اچھے دوست ہر انسان کے لیے نعمت غیرمترقبہ کی حیثیت رکھتے
ہیں ‘ جس کو اس نفسا نفسی زمانے میں اچھے دوست مل گئے اس جیسا خوش قسمت شخص
کوئی نہیں ہے۔ مجھے بھی اﷲ تعالیٰ نے چند ایک اچھے دوست عطا کر رکھے ہیں جن
کی دوستی پر نہ صرف مجھے ناز ہے بلکہ قدم قدم پر ان کی رہنمائی‘ مشاورت اور
مدد مجھے حاصل رہتی ہے۔ ایسے دوستوں ہی میں ایک معتبر نام افتخار مجاز کا
ہے جو پیشہ کے اعتبار سے تو پاکستان ٹیلی ویژن کرنٹ آفیئر کے ایگزیکٹو
پروڈیوسر تھے لیکن وہ اپنے سرکاری فرائض کے علاوہ بہترین کالم رائٹر ‘ مصنف
کتب اور اپنے ذہن میں بلا کا خزانہ رکھنے والے شخص تھے ‘ وہ پاکستان ٹیلی
ویژن کی عمارت سے باہر بھی ادبی و صحافتی حلقوں میں بہت مقبول بلکہ ان کا
نام بڑے احترام سے اس لیے لیا جاتا ہے کہ وہ دشمن بنانے کی بجائے اپنے خلوص
اور محبت سے نت نئے دوست بناتے چلے جارہے تھے‘ جس کو وہ اپنا دوست کہہ دیتے
ہیں پھر زندگی بھر اس کی لاج بھی رکھتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ ریٹائرمنٹ کے
بعد جب افتخار مجاز مکمل طور پر ادبی اور صحافتی حلقوں میں عروج پر تھے ‘
وہ روزانہ کسی نہ کسی محفل کی جان ہوا کرتے تھے ‘اچانک دل کے عارضے اور اس
کے بعد فالج کے موذی مرض نے موت کے منحوس پنجوں تک پہنچا دیا ۔ 3اپریل
2019ء کو میں جب نظام بلاک علامہ اقبال ٹاؤن کی مسجد میں نمازہ جنازہ پڑھنے
گیا تو مسجد میں تل رکھنے کی جگہ نہ تھی ‘ ہر شخص معاشرے میں اپنے مقام و
مرتبہ کو بھول کر افتخار مجاز کے لیے سپاس گزار تھا ۔جوانسان دنیا میں آیا
ہے اسے ایک نہ ایک دن تو دنیا سے جانا ہی ہے لیکن افتخار مجاز کی موت کے
بعد ادبی اور صحافتی حلقوں میں بہت عرصے تک سکوت کی حالت طاری رہی ۔ وہ
بظاہر ایک شخص تھے لیکن اپنی ذات میں خود انجمن تھے ۔
حالانکہ میں اور وہ الگ الگ شعبوں کے لوگ تھے لیکن وطن اور مقدس رشتوں سے
محبت اور ان کے ادبی ذوق نے ایک دن ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاکھڑا کیا
ہے۔یہ ان دنوں کی بات تھی جب ان کی ٹانگ کی ہڈی فریکچر تھی اور وہ اپنے
سبزہ زار والے گھر میں صاحب فراش تھے۔ ایک دوپہر ان کی طرف سے مجھے فون کال
موصول ہوئی۔ انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے انتہائی بے باکی کا مظاہرہ
کیا جونہی انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ ادبی
و صحافتی دنیا میں جس قابل بھروسہ دوست اور رہنما کی ضرورت تھی وہ مجھے
افتخار مجاز کی شکل میں مل گیا ہے ان کی جانب سے پہلی کال کا محرک روزنامہ
پاکستان کے عسکری ایڈیشن میں شائع ہونے والی یہ خبرتھی کہ معرکہ کارگل پر
ابھی تک کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔ اس خبر پر موصوف سخت ناراض تھے اور کہہ
رہے تھے میں نے شامی صاحب کو فون کرکے بتایا کہ اسلم لودھی نے معرکہ کارگل
پر اردو میں کتاب لکھی ہے جو اس قدر دلچسپ اور حقائق پر مبنی ہے کہ پڑھنے
والے کاایمان تازہ ہوجاتاہے ۔
