شاعری بھی آتشؔ کام ہے مرصع ساز کا
(Afzal Razvi, Adelaide-Australia)
شاعری بھی آتشؔ کام ہے مرصع ساز کا افضل رضوی۔ایڈیلیڈ، آسٹریلیا شاعری کا فن ہر اعتبار سے خواہ وہ ترکیبی ہو یا تکنیکی ہر شاعر کے لیے ایک جیسا ہو تا ہے۔ہر شاعر کے ہاں اگرچہ ردیف اور قافیے کی طبع آزمائی قریب قریب ایک سی ملتی ہے؛تاہم باعتبار فکر ہر ایک میں زمین و آسمان کا تفاوت نظر آتا ہے۔ایک دور میں مختلف اقسام کی فکر کا پایا جانا اور اس کا خوبصورت شعری اظہار جہاں لطافتوں کا باعث بنتا ہے وہاں سکون قلب اور بعض حالتوں نیں اضطرابیت کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ اگر مجموعی طور پر کسی بھی دور کی شاعری پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیشہ شاعروں کی مختلف النوع اقسام ملتی ہیں؛ تاہم ان میں دو طرح کے شاعر موضوعِ بحث رہتے ہیں۔ ایک وہ جو ردیف قافیے کا التزام تو کرتے ہیں لیکن فکری حوالے سے شعر میں جان ڈالنے سے محروم رہتے ہیں جب کہ دوسری قسم کے شعراء اس التزام و انصرام کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری کو فکری و فنی دونوں حوالوں سء جانچ کر منصہ شہود پر لاتے ہیں؛گویا وہ جانتے ہیں کہ شاعری کے مواد کو پیش کرنے کا طریقہ کیا ہے اور قاری یا سامع سے داد وتحسین کس طرح لی جاسکتی ہے۔ آج کے دور میں اردو شاعری میں بے شمار شاعر اپنی معرکہ آرائیاں دکھاتے نظر آتے ہیں۔ شاعری جو ایک عرصے تک ناپسندیدگی کی نگا ہ سے دیکھی جانے لگی تھی،مارشل لاء کے تین ادوار سے گزرنے کے بعد اور نکھر کر سامنے آئی ہے اور ناپسندیدگی کا عنصر بھی ختم ہو تا جارہا ہے۔آج کا دور جدید دور ہے اور اس میں نظم ونثرمیں ندرتِ خیال کے ساتھ ساتھ جدیدیت بھی آگئی ہے۔جدیدیت دورِ جدید کی اصطلاح ہے اور نقادوں کا خیال ہے کہ شعراء کا وہ طبقہ جو 1960ء کے لگ بھگ شعری میدان میں آیا، وہ اس سے منسلک ہے اگرچہ شاعری میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی واضح طور پر وقوع پذیر نہیں ہوئی۔بایں ہمہ جدیدیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کو نظر انداز کرنا جدید معاشرے(جس میں ہم بس رہے ہیں)کو پسِ پشت ڈالنے کے مترادف ہے، جو ناممکن ہے۔پھر یہ کوئی غیر واضح اصطلاح بھی نہیں؛تاہم یہ اپنا لب ولہجہ موضوعات طرز احساس اور اسلوب رکھتی ہے۔ اس انداز ِ شاعری سے تعلق رکھنے والے شعراء کو ہم تین طبقوں تقسیم کر سکتے ہیں۔ (1 پاکستان میں مقیم شعراء (2 بھارت میں مقیم شعراء (3 خلیجی ممالک میں بھارتی اور پاکستانی شعراء مندرجہ بالا میں تیسری قسم کے شعراء میں ایک ممتاز نام ممتاز راشد کا ہے، جو دوحہ قطر میں گزشتہ 24سال سے علم وفن کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ ممتاز راشد 1953ء میں مزنگ لاہور میں پید اہوئے۔ 1969ء میں میٹرک کیا اور پھر گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی سے سول ڈرافٹس مین کا کورس کیا اور نومبر 1977سے تاحال یہیں مقیم ہیں۔ممتاز راشد قطر کی علمی وادبی تنظیم ادارہ خیال وفن کے صدر ہیں۔ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ”کاوش“1986ء، حمد و نعت اور ملی قطعات کا مجموعہ”عقیدت خام“ 1988ء، ”تیری خوشبو سے دل مہکتا ہے“ 1994ء اور ”سخن ریزے“ 1995ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ تخلیقِ ادب میں خیال و الفاظ لازم وملزوم ہیں۔ اکثر خیالات کو اظہار کے لیے مناسب الفاظ نہ مل سکیں تو وہ بے جان ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ الفاظ، اظہارِ خیال میں بنایدی کردار ادا کرتے ہیں۔جدید دور میں جو الفاظ علامت کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔وہ یہ ہیں: پیڑ، جنگل، گھر، سورج، آندھی، آنگن، کھڑکیاں، منڈیریں، شہر، گلیاں، شام، دھوپ، جزیرہ اور صحرا وغیرہ۔ان میں سے بیشتر الفاظ و علامات کا التزام ممتاز راشد کے مجموعہ ہائے کلام میں موجود ہے۔ممتاز راشد کا مجموعہ کلام”تیری خوشبو سے دل مہکتا ہے“، دو سو رومانی قطعات پر مشتمل ہے۔ اس کے مطالعے کے بعد مجھ پر جو پہلا تاثر ابھرا وہ یہ تھا کہ راشد ایک جاندار، سچا اور کھرا شاعر ہے۔ان کی شاعری کا لب ولہجہ دھیما ضرور ہے لیکن فکر سے خالی نہیں، ان کی شاعری میں جس درجے کی نیاز مندی حساسیت اور مشاہدہ ہے اسے بڑی شاعری کی اساس کہا جا سکتا ہے۔ان کے قطعات میں آمد وآورد کا ملا جلا تاثر ابھرتا ہے۔ ممتاز راشد نے اس مجموعے کا نام اپنے اس قطعے سے اخذ کیا ہے جس کا عنوان ہے”او شکلاں یاد نہ رہیاں“۔ تیری خوشبو سے دل مہکتا ہے صحبتیں ہیں تری نشاط آگہی گردشِ روز و شب کے صدقے میں اب ترے خد وخال بھی یاد نہیں محبت ممتاز راشد کی شاعری کی روح رواں ہے، محبت کے ہر تجربے نے وصل، فراق اورجدائی نے ان کی شخصیت کو وقار اور سوچ کی بالیدگی عطا کی ہے جو ان کے قطعات میں صاف دیکھی جاسکتی ہے۔دیکھئے جب انہیں یاد ِ محبوب تڑپانے لگتی ہے تو عالم اضطراب میں وہ پکار اٹھتے ہیں۔ سرد راتوں میں بانسری کوئی ایسے نغمات سناتی ہے کہ بس اس گھڑی یاد کسی کی راشد اس قدر دل کو ستاتی ہے کہ بس شاعر کو ماضی کے عہد و پیماں یاد آتے ہیں تو یوں اظہار ہوتا ہے۔ ذکر ِ ماضی سن کے وہ کہنے لگے اب زمانے کا تقاضا اور ہے ہم تو راشد اب بھی ہیں ان پر فدا لیکن اب ان کا رویہ اور ہے چندقطعات اور ملاحظہ کیجیے۔ پل بھر کا نظارہ تو نظارہ نہیں ہوتا اس سے تو نگاہوں کا گزارانہیں ہوتا وعدوں سے مرے دل کو نہ بہلاؤ مری جاں وعدہ ہی فقط دل کا سہارا نہیں ہو تا
جوانی ہے حسین پھولوں کی مستی جوانی نرم شاخوں کی لچک ہے جوانی ہے شریر آنکھوں کی شوخی جوانی سرخ ہونٹوں کی چمک ہے
ٹھنڈی ٹھنڈی چلیں ہوائیں اودے اودے بادل امڈیں کاش! اک ایسی برکھا برسے جس میں ہم تم مل کربھیگیں
سوچ میں تیرے نغنے گو نجیں یاد تری،غنچے برسائے جس پر تیرا نام لکھا ہو اس کاغذ سے خوشبو آئے
اپنی تعلیم پر توجہ کرو مت پڑو عشق کے عذابوں میں عمر کٹتی ہے ان کی کانٹوں پر پھول رکھتے ہیں جو کتابوں میں
فاصلہ جو دلوں میں ہے راشد قربتوں میں بدل بھی سکتا ہے زندگی ہے تو دن جدائی کا وصل کی شب میں ڈھل بھی سکتا ہے راشد کی رومانیت ایک نئے انداز اور نئے آہنگ کے ساتھ اس وقت جوبن پر نطر آتی ہے جب پردیس میں مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ زمانے کی سرد مہری حساس دل کو تڑپانے لگتی ہے اور وہ وطن کی محبت، دوری کے احساس کو نہ صرف بڑھاتی ہے بلکہ کسی طور چین نہیں لینے دیتی۔ نہ جانے کب رہائی ہو میری صحرا نشینی سے نجانے کب سکوں پاؤں، دل ویراں وبے کل سے ابھی کچھ اور سہنی ہے مجھے پردیس کی سختی ابھی بچے چھوٹے ہیں، مکاں بھی نامکمل ہے۔
