لاش سے ڈر لگتا ہے

اتنی جلدی تو مرغی انڈہ نہیں دیتی جتنی جلدی ہمارے پی ایم نے ارشاد فرمایا کہ” بن لادن کا قتل عظیم فتح ہے ۔“ شیخ اسامہ کا معاملہ ایک معمہ سے کم نہیں ۔ ان کے بارے میں عالمی میڈیا کی طرف سے فراہم کردہ خبریں سو فی صد غیر یقینی ہیں ۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ ان کے قتل کی ”واردات “ ہوئی ہو ۔درجن بھر دفعہ پہلے بھی اسی طرح کی نشریات چلائی جاچکی ہیں،مگر ہر دفعہ تھوڑا ہی عرصہ گزرنے کے بعد اچانک ان کی ایک ہنگامہ خیز ویڈیو سامنے آتی ہے جس میں اعلان ہوتا ہے کہ ”میں زندہ ہوں“ اور طاغوت کے چہرے سے فاتحانہ مسکراہٹ ایک بار پھر غائب ہوجاتی ہے ۔ اب کی بار جو دعویٰ دہرایا جارہا ہے ، وہ اپنی سابقہ نظائر سے اِس اعتبار سے مختلف ہے کہ اِس میں قاتل امریکیوں کی طرف سے لاش تک رسائی حاصل کرنے اور ڈی این اے ٹیسٹ کی تصدیق کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے ۔ نیز اس مرتبہ ان کی شہادت کا اعلان بھی باقاعدہ امریکی صدر کی زبان سے کرایا گیا ہے ۔ جبکہ ماضی میں شاید ایسا کوئی موقع نہیں آیا کہ جب اتنے وثوق سے یہ بات کی گئی ہو۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ امریکی ایجنسیوں کو کوئی ایسا کلیو ملا ہے جس کی بنیاد پر وہ اتنے تیقن کے ساتھ یہ دعویٰ کررہے ہیں ۔ تاہم کیا یہ وفات ایبٹ آباد کے مبینہ آپریشن میں ہی ہوئی ہے ؟ یہ دعویٰ کافی حد تک مشتبہ اور مشکوک ہے ۔اس کا مقصد گزشتہ دنوں پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف پیدا ہونے والی ناگہانی صورتِ حال کو دفاع اور عذر خواہی کے ماحول میں بدلنا ور چاروں طرف سے اس کے گرد گھیراؤ تنگ کرنا ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ مبینہ آپریشن میں ان کی شہادت کی خبر موصول ہوتے ہی جہاں ایک طرف مغربی ممالک کی طرف سے یہ بکواس شروع کردی گئی کہ پاکستان کے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہونے کا ثبوت مل گیا ، وہیں شیخ اسامہ کے فکری ہم نواؤں کے اندر بھی پاکستان کے خلاف شدید انتقامی جذبات پیدا ہونے کے خذشات نے جنم لے لیا اور بھارت کو بھی پاکستان کے خلاف جھاگ اڑانے کا ایک نادر موقع مفت میں میسر آگیا ۔

اس اندیشہ کو پذیرائی ملنے کے کئی اسباب ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ عینی شاہدین کے مطابق آپریشن کے بعد گھر سے جو جلی ہوئی لاش باہر لائی گئی وہ اپنے قدوقامت اور شکل وصورت کے اعتبار سے کسی بھی طرح شیخ اسامہ کی نہیں لگتی تھی۔ نیز وہاں کے پڑوسی بھی شہادت دیتے ہیں کہ اس گھر کے رہائشیوں میں کسی بھی طرح کی پراسراریت کبھی محسوس نہیں کی گئی ۔ جبکہ ایک بہت بڑا نکتہ اعتراض جو ہر خاص وعام کی زبان پر ہے ، یہ ہے کہ شیخ اسامہ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے ۔ وہ امریکا کے انتہائی مطلوب ترین افراد میں سرِ فہرست بھے ۔ انہیں نائن الیون کے بعد دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ایک مرکزی کردار قرار دیا گیا ۔ انہی تک رسائی حاصل کرنے کے لیے نیٹو کے خوں خوار ٹولے نے سینکڑوں ہنستی بستی انسانی آبادیوں کو آگ لگائی اور خون کی ندیاں بہا دیں ۔ ان کے سر کی قیمت کروڑوں ڈالر مقرر تھی اور امریکی عہدے داروں کی طرف سے ان کے قتل کو افغان جنگ کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب دس سال کی انتہائی طویل اوراعصاب شکن جدوجہد کے بعد ان تک رسائی ملی تو دنیا کو ان کی لاش تک نہ دکھائی گئی ۔ دنیا کے سنبھلنے سے پہلے پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ امریکی بحری بیڑے پر نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد عین ”اسلامی طریقہ ‘ ‘ کے مطابق ان کی لاش کو سمندر برد کر دیا گیا ہے ۔ نہ جانے امریکا کو شیخ اسامہ کی لاش ” اسلامی رسومات “ پوری کر کے ”اسلامی طریقہ “ کے مطابق سمندر برد کرنے کی فکر کیوں لاحق تھی ؟ کیا قتل ہوجانے کے بعد بھی ” اسامہ کا خوف “ باقی تھا ؟ لگتا کچھ ایسا ہی ہے ۔ اول تو یہ امر ہی مشکوک ہے کہ شیخ اسامہ کی شہادت اس مبینہ آپریشن میں ہوئی ،لیکن اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو پھر لاش کو غائب کرنے کا لب لباب ”اسامہ کا خوف “ ہی معلوم ہوتا ہے ۔