بہرکیف یہی بات ہماری بے لوث دوستی کی بنیاد بنی۔ پھر ہر روز ان کی جانب سے
مجھے ٹیلی فون کالز موصول ہونے لگیں۔ ان کی محبت اور سرپرستی سے حوصلہ پا
کر وقتاً فوقتاً میں بھی ان کو لمبے لمبے فون کرنے لگا۔ پھر دن بدن یہ بے
لوث دوستی ایک مضبوط رشتے کی بنیاد بنتی چلی گئی۔ اسی دوران ایک دن میں ان
کے ہاں خیریت دریافت کرنے کے لیے پہنچا۔ انہوں نے توقع سے کہیں زیادہ مہمان
نوازی اور محبت سے نوازا۔ گرما گرم چٹ پٹے پکوڑے اور چائے سے میری تواضع
کی۔ پکوڑے تو میں نے پہلے بھی کھائے تھے لیکن ان کے گھر بیٹھ کر کھائے جانے
والے پکوڑوں کی لذت اور ذائقہ ہی کچھ اور تھا۔ دراصل ان پکوڑوں میں افتخار
مجا ز اور ان کی نیک سیرت اہلیہ کا خلوص شامل تھا۔ بلکہ میں نے ان پکوڑوں
سے متاثر ہوکر بالمشافہ پہلی ہی ملاقات میں یہ کہہ دیا کہ آپ کے کالموں کا
مجموعہ جب شائع ہوگا تو اس کا فلیپ میں لکھوں گا اور اس کتاب کا نام بھی
’’چٹ پٹے پکوڑے‘‘ ہوگا۔ بہرکیف پہلی ملاقات کی خوشگواری کا اثر بہت عرصہ تک
ہم دونوں پرطاری رہا۔ حالانکہ میں خود کو نہ مکمل طور پر صحافی قرار دیتا
ہوں اور نہ ہی لکھاری‘ لیکن افتخار مجاز کی باتوں سے مجھے بہت حوصلہ ملتا
تھا۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ نے افتخار مجاز کو صحت عطا فرمائی اور وہ باقاعدگی
سے پاکستان ٹیلی ویژن ڈیوٹی پر جانے لگے تو انہوں نے میری کتاب ’’وطن کے
پاسبان‘‘ کی تقریب رونمائی کو اپنی شان دار کمپیئرنگ سے چار چاند لگا دیئے۔
مسلسل تین گھنٹے جاری رہنے والی اس تقریب میں شریک ہر شخص نے افتخار مجاز
کی علم دوستی اور کمپیئرنگ کے اعلی معیار کی بے حد تعریف کی ۔ افتخار مجاز
نے دوران کمپئیرنگ میری شخصیت کے ایسے ایسے گوشے وا کردیئے جن کا علم مجھے
بھی اس وقت ہوا جب ان کی زبان سے میں نے سنا ۔ان کی محبت کا مرکز صرف میں
ہی نہیں تھا ‘ میری والدہ‘ اہلیہ اور میرے بچے بھی خوب محظوظ ہوئے بلکہ بہت
عرصے تک ان کی کمپیئرنگ ہمارے گھر میں موضوع بنی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ میری
ماں نے ان کو اپنا حقیقی بیٹا اور میری اہلیہ نے انہیں اپنا بھائی تسلیم کر
لیا۔
اسی دوران ایک بار پھر ان کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کئی ہفتے وہ اس فریکچر
کی وجہ سے گھر پر ہی موجود رہے۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ نے ان کو شفا بخشی تو ان
کے بھتیجے حسن اعزاز کی کتاب ’’کیا میں یاد آتا ہوں‘‘ کی تقریب رونمائی
پریس کلب لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں افتخار صاحب پورے جوبن پر
تھے۔ جب وہ تقریر کے لیے ڈائس پر آئے تو سٹیج سیکرٹری افضال شاہد نے ان پر
فقرہ چست کرتے ہوئے کہا ‘ خوش قسمتی سے آج مسز افتخار بھی اس محفل میں
موجود ہیں۔ ہم ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ افتخار
صاحب کی کبھی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے اور کبھی ہاتھ کی۔ آخر اس کی وجہ کیا
