بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

’’ایک غیر آباد کچے مکان میں بہت سے چوہے رہتے تھے ۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کررہے تھے۔ چوہوں کی بدقسمتی اُس وقت شروع ہوئی جب ایک بلّی نے وہ مکان ڈھونڈ لیا۔ اتنے چوہوں کو دیکھ کر اُس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کیوں کہ اب اس کی غذا کا مستقل انتظام ہو گیا تھا۔ جب کبھی اس کو بھوک لگتی تو وہ اس مکان پراچانک چھاپہ مارتی ،کئی چوہے اس کے ہتھے چڑھ جاتے اور خوب مزے سے اپنی بھوک مٹاتی۔ بلّی کے آئے روز حملوں سے چوہوں کے اندر تشویش و پریشانی کی لہر دوڑ گئی کیوں کہ اُن کی تعداد میں کمی واقع ہونے لگی تھی۔ چوہے اس بلّی سے نجات چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے ایک اجلاس بلایا۔ اس کا یک نکاتی ایجنڈا یہ تھا کہ اس صورت حال سے کیسے نبٹا جائے۔ باری باری چوہے تجاویز دیتے رہے ، کئی تجاویز پر غور و فکر کیا گیا۔ ایک چالاک چوہے نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جائے ۔ جب وہ آئے گی تو گھنٹی کی آواز سے ہمیں پتہ چلے گا اور ہم سب چھپ جایا کریں گے۔سب چوہوں کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور خوشی سے اُچھلنے لگے کہ مسئلے کا حل انہیں مل گیا ہے ۔ اس پر ایک بوڑھے چوہے نے کہا کہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ مسئلہ ابھی بھی جوں کا توں حل طلب ہے۔ چوہوں نے حیرت سے پوچھا ۔ ’’ وہ کیسے ؟ ‘‘ بوڑھے چوہے نے جواب دیا کہ بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا کیوں کہ جو بھی اس کے قریب جائے گا وہ اُسے دبوچ کر کھا جائے گی۔ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور سب مایوس ہوکر اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔‘‘ یہ کہانی اس نتیجے پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ باتیں کرنا آسان ہے لیکن اُن پر عمل کرکے دکھانا مشکل ہوتا ہے۔ کورونا وائرس سے پیدا موجودہ صورت حال میں ہر کوئی اس بات کی تلقین کر رہا ہے کہ گھرمیں رہیں ، محفوظ رہیں لیکن تاسف سے کہنا پڑتا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے ، یعنی بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ ڈاکٹر ہوں یا اینکر پرسن ، حکومت کے رہنما ہوں یا حزب اختلاف ، بچے ہوں یا بوڑھے ، استاد ہوں یا طالب علم ، جج ہوں یا وکلاء ، کالم نگار ہوں یا ڈرامہ نگار، کھلاڑی ہوں یا فن کار سب کا یہی پیغام ہے کہ گھرمیں رہیں ، محفوظ رہیں۔ لیکن بات وہیں پہ آکر اٹک جاتی ہے کہ بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ؟

گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد جب مزید چودہ دن لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اورساتھ میں یہ بھی کہا کہ رمضان المبارک کے دوران باجماعت نماز ، نماز جمعہ ، تراویح اور اعتکاف سے متعلق فیصلہ اٹھارہ اپریل کو کیا جائے گا مگر مفتی منیب الرحمن و دیگر علماء نے اسی دن اعلان کردیا کہ مساجدمیں لاک ڈاؤن نہیں ہوگا اور باجماعت نماز کا سلسلہ جاری رہے گا۔ حکومت اور علماء کے مابین پیدا شدہ اس کشیدہ صورت حال کے پیش نظر ہفتے کے روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیر صدارت تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام و مشائخ عظام کا اجلاس ہوا جس میں رمضان المبارک کے دوران مساجد اور امام بارگاہوں میں باجماعت نمازوں اور نماز تراویح سے متعلق معاملے پر اتفاق طے پاگیا۔ اجلاس کے بعد بیس نکاتی متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا ، اعلامیے کے مطابق رمضان المبارک میں مساجد اور امام بارگاہوں میں باجماعت نماز یں اور نماز تراویح ادا ہوں گی تاہم نمازیوں اور صفوں کے بیچ چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا لازمی ہوگا ، قالین اور دریاں نکال دی جائیں گی اور فرش پر نماز ادا کی جائے گی ، مجمع لگانے سے گریز کیا جائے گا ، پچاس سال سے زیادہ عمر کے افراد ، نابالغ بچے اور کھانسی ، نزلہ اور زکام وغیرہ کے مریض مساجد اور امام بارگاہوں میں نہیں آئیں گے۔ مساجد اور امام بارگاہوں کے فرش کلورین ملا پانی سے دھوئے جائیں گے ۔ نمازی ماسک کا استعمال کریں گے ، وضو گھر سے کرکے آئیں گے اور ہاتھ نہیں ملائیں گے ۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ موجودہ صورت حال میں یہ بہتر ہوگا کہ اعتکاف گھروں میں کیا جائے اور مساجد و امام بارگاہوں میں اجتماعی سحری و افطاری کا انتظام نہ کیا جائے۔ اگر رمضان المبارک کے دوران حکومت یہ محسوس کرے کہ ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا ہے یا کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو حکومت دیگر شعبوں کی طرح مساجد و امام بارگاہوں کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کرے گی۔حکومت اور علمائے کرام کے درمیان اس اہم مسئلے پر متفق ہونا ایک خوش آئندہ بات ہے لیکن شہریوں کا ان احتیاطی تدابیر پر عمل یقینی بنانا مساجد و امام بارگاہوں کی کمیٹیوں اور پولیس کے لئے ’’ بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ؟ ‘‘ کے مصداق ایک مشکل امر ہوگا۔ یاد رہے کہ اس وقت ملک بھر میں پانچ لاکھ سے زائد مساجد اور امام بارگاہیں ہیں۔ صرف صوبہ پنجاب کی بات کی جائے تو صوبہ بھر میں اس وقت باون ہزار سے زائد مساجد ہیں جن میں صرف ساڑھے چار سو مساجد محکمہ اوقاف و مذہبی اُمور اور دوہزار مختلف مسالک کے نظم و نسق میں ہیں جب کہ اُنچاس ہزار سے زائد مساجد کا نظم و نسق مخیر حضرات اور علاقے کے افراد چلا رہے ہیں، یعنی ان پر بیس نکاتی اتفاق رائے پر عمل درآمد کرنا محکمہ اوقاف اور مختلف مسالک کا کام نہیں ہے۔ پس ان حقائق کی روشنی میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران مساجد اور امام بارگاہوں میں عبادات کے لئے بیس نکات پر عمل درآمد کو ن یقینی بنائے گا؟ یعنی باالفاظ دیگر بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 205 Articles with 265567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.