ہم نے رسم ِمحبت کو زندہ کیا، زخمِ دل جیت کر نقدِ جاں ہار کر

بسم اللہ الر حمٰن الر حیم

دنیا میں کچھ لوگ جینے کی خواہش میں مَر مَر کے بمشکل جی تو لیتے ہیں لیکن ان کے دل بھی مردہ ہوتے ہیں، وہ خود بھی مردہ ہی رہتے ہیں اور آخر تاریخ کے کوڑے دان کی نظر ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ مر نے کیلئے جیتے ہیں ،وہ زندگی بھر موت سے آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں ،ان کی ظاہری موت و حیات کوئی معنیٰ نہیں رکھتی، اگر وہ مرجائیں تو اَمر ہوجاتے ہیں، زندہ رہیں تو ٹیپو سلطان کے بقول ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے“ شیخ اسامہ بن لادن بھی انہی لوگوں میں سے تھے جو بلاشبہ عاش سعیدا ًومات سعیداًکا حقیقی مصداق تھے۔انہوں نے ایک سپر پاور کو شکست وریخت سے دوچار کیا اور دوسری سپر پاور اور اس کے جملہ اتحادیوں کو کا مل ایک عشرے تک تگنی کا ناچ نچاتے رہے ....اس وقت ہر جگہ ان کے بارے میں یہ بحث جاری ہے کہ وہ زندہ ہیں یا شہید ہو چکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ حیا ت ہوں یا جامِ شہادت نوش کر گئے ہوں....انہوں نے ایبٹ آباد میں جا ن جانِ آفریں کے سپر د کی ہو یا افغانستان کے کسی کوہسار میں اپنے محبوبِ حقیقی کے وصال کا لطف اٹھا یا ہو.... وہ 2 مئی کی تاریک شب کا روشن ستارہ ہوں یا کسی گمنام تاریخ میں اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوئے ہوں ....وہ امریکی کمانڈوز سے لڑ تے ہوئے سر خرو ٹھہرے ہو ں یا گردوں کی تکلیف کے باعث اللہ کو پیارے ہوگئے ہوں....ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑ تا کیونکہ وہ جو مشن لے کر اٹھے تھے ،جس مقصد کی خاطر انہوں نے پر خار وادیوں اور کٹھن راستوں کا انتخاب کیا تھا وہ مشن تکمیل کے قریب ہے .... وہ ظلم کے خلا ف بغاوت کا استعارہ تھے اور ان کی جرات وبہادری سے ہزاروں لاکھوں چرا غ جل اٹھے اور اندھیرے بھاگ کھڑے ہونے کے لیے بے تاب ہیں ....وہ زندہ تھے تو مجاہدوں کے لیے حوصلے کا ذریعے تھے اگر چل بسے ہوں تو ان کی شہادت ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو گی .... انہوں نے مظلوموں کی نصرت کا قصد کیا اور نہ صرف یہ کہ ان کے ہزاروں ہم نفسوں نے مظلوموں کی حمایت کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا بلکہ خود مظلوموں کو بھی نئے ڈھنگ سے جینے کا سلیقہ آیا....انہوں نے اپنے شاہی محلات اور عیش و آرام کو اس وقت تَج کر پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیر اکر نے کا فیصلہ کیا جب وہ عین عالمِ شباب میں تھے ....وہ روسی جارحیت کے سامنے اس وقت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے جب روسی سرخ آندھیوں کی صورت میں ہماری سرحدوں تک آپہنچے تھے ....انہوں نے امریکا کو ایسے میں وقت للکا را جب لوگ امریکا کی ہیبت ،طاقت اور سربریت کے سامنے تھر تھر کانپتے تھے....ایک دھان پان سا بوڑھا جرنیل جس نے اسلام کی سر بلندی کی مقدس جنگ لڑی اور جرا ت و بہادری کا استعارہ بن گیا ....جو استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے راستے کی ایسی چٹان ثابت ہو ا کہ عالمِ اسلام ہی نہیں طاغوت کے ہر باغی کی آنکھ کا تارہ بن گیا ....اس نے صرف قبلہ اول کی آزادی اور حرمین شریفین کے دفاع کاخواب ہی نہیں دیکھا بلکہ پاکستان کے تحفظ کی جنگ بھی لڑی.... اگر شیخ اسامہ بن لادن اور ان کے رفقاءعرب دنیا سے آکر روسی ریچھوں کو افغانستان کی سر زمین پر عبرتناک شکست سے دوچار نہ کر تے تو شاید آج پاکستان بھی کوئی روسی ریاست ہوتی ....اگر وہ امریکا کو ایک عشرے تک افغانستان میں الجھانے کے بعد شکست خوردگی کے عالم میں واپس لوٹ جانے پر مجبور نہ کرتے تو شاید آج پاکستا ن بھی امریکا کے توسیع پسند عزائم کا شکار ہوچکا ہوتا۔