ہے؟ اس بات پر خوب قہقہہ پڑا اور ہر شخص نے لذت محسوس کی۔ افضال شاہد کی اس
بات کا جواب افتخار مجاز نے بہت خوب دیا جسے تقریب میں شریک تمام لوگوں نے
قہقہے لگا کر انجوائے کیا۔ یہاں میں بتاتا چلوں کہ افتخار مجاز قابل بھروسہ
دوست ہی نہیں میرا رہنما بھی تھا۔ اپنی 35کتابوں میں سے تقریباً آٹھ کتابیں
میں نے ان کے مشورے پر ہی لکھیں۔ شکر ہے کہ وہ اپنے گراں قدر مشوروں کی فیس
مجھ سے وصول نہیں کرتے جب بھی اور جو بھی مشورہ دیتے ہیں وہ بالخصوص میرے
لیے بہت مفید اور مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
اسی دوران ایک صبح مجھے افتخار صاحب کا ٹیلی فون موصول ہوا ان کی آواز سے
خوشگوار حیرت کا احساس ہورہا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ کل رات گئے تک
میری کتاب ’’کارگل کے ہیرو‘‘ پڑھ رہے تھے۔ پڑھتے پڑھتے پچھلی رات کا وقت
شروع ہوگیا جس کمرے میں ‘ میں موجود تھا وہ کمرہ یکدم خوشبو سے مہک اٹھا جس
پر مجھے بڑی حیرانی ہوئی ۔ انہوں نے پہلے تو اسے اپنا وہم قرار دیا جب
انہوں نے پورے ہوش سے خوشبو کا احساس کیا تو ان کا شک یقین میں بدل گیا کہ
یقینا ان کے کمرے میں کسی شہید کی روح آئی تھی جس کی خوشبو نے گھر کے در و
دیوار کو مہکا دیا ہے۔ افتخار مجاز نے مجھے مزید بتایا کہ ساری رات ان پر
ایک عجیب اور خوشگوار روحانیت کا اثر رہا اور اسی حالت میں بیدار ہوتے ہی
وہ مجھے فون کر رہے ہیں۔افتخار مجاز کی باتیں میرے دل میں گھر کر گئیں اور
ایک عجیب احساس نے مجھے بھی گھیرے رکھا ۔شہداء پر لکھنے کا شوق مجھے جنون
کی حد تک ہے ‘ بطور خاص لاہور میں جتنے بھی شہداء کے لواحقین موجود ہیں
میری ہر ممکن کوشش رہی کہ میں ان کے گھر جاکر ان کے دکھ اور خوشی میں شریک
رہوں ۔
پھر وہ سہ پہر بھی میرے لیے یادگار تھی جب رمضان المبارک کے مہینے میں میری
کتاب ’’شہادتوں کا سفر‘‘ کی تقریب رونمائی لاہور کالج برائے خواتین جیل روڈ
لاہور کے آڈیٹوریم ہال میں منعقد ہو رہی تھی۔ چونکہ یہاں سٹیج سیکرٹری کے
فرائض جمیل صاحب کر رہے تھے اس لیے افتخار مجاز کو سٹیج پر اظہار خیال کے
لیے جب بلایا گیا تو انہوں نے کتاب پر اظہار خیال کرنے کے علاوہ مجھ سے
مخاطب ہوکر یہ مشورہ دیا کہ وطن عزیز پر جانیں قربان کرنے والوں پر تو
کتابیں لکھی جارہی ہیں‘ ان کا قصور کیاہے جو تاریخ سازکارنامے انجام دینے
کے باوجود ابھی تک زندہ ہیں۔ ان کی مراد اس وقت سٹیج پر موجود 1965ء کی جنگ
کے ہیرو میجر شفقت بلوچ سے تھے۔ افتخار مجاز کی بات میرے دل پر اس قدر اثر
کر گئی اور میں نے اسی وقت ان ’’قومی ہیروز‘‘ پر لکھنے کا فیصلہ کر لیا جو
ابھی حیات تھے ۔ اس دوران دشواریاں تو بہت آئیں لیکن ہر دشواری کا کوئی نہ
کوئی حل ضرور ہوتا ہے۔ اسی جذبے کو بروئے کار لا کر میں نے تحقیقی کام شروع
کر دیا اور اﷲ تعالیٰ نے مجھے کامیابی سے نوازا اور ’’قومی ہیروز‘‘ کتاب جس
میں 9ہیروز کے ایمان افروز کارنامے شامل ہیں۔ شائع ہوکر مارکیٹ میں دھڑا
