ایک صاحب نے اخبار میں اشتہار دیا کہ ہمیں ا ن خصوصیات کے
حامل ڈرائیور کی ضرورت ہے جو شادی شدہ ہو، صوم و صلواۃ کا پابند
ہو،عمررسیدہ اورلمبی سفید داڑھی والا ہو،عمر 50 سے اوپر ہونی چاہیے، حاجی
اور تہجد گذار ہو،ہ اضافی عمرے کرنے والے یا حافظ ِ قرآن کو ترجیح دی جائے
گی ۔کافی لوگ انٹرویو کیلئے آئے لیکن کسی نہ کسی میں کوئی نہ کوئی کمی نکل
آتی آخر کارمطلوبہ خصوصیات کا حامل 52 سالہ سفید داڑھی والا باریش شخص مل
ہی گیا جب انکو گاڑی کی چابی دی جانے لگی اس نے کہامیں گھر کے سربراہ سے
ملنا چاہتاہوں اہل ِ خانہ نے کہا کوئی بات ہے تو ہمیں بتادیں ڈرائیور نے
کہا میری جو شرائط ہیں میں گھر کے سربراہ کو ہی بتاؤں گا ناچار ڈرائیور کو
بڑے صاحب کے پاس لیجایا گیا انہوں نے ڈرائیور کو دیکھاپسندیدگی کااظہارکرتے
ہوئے پوچھا کیا بات ہے ؟ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے ڈرائیور نے کہا صاحب
میری بھی 3 شرائط ہیں۔ گھر کے سربراہ نے کہا بتاؤ
ڈرائیورنے کہا میری پہلی شرط یہ کہ گاڑی میں ٹیپ ریکارڈ نہیں بجے گا۔
سربراہ نے سرہلاتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے اب دوسری شرط کیاہے؟
ڈرائیورنے کہادوسری شرط یہ کہ نماز کے وقت گاڑی پارک کر کے نماز پڑھوں گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ شرط بھی منظور ہے تمہاری تیسری شرط کیا ہے ؟
ڈرائیور نے سنجیدگی سے کہا کہ مجھے گاڑی چلانی نہیں آتی آپ چلانا سکھائیں
گے یہ ایک سچا واقعہ ہے جو hamaray ساتھ بھی ہوگیا ڈھوندنے والوں نے اتنا
محب وطن انقلابی ڈھونڈا کہ جس کو ملک چلانا نہیں آتا کبھی ملک میں ٹماٹر
ندارد کبھی چینی مہنگی تو کبھی آٹا اور اس کو اپنی تنخواہ کی پڑی ہے کہ
جناب میرا اور میری بیوی کا دو لاکھ میں گذارا نہیں ہوتا جبکہ بیشتر لوگوں
کا کہنا یہ ہے کہ ارے بھئی پہلے گاڑی چلانا تو سیکھ لوپھر کوئی اور مطالبہ
کرنا۔یہ بات کرنے سے پہلے کپتان کو اس بات پر غورکرنا چاہیے تھا کہ عام
آدمی کا گذارا کیسے ہورہاہے؟ جن کا کوئی پرسان ِ حال نہیں وزیر ِ اعظم نے
اپنے حالات کا رونا سر محفل رویاہے عام آدمی کیا کرے جو اپنے دل کا حال کسی
کو سناتے ہوئے ڈرتاہے کہ اس یس اس کی اپنی جگ ہنسائی ہوگی شاید انہوں نے یہ
کہانی نہیں سنی ہوگی
کسی زمیندار کی بھینس نے دودھ دینا بند کر دیا، زمیندار بڑا پریشان ہوا وہ
بھینس کو لے کرڈنگر ڈاکٹر کے پاس گیا ڈاکٹر نے متواترکئی روزٹیکے لگائے
لیکن کوئی فرق نہ پڑا، تھک ہار کر وہ بھینس کو اپنے پیر صاحب کے پاس لے گیا
پیر صاحب نے دھونی رمائی، دم کیا، پھونک ماری
لیکن وہ بھی بے سود رہی بھینس کو کوئی فرق نہ پڑا۔ پھرزمیندارکسی کے مشورہ
پر بھینس کو کسی سیانے کے پاس لے کرچلا گیا، سیانے نے کئی دیسی ٹوٹکے
ازمائے لیکن وہ بھی بیکار ثابت ہوئے تنگ آکرآخر کارزمیندار نے سوچا کہ شاید
اس کا چارہ بڑھانے سے مسئلہ ٹھیک ہو جائے! خوب کھل بنولہ مکس کرکے کھلایا