آج اگر خوف ودہشت، عالمی تھا نیدار کی ہیبت ،میڈیائی پر وپیگنڈے اور دجالی چالوں کے باعث کوئی اسامہ بن لادن کو شہید نہ کہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟اگر کوئی آل رسول میں سے ہونے کا دعوے اور اسلامیان پاکستان کی سربراہی کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود اس کی مشکوک شہادت کو عظیم فتح قرار دے تو کیا ہوتا ہے؟ وہ زندہ تھا تب بھی کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن تھا لوگ اپنے بچوں کے نام اس کے نام پر رکھا کر تے تھے اور اب اگر امریکی دعویٰ مان بھی لیا جائے تب بھی وہ زندہ ہی ہے۔پہلے اس کی زندگی عارضی تھی اور اب اسے حیاتِ جاوداں نصیب ہوگئی ہے ۔ پہلے وہ محض ایک ستارہ تھا مگر اب وہ کہکشاں بن گیا جو رہتی دنیا تک تاریخ کے صفحات اوربہادری،بے باکی اور جرا¿ت واستقامت کے افق پر جگمگ کرتا رہے گا ....شیخ اسامہ سے دل گرفتہ اور مظلوم مسلمانوں کی محبت کااندازہ لگائیے کہ آج پوری اسلامی دنیا سوگوار ہے ،جس لمحے ان کی شہادت کی خبر نشر ہوئی اس وقت اسلام آباد کے ایک بینک میں موجودکوئی گمنام مگر ماڈرن خاتون دھاڑیں مار مار کر اس طرح رونے لگیں کہ پورا ماحول سوگوار ہوگیا اور پھر مجبوراً بینک میںنصب ٹی وی بند کرنا پڑا ۔یہ محبت عر ب وعجم کی حدود سے ماوراء اور مردوزن کی تفریق سے بالا ہے ۔اتنی پذیرائی اور مقبولیت کسی کسی کے حصے میں آتی ہے۔ لیکن ہمارے ان دانش فروش بقراطوں کا کیا کیجیے جو نصف النہار کو تاریک شب قرار دینے پر مُصر ہیں ان کا ارشاد ہے کہ” اسامہ عبرتناک انجام سے دوچار ہوگیا“ جی نہیں حضور! عبرتناک انجام نہیں قابلِ رشک حسنِ خاتمہ ۔ اللہ ہم سب کو نصیب فرمائے ۔آمین ۔یہی منزل تو وہ منزل ہے جس کی ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار تمنا کی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اسامہ کافی بوڑھے بھی ہو چکے تھے اور بیمار اور نحیف ونزار بھی تھے ۔ان کی مبینہ شہادت نے انہیں نئی زندگی دے دی ہے ۔اگر وہ شہید نہ ہوتے تو بھی کسی دن خاموشی سے زمین کی پاتال میں اتر جاتے اور قصہ تمام ہو جاتا مگر اللہ نے انہیں اپنی منزل مقصود تک پہنچا دیا ۔سوال یہ ہے کہ اگر ان کی زندگی دینِ مبیں پر فدا نہ ہوتی تو اور کس کا م آنی تھی یہ زندگی؟ شاعر نے کیا خوب کہا ہے
ہم نے رسم ِمحبت کو زندہ کیا، زخمِ دل جیت کر نقدِ جاں ہار کر
ہم سے بزمِ شہادت کو رونق ملی جانے کتنی تمناؤں کو مار کر
قیدِ جاں سے گزرنے لگے جس سمے، عقل کہنے لگی اک ذرا سوچ لے
اس کی رحمت میں پہنچے تو دل بول اٹھا، تو نے جو کچھ کیا اس کو دس بار کر
کچھ نے دعوے محبت کے دائر کیے اور متاعِ دل وجاں بچا لے گئے
کوئی لایا دلیلِ محبت مگر خون کی ایک اک بوند کو وار کر

ہم کمزور دل ،عیش کوش ،مادیت پرست ،امریکی رعونت سے مرعوب ،اللہ کے باغی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیگانہ مسلمانوں کیلئے عشق ومحبت کے ان اسرار ورموز کی گہرائی تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ،ان جذبوں کو سمجھنا ہمارے لیے دشوار ہے جن کی بنیاد پر کوئی اپنے مال و دولت اور اپنی جان و خاندان کو اللہ کے راستے میں قربان کرنے کاعزم کر کے اٹھتاہے ملکوںملکوں پھرتاہے، موت اس کا تعاقب کرتی ہے ، وہ آسیب بن کر اپنے دشمنوں کے دل ودماغ اور حواس پر مسلط ہوجاتاہے ، اس کی پوری زندگی بھی دیومالائی داستان تھی اور اس کی شہادت بھی افسانوی رنگ اختیار کر جاتی ہے ۔اور وہ ایک گوشت پوست کے انسان کی بجائے ایک نظریہ ،ایک فکر ،ایک سوچ اور پیغام بن کر خوشبو کی طرح ہواؤں میں بکھر جاتا ہے اوراسے زمان ومکان ،ظلم وستم اور سائنس وٹیکنالوجی کی کوئی زنجیر جکڑ نہیں پاتی۔

