات کیے
گئے ہیں جن میں سینٹرز کو ڈس انفیکٹ کرنا، سماجی فاصلہ قائم رکھنا اور
ہاتھوں کو سینی ٹائز کرنا شامل ہیں۔
حکومت مخالف کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت احساس کیش پروگرام میں جو رقم
دے رہی ہے، وہ عوام ہی کے ٹیکسوں سے جمع کی گئی ہے پھر اس پروفاقی حکومت کا
اپنا سیاسی گھر تعمیر کرنا درست نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجود ہ حکومت نے
اقتدار میں آنے کے بعد یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ ملک کو ریاست مدینہ کے
خطوط پر استوار کرے گی،مذہبی معاملات میں شش وپنج سے کام نہیں لے گی اور
اسلامی تعلیمات اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے کبھی سمجھوتہ نہیں
کرے گی ، مگر اب حکومت اس پروگرام سے اپنا سیاسی قد کاٹھ اونچا کرنے میں
مصروف ہے۔ خان صاحب اپنے ڈیڑھ سالہ دور حکومت کے تما م یوٹرنز اس ایک
پروگرام کے پردے کے پیچھے نہیں چھپا سکتے، ریاست مدینہ بنانے والے خود
ریاکاری کا ارتکاب کررہے ہیں اور احساس پروگرام میں انسانی اخلاق و قومی
اقدار کے برخلاف عوام سے ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔لیکن اس وبائی صورت حال
میں ہمیں سوچنا چاہیے کہ ریاست کی طرف سے اگرغریب عوام کے لیے کوئی امدادی
مشن جاری ہوتا ہے جس کا سیدھا فائدہ عوام تک پہنچتا ہوتو ہمیں اس میں اپنی
آرا کا حق تو بنتا ہے، لیکن محض اپنی انا کی تسکین کے لیے سیاسی پوئنٹ
سکورنگ نہیں کرنی چاہیے،اس لیے کہ کورونا وائرس کے ملک میں آنے کے بعد سب
سے زیادہ اور فوری طور پر غریب طبقہ کی معاشی حالت خراب ہوئی ہے ، شہر بند
ہونے سے ان کا روزمرہ کاذریعہ آمدن ختم ہوگیا، چھوٹے دکان داروں کی دکانوں
کو تالے لگ گئے ،مارکیٹیں میں ہو کال عالم ہے،صنعتوں کا پہیہ جام ہوگیا،
ذراعت کو شدید نقصان پہنچا جس سے غریب کسان کی حالت مزید ابتر ہوگئی،
مذارعت پر فصلیں کاٹنے والے کسانوں کا سہارا ذمیدار تھے،جب کاروبار معیشت
بیٹھ گیا تو ذمیداروں نے بھی کسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کے بجائے ہاتھ
بغلوں میں دبا لیے ۔ یہ صورت حال تمام صوبوں میں عموماََ اور صوبہ پنجاب
میں زیادہ نظر آتی ہے ،کیوں کہ پنجاب ملک کی ذراعت کا حب سمجھا جاتا ہے۔
جہاں ایک کثیر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے، شہروں سے دور دراز علاقوں میں ان
کا کوئی پرسان حال نہیں۔صوبہ پنجاب کی غریب عوام اس معاشی دیوالیے کا ٹارگٹ
ہے۔ ہمارے ایک قریبی عزیزمرید حسین جو پنجاب کے ایک پسماندہ گاؤں میں رہائش
پذیر ہیں نے بتایا کہ اس کے خاندان کو احساس کیش پروگرا م کے بارہ ہزار
روپے ملے ہیں، جس سے اس کے خاندان کے دس افراد میں زندگی کی روح لوٹ آئی ہے
،ان کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، اس کا کہنا تھا کہ اب تک ہمارے پڑوس
کے آٹھ سے بارہ دیہاتوں ، پسماندہ گاؤوں اور غریب خاندانوں کو اس پروگرام
کا فائدہ ہوا ہے،جس سے زندگی کی مانند پڑتی امیدوں کو نئی کرن نظر آئی ہے ۔
یاد رکھیں!مرید حسین کسی سیاسی جماعت کا ورکر نہیں اور نہ ہی وہ کورونا
وائرس کے خوف میں مبتلا ہے، اسے توبس بھوک سے اپنے بچوں کی موت نظر آتی ہے۔
احساس کیش پروگرام کو لے کر حکومت پر تنقید بلا جواز ہے۔ اب تک دیکھنے میں
آیا ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے حکومت کے احساس کیش پروگرام بارے نقطہ
اعتراض اس کی شفافیت اور عوام تک اس کے ثمرات پہنچنے تک محدود ہے ۔ احساس
کیش پروگرام کو غریب طبقہ کی نظر سے دیکھیں توحکومت کامستحقین کی مدد کرنا
خوش آئند لگتا ہے۔ کیش پروگرام کولے کر فی الوقت یہ سمجھنا درست نہیں کہ
اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اورحکومت غریب عوام کے
کاندھوں پر بندوق رکھ کر اپنے سیاسی مخالفین کونشانہ بنا رہی ہے، اس وقت
پوری قوم ایک امتحان سے گزررہی ہے ، اگر ہماری ستر سالہ تاریخ کا غیر سیاسی
،غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو سابقہ حکومتوں نے آج تک کوئی ایساکیش
پروگرام پیش نہیں کیا جس سے غریب عوام کو معاشی سہارا دیا جا سکے ،بے نظیر
انکم سپورٹ میں میں جو کچھ ہوا وہ عوام کے سامنے ہے۔ قومی معیشت کوکورونا
وائرس کی وبا سے بھی بڑے بڑے دھچکے 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب کی
صورت میں لگ چکے ہیں،اس کے باجود عوام کے حقوق کو پامال کیا گیا، لیکن
موجودہ حکومت کو کئی محاذوں پریکمشت لڑنا پڑ رہا ہے ۔ اس کے باجود کہ حکومت
جانتی ہے،ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، معیشت کا برا حال ہے، صنعتوں کا پہیہ
بند ہو چکا ہے، افراط زر کالا سیاہ بادل بنا پوری قوم کے سروں پر کھڑا
ہواہے اور اس کے بعد بھی حکومت اتنی بڑی رقم بغیر کسی لگی لپٹی کے غریب
عوام تک پہنچا رہی ہے، تو ہمیں بھی کھلے دل سے اس احساس پروگرام کو حکومت
کا بہت اچھا اقدام کہنا چاہیے۔
|