امریکی احمق نہیں۔بش کو جوتا پڑنے سے لے کر ممتاز قادری پہ گل پاشی تک کے تمام واقعات ان کے سامنے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عالمِ اسلام کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی ریاستی پالیسیوں اور وہاں کے عوامی رجحانات میں کیا اور کتنا تفاوت ہے ؟ اگر شیخ اسامہ کی لاش منظر ِ عام پر لانے یا قبر بنانے کی ”غلطی “ کی جاتی تو دنیا کو معلوم ہوجاتا کہ مسلمانوں کے دلوں میں شیخ اسامہ کیا ”معنی ومفہوم “ رکھتا ہے؟ شہداء کے جنازے پہلے بھی پاکستان میں بہت اٹھے ہیں اور جس دھج سے اٹھے ہیں ، وہ ساری دنیا کو معلو م ہے ۔ ان کا نشانِ قبر پاکستان میں بنتا یا سعودیہ میں ، اس کے نیچے خواہ ان کا وجود ہوتا یا نہ ، لیکن مسلمان اس کے بعد اپنے جذبات کا جو اظہار کرتے ، اس سے میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا کافی شافی جواب ہوجاتا کہ ”دہشت گردی “ کے خلاف عالمی جنگ میں ایک عام مسلمان اپنے حکمرانوں کے ساتھ کھڑا ہے یا....؟ہماری رائے میں تو اسی خطرے کے پیشِ نظر ان کی لاش غائب کردی گئی اور اسلام میں لاش کو سمندر برد کرنے کے شرعی حکم کی بحث چھیڑ کر روئے سخن ہی بدل دیا گیا جس سے اس خطرے کی ساری بساط ہی لپیٹ دی گئی،ورنہ اسلام میں لاش کو دفنانے کا شرعی حکم کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ اس میں دو رائے ہوں یا امریکا کو اس کا علم نہ ہو اور جامعة الازہر جیسے ادارہ سے اس بارے میں معلومات حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئے۔تو گویا ”وہ “ جاتے جاتے بھی ہمیں ایک پیغام دے گیا کہ مردِ مومن کی بے جان لاش میں بھی اتنی ہیبت ہوتی ہے کہ اس کو منظر پر لانے میں کفر کو اپنی موت نظر آتی ہے ۔

شیخ اسامہ کی کہانی ختم ہونے کے بعد (اگر ختم ہوچکی ہے تو )تجزیہ کاروں کے مطابق ابلیس کا اوتار اب ارضِ پاک پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے ۔ اس پر ہم صرف دو جملے کہیں گے کہ دیکھو ، تم مسلمانوں پر کتنا ظلم کرو گے ؟کیا اتنا جتنا کہ فرعون نے بنی اسرائیل پر کیا تھا ؟کوئی بات نہیں۔ تم ہماری لاشوں کے ٹکڑے کر کے ان پر اپنے گھوڑوں کی ٹاپیں دوڑا دو ، مگر خدا نے چاہا تو ہم پھر بھی تمہاری خدائی پر ایمان نہ لائیں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسلحہ اور وسائل کے اعتبار سے ہم تمہارے ہم پلہ نہیں۔ لیکن ایک ہتھیار ہمارے پاس ایسا ہے جس کا تم مقابلہ نہ کرسکو گے ۔اس ہتھیار کا نام ہے دعا!نقص کچھ ہمارے ہی گریہ اور الحاح وزاری میں ہے ورنہ جس دن کسی مظلوم کی سسکی عرشِ بریں تک پہنچی ،اس دن خدا نے چاہا تو اسلحہ کے وہی انبار جن کا تمہیں ناز ہے ، انہی میں ایسی آگ بھڑکے گی کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ....بم وبارود کے وہی پہاڑ تمہاری موت ثابت ہوں گے جو تم نے انسانیت کی تباہی کے لیے لگا رکھے ہیں ....انشاءاللہ!
Muhammad Abdullah Shariq
About the Author: Muhammad Abdullah Shariq Read More Articles by Muhammad Abdullah Shariq: 42 Articles with 46803 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.