ہمارے ہاں ایک ایسا شکی مزاج اور شقی القلب طبقہ موجود ہے جو خودتو ہاتھوں پر ہاتھ دھرے ،اپنے مفادات کی دوڑ اور حرص و ہوس کی گھمن گھیریوں میں الجھارہتاہے لیکن دوسروں کوکبھی دشمن کا ایجنٹ اور کبھی غیروں کا پر وردہ قرار دیتاہوئے ان سے ان کے ”درست “ہونے کا ثبوت طلب کرتارہتاہے اور جب تک وہ اپنے لہو سے اپنی صداقت کا اظہار نہ کر دے اس وقت تک اس طبقے کو چین نصیب نہیں ہوتا ۔اس شکی مزاج اور شقی القلب طبقے کو نوید ہو کہ شیخ اسامہ امریکی ایجنٹ یا امریکی پرودرہ نہ تھے بلکہ اسلام کی سربلندی کے لیے کفر سے برسرپیکا رمجاہد تھے۔

اسامہ شہید ہوئے یا نہیں....اس بات کا فیصلہ وقت کرے گا مگر لیکن یہ ایک اہم موقع ہے جب ہلاکت اور شہادت کا فرق واضح کیا جائے ....جب جہاد اور دہشت گردی میں تمیز و تفریق کو اجاگر کیا جائے....جب بے گناہ اور مظلوم مسلمانوں کو خاک وخون میںتڑپانے والوں اور امریکی رعونت کے خیر خواہوں اور دوست نمادشمنوں کی پہچان کروائی جائے ....جب پاکستانی آزادی و خود مختاری پر نظرثانی کی جائے....

جس دن علامہ عبد الرشید غازی ؒ نے جام شہادت نوش کیا اس دن میرا کمسن بھانجا طاہر خبریں سنتے ہوئے چونک اٹھا ”ماموں! یہ لوگ غازی صاحبؒ کو شہید کیوں نہیں کہتے؟ ہلاک کیوں کہتے ہیں؟“میں نے روتے ہوئے بے بسی سے کہا تھا ”بیٹا !کسی کے شہید یا ہلاک ہونے کا فیصلہ میر ے اللہ نے کر نا ہے تم دیکھ لینا خلق خدا اس خدائی فیصلے کی گواہی دے گی۔ یہ کون ہوتے ہیں کسی کو شہید یا ہلاک قرار دینے والے ؟ “ذرا سوچیے !اس وقت کیسا سکوت تھا ؟کتنے خوف کا عالم تھا مگر پھر غازی صاحب کے تذکرے ،ان کی تصویریں ،ان کی مخصوص ٹوپی کی بہاریں ،ان کی باتیں ،ان کے انٹرویوز سب کچھ ایسے انداز سے منظر عام پر آیا کہ منظر ہی بدل گیا اور آج تک حال یہ ہے کہ علامہ غازی ؒروجہان کی مٹی اوڑھ کر سو جانے کے باوجود بھی کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دنیا کے حقیقی تاجدار ہیں اور ہمیشہ رہیں گے جبکہ پرویز مشرف لندن کے عشرت کدوں میں دادِ عیش دیتے ہوئے بھی سب سے زیادہ تنقید اور نفرین کا شکار ہے۔

اب ایک مرتبہ پھر وہی منظرہے ،وہی نمک پاشی ،وہی امریکی زبانیں،وہی امریکی نکتہ نظر ،شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی کوشش .... ڈالروں کی چمک ،مال ودولت کی حرص، چند دن مزید جی لینے کا لپکا اور معمولی ساخوف انسانوں کو روبوٹ بنادیتاہے اور وہ روبوٹ مسلسل بولتے چلے جاتے ہیں ۔ایسی دور دور کی کوڑیاں مول لاتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔لیکن یہ منظر زیادہ دیر تک یونہی نہیں رہے گاکیونکہ آہستہ آہستہ اسامہ کے بارے میں بھی سکوت ٹوٹ رہا ہے ،گرد چھٹ رہی ہے ،دھند لائے ہوئے منظر واضح ہوتے چلے جارہے ہیں ۔حیرت ہے کہ دنیا نیسلن منڈیلا کو ہیرو کہتی ہے لیکن اسامہ بن لادن کو ہمارا میڈیا ولن کے روپ میں پیش کر رہا ہے .... جلیانوالہ باغ میںجنرل ڈائر کی گولیوں کا نشانہ بننے والے ہندوؤں اور سکھوں کو ان کی قومیں”شہید “قرار دیتی ہیں لیکن یہاں امریکی رعونت کو چیلنج کرنے والے شیخ اسامہ کو شہید کہتے ہوئے زبانیں ہکلانے لگتی ہیں ۔
فیا للعجب
Abdul Quddoos Muhammadi
About the Author: Abdul Quddoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddoos Muhammadi: 120 Articles with 130125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.