آج ایک محترم کالم نگار کا مضمون نظروں سے گذرا اس میں انہوں نے خان صاحب کے ایک وائیرل ہوئے کلپ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ایک بادشاہ کو عوام کے سامنے بہادر بننا چاہئے اور اگر اس میں بادشاہ بننے کی خوبیاں نا بھی پائی جاتی ہوں تو پھر اس کو کم از کم بادشاہ بننے کی ایکٹنگ ضرور آنی چاہئے۔ میرا خیال ہے وہ صیح فرما رہے ہیں بادشاہ یا حاکم وقت تو وہ ہوتا ہے جو سینکڑوں بچوں کے سفاکانہ قتل عام کی APC میں جو کہ اس اندوہناک واقعے سے محض دو روز بعد منعقد کی گئی ہو میں دھرنیوالوں پر پھبتیاں کس رہاہو،مسکرا بھی رہا ہو اور شریک محفل بھی قہقے لگاکر ساتھ دے رہے ہوں اور محفل کے اختتام پر پر تکلف سرکاری ظہرانے کا بھی اہتمام ہو ۔کیوں کہ بادشاہ کو مظبوط اعصاب کا مالک ہونا چاہئے چاہئے وہ لاشوں کے عین اوپر بھی کیوں نہ کھڑا ہو ۔کیوں کہ وہ لاشیں تو اس مجبور اور بے بس عوام کی ہیں جو ہر چند سال بعد ان گِدھوں کو اپنے اوپر بخوشی خود مسلط کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں پھر سے نوچ سکیں۔ ہاں بادشاہ کے اپنی بیوی کے جنازے پر رو بھی سکتا ہے اوراسکے چہرے کے تاثرات سے اسکے کرب کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے(جو کہ عین انسانی فطرت ہے) اور اسکی فوٹج بھی بنوا سکتا ہے کیوں کے اس کے ساتھ رشتہ جو ہے جبکہ عوام جن کی حیثیت انکی نظر میں نالی کے کیڑوں کے جتنی ہے انکے سینکڑوں بچے بھی شہید ہو جائیں تو انکی دندیاں اندر نہیں ہوتیں اور عین اس وقت جب ساری قوم سوگوار تھی تب شاہی کھابوں سے بھی انصاف ضروری تھا اور فوٹیج بھی تاکہ ان کو یاد رہے کہ مالک کو اپنی بھوک انکی اولادوں سے بہت پیاری ہے ۔ جب پورے ملک کو معصوم زینب کے ریپ اور قتل نے جڑوں سے ہلا دیا تھا اور ہر آنکھ اشکبار تھی تو اس کے قاتل پکڑے جانے کے بعد بادشاہ سلامت معہ مصاحبین فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ سٹیج پر براجمان تھے اور ہاتھ ہلا ہلا کر اپنی فتح بیان کر رہے تھے جبکہ اس وقت ان کو شرم سے زمین میں گڑ جانا چاہئے تھا کہ عشروں کی حکومت کے بعد بھی وہ ایک اچھا نظام نہ لا سکے ۔لیکن اس نااہلی کو وہ اپنی مسکراہٹ سے چھپا رہے تھے اور جب اس مجبور باپ نے کچھ کہنا چاہا تو سب کے سامنے اس سے مائیک چھین لیا گیا تاکہ وہ سب کے سامنے حقیقت اور اپنا کرب نہ بیان کر سکے ۔ مٹھی(سندھ) میں سینکڑوں معصوم بچوں کی اموات پر افسوس کرنے کے لئے ریڈ کارپٹ استقبال،لاوٗ لشکر کے مسکراتے چہروں اور ہٹو بچوں کے شور کے ساتھ غمگین اور بوجھل دل ماں باپ کے سامنے صرف اچھے بادشاہ ہونے کی ایکٹنگ کرنے کے لئے قوم کا لاکھوں روپیہ اجاڑنے اور لاحاصل وزٹ کر نے کے فن کو بھی سراہنا چاہئے ۔ اپنی نااہلی کے غم کو غلط کرنے کے لئے کی منعقد کی گئی ریلی میں کسی کے لخت جگر (جوشریک سفر بھی نہ تھا)کو اسکے خاندان کی مخالفت کے باوجودہاتھ ہلا ہلا کر زبردستی اسے قافلے کا پہلا شہید قراردیاگیااور انہیں ااس شہادت کی مبارکبادیں بھی دی گئیں۔ یہ ہوتے ہیں بادشاہ، یہ ہوتے ہیں حکمران ہم لوگ تو بھولے بادشاہ ہیں جو کسی کے رونے کو ڈرامہ سمجھتے ہیں کیوں کہ صدیوں سے ہم یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں اس لئے کسی کے سچے آنسو بھی لیکڈ وڈیو لگتے ہیں جبکہ یہی اینکر پرسنز اور میڈیا کے نمائندے غیر ملکی حکمرانوں کو آن سکرین افسردہ یا روتے ہوئے دیکھ کر ان کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے ہیں ۔ عربی کی کہاوت ہیـ"المرء یقیس علی نفسہ"کہ آدمی کو دوسرا آدمی بھی ویسا ہی لگتا ہے جیسا وہ خود ہوتا ہے۔