دشتِ غربت میں دل پہ کیا گزری دل فگاروں سے پوچھ کر دیکھو کس قدر قیمتی ہے خاکِ وطن بے دیاروں سے پوچھ کر دیکھو راشد نے اپنی شاعری میں ان حقیقتوں کا بھی اعتراف کیا ہے جو غریب الوطنی کا سبب بنتی ہیں اور ان معاشی لاچاریوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جو پردیس میں رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس لیے وہ نصیحت کرتے ہیں۔ جو بات دیس میں ہے وہ پردیس میں کہاں جلوے ترے ہیں اور نہ خوشبوبہار کی میں کب چاہتا ہوں، رہوں تجھ سے اتنا دور مجبوریاں بہت ہیں غمِ روز گار کی ممتاز راشد، ن۔ م۔ راشد کے تتبع میں آزاد نظم بھی کہتے ہیں۔ان کی آزاد نظموں میں فکر کی گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی نیز فنی خوبیاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔نظم بعنوان”گریز پا“ اور”صحرا گزیدہ“ ملاحظہ ہوں۔ گریزپا کئی گروہ مجھے ساتھ لے کے چلتے ہیں کئی گروہ مجھے ناپسند کرتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں کہ شرکت پہ زور دیتے ہیں مگر میں دیکھتا ہوں ان کے ساتھ چلنے میں مری انا کو کہیں ٹھیس تو نہ پہنچے گی میرے وجود، مری فکر کے تشخص کو کوئی کسی طرح برباد تو نہ کر دے گا اسی سبب سے میں کچھ فاصلے پر رہتا ہوں اسی سبب سے میں اپنی ہی رو میں بہتا ہوں صحرا گزیدہ ہمارے بھاگ میں ہوتا تو اپنے دیس میں رہ کر وہاں کے موسموں، رنگوں، نظاروں کے مزے لیتے گلستانوں، پہاڑوں، وادیوں کے منظروں سے روح و دل کو شادماں کرتے نہ یوں آہ و فغاں کرتے مگر قسمت کی باتیں ہیں ہمیں تو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزاؤں میں وطن کو چھوڑ جانا تھا سو اب شام وسحر اپنے اسی میں ریت ہوتے ہیں بس اب تو زندگی کا ایک ہی مفہوم باقی ہے ہمیں صحرا سجانا ہے یہیں خود گنوانا ہے راشدنے قطعات اور نظم کے ساتھ ساتھ میدانِ غزل میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی غزلوں کے مطالعے سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کے نہاں خانہ ئدل میں عشق کی ایک آتش خاموش رقصاں ہے جو درد سے مضطرب ہو کر شعر کا روپ دھارلیتی ہے۔ ان کی غزلوں میں ایک دردمند کا دل دھڑکتا ہے۔جس طرح سونا آگ میں ڈھل کر کندن بن جاتا ہے، اسی طرح ان کی غزلیں غریب الوطنی کے مصائب میں رچ بس کر نکھر گئی ہیں۔مجھے ان کی غزلوں کے مطالعے سے یوں لگا ہے جیسے ان کا احساس ان کے شعور سے زیادہ طاقت ور ہے۔راشد زندگی کے نشیب وفراز سے آگہی حاصل کرکے مسکراتے ہیں اور یہی ان کا طرہئ امتیاز ہے۔غزلیات کے چند اشعار ملاحظہ ہوں: نوازا ہے مجھے اشکوں سے تم نے مگر دیکھو! انہیں دریا نہ کرنا
دل ونظر کو غموں سے نڈھال رکھتے ہیں یہ آپ خوب ہمارا اقبال رکھتے ہیں
تیری باتوں کا لہجہ ہے غزل سا تیرا پیکر ہے چاندی کے محل سا
کب اہلِ دل جہاں میں ستائے نہیں گئے کب سنگ آئینوں پہ گرائے نہیں گئے
مرنا غریب شہر کا راشد یونہی گیا لاشے پہ اس کے، اشک بہائے نہیں گئے
یہ مضمون 2000 ء میں لکھا گیا تھا جو اس سال کے "سلسلہ" میں شائع ہوا تھا۔ |