دھڑ فروخت ہونے لگی۔ اس کتاب کی اہم خوبی یہ تھی کہ اسے محسن پاکستان ڈاکٹر
عبدالقدیر خان نے بہت پسند کیا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے کے لیے ایک
پر مغز خط بھی لکھا جو آج بھی میرے پاس سند کی حیثیت سے موجود ہے بلکہ
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سیکرٹری نے ڈیڑھ سو کتابوں خرید کرکے ڈاکٹر خان کے
دوستوں کو بطور تحفہ بھجوائیں جو پاکستان اور پاکستان سے باہر قیام پذیر
تھے۔ اسی طرح حکیم محمد سعید شہید کی بیٹی نے بھی اس کتاب کو اپنے خط کے
ذریعے بے حد سراہا۔ اور اسے نوجوان نسل کے لیے ایک قیمتی ورثہ قرار دیا۔
باقی ہیروز نے بھی اس کتاب کو بڑی تحسین کی نظر سے دیکھا۔ میں سمجھتا ہوں
یہ مبارکبادیں اور تعریفیں صرف میرے لیے نہیں تھیں بلکہ ان کا حق دار وہ
عظیم شخص بھی تھا جسے لوگ افتخار مجاز کے نام سے پکارتے ہیں۔ وہ ہر شخص کی
ممکن حد تک مدد کرنے کا عادی ہوچکا ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے کی عادت یقینا
ان کو اپنے والدین اور بڑے بھائی اعزاز احمد آذر سے ہی ورثے میں ملی
ہوگی۔میرا یہ دوست اپنی گفتگو اور تجربہ کے ذریعے چلتے پھرتے دوسروں میں
خوشیاں بانٹتا رہا ۔ افتخار کی محبت‘ حسد‘ بغض اور لالچ سے پاک تھی۔ وہ ہر
اس شخص کا دل و جان سے احترام کرتا تھا۔مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس
ہورہی ہے کہ میری جتنی کتابوں کی رونمائی منعقد ہوئی ان میں اکثریت کے
کمپیئرنگ افتخار مجاز کے حصے میں آئی چونکہ وہ شخصیات کے حوالے سے چلتے
پھرتے انسائیکلوپیڈیا تھے اس لیے کتاب پر گفتگو کرنے والے ہر مقرر کے بارے
میں مرتبے اور مقام کالحاظ کرتے خوب تعارف کرواتے جسے پسندیدگی کی نگاہ سے
دیکھا جاتا۔
مجھے یہ بات نہایت دکھ اور تکلیف سے کہنی پڑتی ہے کہ میرا یہ دوست اور
بھائی سب لوگوں کو ہنستا اور مسکراتا ہی نظر آتا تھا لیکن نہ جانے کتنے دکھ
اس کے سینے میں موجزن تھے۔ وہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہی رہتا۔ کبھی
ان کی ٹانگ کی ہڈی فریکچر ہوجاتی ہے تو کبھی ہاتھ کی ہڈی ۔ جب ادھر سے
افاقہ ہوتاہے تو ان کا دل تیز تیز دھڑکنے لگتا ہے ‘ جس کی وجہ سے وہ چند
سالوں کے دوران کئی بار ہسپتال بھی جا چکا تھا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم اور
اپنی قوت ارادی کی بدولت بہت جلد ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں اور ان کی واپسی سے
ان کے گھر کی رونقیں پھر لوٹ آتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو جتنی عظیم ماں
عطا کی ہے ۔ اتنی ہی اچھی بیوی کی محبتیں بھی انہیں میسر ہیں جبکہ اچھی اور
نیک اولاد بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ بڑے بھائی اعزاز احمد آذر کی ان
شفقتوں کو بھی اس لمحے فراموش نہیں کیا جاسکتا جو ایک درخت کی طرح نہ صرف
افتخار کو سایہ عافیت فراہم کرتے ہیں بلکہ افتخار کی دوستی کے ناطے مجھے