،نمک چٹایا وقت پرپانی پلانے کا انتظام کیا زمیندار نے کسی چیز کی کسر نہ
چھوڑی لیکن بھینس نے دودھ دینا شروع نہ کیا۔ وہ تنگ آگیا روز روز کے علاج
سے عاجز و لاچار ہوکر وہ اسے قصائی کے پاس لیکر جانے لگا کہ یہ اب کسی کام
کی نہیں تو چلو بیچ دوں یا سودا نہ بنے تو ذبح کروا لوں،زمیندار بھینس لئے
جارہاتھا کہ راستے میں اسے ایک درویش ملا زمیندار کو دیکھتے ہی کہنے لگا
گلتاہے تم: پریشان ہو
زمیندار نے اسے اپنی پریشانی بیان کی، درویش نے پوچھا تم کٹا کہاں باندھتے
ہو؟ زمیندار بولا
بھینس کی کھْرلی کے پاس۔
درویش نے پھر پوچھا:
’’کٹے کی رسی کتنی لمبی ہے ؟
زمیندار بولا: کافی لمبی ہے! درویش مسکرایا اور پھربڑی متانت سے بولا
’’ سارا دودھ تو کٹا چْنگ جاتا ہے! تمہیں کیا ملے گا، خودسوچو بھینس دودھ
کیسے دے گی، کٹے کو بھینس سے دور باندھو! اب کپتان کو سمجھ آجانی چاہیے کہ
پاکستان کیوں ترقی نہیں کررہا۔ ان کا گذارا کیسے نہیں ہوتا ان حالات میں
کسی کا بھی گذارا نہیں ہوسکتا یہاں قدم قدم پر ملک کو لوٹنے والے دندناتے
پھرتے ہیں اور ان کا کوئی بال بیکانہیں کرسکتا ۔ لوگ مہنگائی ،بیروزگاری
اور ٹیکسز کی بھرمارسے تنگ آگئے ہیں اس جیسی صورت ِ حال کے تناظر میں آج کل
سوشل میڈیاپر ایک لطیفہ بڑا مشہورہورہاہے آپ بھی پڑھئے ایک آدمی سڑک پہ جا
رہا تھا ، پیچھے سے آواز آئی، رْک جا ورنہ مارا جائیگا
وہ آدمی رْک گیا دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں کے سامنے ہی ایک آئل ٹینکر
اچانک الٹا اور اس میں آگ بھڑک اْٹھی- وہ آدمی بال بال بچ گیا-
ا گلے ہی وہی آدمی اگلے روز باغ کی سیر کر رہا تھا کہ آواز آئی رْک جا ،
ورنہ مارا جائیگا- وہ آدمی اً فور جہاں تھا وہیں رْک گیا-عین سامنے ایک
درخت کڑکڑاتا ہوا اس کے چند قدموں کے فاصلے پرگرا اور وہ آدمی صاف بچ گیا
اس کے جسم سے پسینہ پانی بن کر بہنے لگا اس نے خداکا شکرادا کیا۔ وہی آدمی
اگلے روز پچاس روپے کی دہی لینے دودھ کی دکان پہ جارہا تھا کہ آواز آئی رْک
، ورنہ مر جائے گا- وہ رْک گیا- اسی وقت سامنے والے کھمبے سے ایک تار ٹوٹ
کر گری ایک بھینس پر گری اس نے تڑپ تڑپ کر جان دیدی ، اور وہ پھرآدمی صاف
بچ گیا
چند دنوں وہی آدمی موٹر سائیکل پر اپنے دفتر سے گھرجانے کے لئے نکلا ابھی
کچھ دورہی گیا ہوگا و ہی آوازگونجی رْک جا ورنہ مارا جائیگا اس نے فوراً
بریک لگائی گھبرا کر وہی موٹر سائیکل کھڑا کر ابھی فٹ پاتھ پر چڑھا ہی تھا
نہ جانے کہاں سے ایک بے قابو بس موٹر سائیکل کو روندتی ہوئی سامنے آتی جیپ
سے جا ٹکرائی اب وہ شخص وہیں سر پکڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔اور بولا:
’’ اے میرے مددگار، تو اس وقت کہاں تھا جب میں پی ٹی آئی کو ووٹ دے رہا تھا
وہی نادیدہ آواز پھر آئی
آوازیں میں نے تب بھی بہت دی تھیں ، لیکن تیرے ڈی جے نے بیک گراؤنڈ میْوزک
بہت اْونچا کر رکھا تھا اور تم
" عمران خان دے جلسے اچ ، اج میرا نچنے نوں جی کردا " نامی گانے پر ٹھمکے
مار رہے تھے۔
|