بھی ان کی محبت اور سرپرستی حاصل ہوجاتی ہے۔
اگر یہ بات کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ فٹ پاتھوں پر
پیدل ہی چلتے گزر گیا اگر کبھی گاڑی میسر بھی آئی تو وہ پی ٹی وی کی ہوتی
۔لیکن انہوں نے ٹرانسپورٹ نہ ہونے کا شکوہ کبھی نہیں کیا۔ پھر وہ وقت بھی
آپہنچا جب وہ پی ٹی وی سے باعزت طور پر ریٹائر ہوگئے ۔انہوں نے مجھے
بتایاتو میں نے نوائے وقت ان کی شخصیت اور خدمات پر ایک جامع کالم لکھا جس
کو انہوں نے بے حد پسند فرمایا ۔ریٹائرمنٹ کی زندگی کومسرت بنانے کے لیے
انہوں نے ادبی محفلوں میں شرکت کا ذریعہ بنالیا ۔ فیس بک پر جب ان کی مختلف
تقاریب اور شخصیات کے تصویریں دیکھنے کو ملتیں تو دل خوش ہوتا کہ اب وہ
اپنے سجن اور بھلیوں میں واپس لوٹ آئے ۔ چونکہ پی ٹی وی ملازمت کے دوران ان
کے پاس اتنا وقت نہیں ہوا کرتاتھا کہ ادبی محفلوں میں شریک ہوتے اس لیے صرف
وہی لوگ ان کے احاطہ روابط میں شامل ہوتے جو کسی نہ کسی طرح پی ٹی وی کا رخ
کرتے ۔ چونکہ میرے بنک کا دفتر بھی پی ٹی وی کے قریب ہی تھا چنانچہ میں بھی
فون کرکے ان کے پاس چلاجاتا پھر گھنٹوں لطیفوں اور مزاحیہ گفتگو جاری رہتی
اور تھکن کا کبھی احساس نہ ہوتا۔
ان کی ریٹائرمنٹ کے کچھ ہی عرصہ بعد بنک سے میری بھی ریٹائرمنٹ آپہنچی
۔فرصت کے لمحات میں جب نئے گھر کی خرید کی وجہ سے میں مالی طور پر کچھ
پریشان تھا تو قدرت مجھے اردو ڈائجسٹ میں بطور پبلک ریلیشنز منیجر /سب
ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی ۔ ایک صبح مینجنگ ایڈیٹر جناب طیب اعجاز قریشی نے
مجھے اپنے آفس میں بلایا اور حکم دیا کہ کرنٹ موضوعات پر مذاکروں کااہتمام
کریں ۔ مختلف موضوعات پر گفتگو کے لیے شخصیات کاانتخاب آپ خود کیا کریں۔یہ
ذمہ داری یقینا میرے لیے ایک امتحان بن گئی میں نے پریشان ہونے کی بجائے
افتخار مجاز کو کال کی اور ان سے اس حوالے سے گفتگو کی ۔ انہوں نے قہقہہ
لگاتے ہوئے کہا آپ فکر نہ کریں آپ جس موضوع پر کہیں گے ہم آپ کو اس موضوع
پر گفتگو کرنے والی شخصیتوں تک رسائی فراہم کریں گے ۔اگر آپ مناسب سمجھیں
تو اس مذاکرے میں ‘ میں خود بھی شامل ہوجاؤں گا ۔ ان کی حوصلہ افزاء گفتگو
نے مجھے پرامید کردیا ۔یہ الگ بات ہے کہ ایسی نوبت ہی نہیں آئی۔
اگر میں سچ کہوں تو نہ میں خود کو رائٹر سمجھتا ہوں اور نہ دوستی کو اس کی
اصل معراج کے مطابق نبھانے والا تصور کرتا ہوں۔ مجھے تو افتخار جیسے محبت
کرنے والوں سے اتنا حوصلہ ملتا رہا کہ میں راستے کی ہر رکاوٹ دور کرکے منزل
مقصود تک پہنچتا رہا ۔چند ماہ شدید علالت کے بعد ہنستا مسکراتا افتخار مجاز
3اپریل 2019ء کو ایک ایسے جہان میں جابسا جہاں سے لوٹ کر کوئی نہیں آتا ۔
مجھ سمیت تمام دوستوں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ اسے رخصت کیا ۔
بلاشبہ افتخار میرا فخر بھی تھا اور اعزاز بھی ۔جس کی قدم قدم پر میں
رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ۔
|