”میں اپنے پاپا کا مڈر کرنا
چاہتی ہوں“ میں نے اپنی پتلیاں دا ہنی طرف گھمائیں،نسوانی عینک کے سفید
شیشوں کے پیچھے اُس کی پتلیاں بائیں طرف کو آخری حد تک مڑی ہوئی تھیں، ناک
میں ننھا سا سفید پھول چمک رہا تھا، اور آنکھوں میں میری اپنی پرچھائیں کے
سوا اور کچھ نہ تھا۔”کیوں انہوں نے ایسا کیا کیا ہے“میں نے اپنے لہجے میں
بے ساختگی پیدا کرتے ہوئے پوچھا، جیسے مجھے اس کی بات پر کسی طرح کی حیرت
ہی نہ ہو ۔” نہیں اس لیے نہیں کہ انہوں نے کچھ کیا ہے بلکہ اس لئے کہ انہوں
نے کچھ کیا ہی نہیں“اس بار اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی، شاید
اسے یہ توقع تھی کہ میں اس کی ستائش کروں گا۔”مگر انہوں نے تمہیں پیدا کیا
اور پال پوس کر اتنا بڑا کردیااور اب تمہیں پڑھا لکھا رہے ہیں کیا یہ کم
ہے؟“میں نے اس کی توقع کے بالکل برعکس سوال کیا۔”یو ،شٹ اپ“اس نے برا سا
منہ بنایا اور پھر کوئی دوسرا جواب سوچنے لگی۔
” میں اپنے ابو کو واپس لانا چاہتی ہوں، کیونکہ میں ان سے بہت پیار کرتی
ہوں“اس کے برابر والی لڑکی نے جواب دیا تھا۔میں اس سے ایک لڑکی کے فاصلے پر
تھا مگر اس کی چھوٹی چھوٹی خوبصورت آنکھوں میں محبتوں کی پرچھائیاں بآسانی
دیکھ سکتا تھا۔میں نے نگاہ اٹھائی ، سب خاموش تھے اور ان کی آنکھوں میں درد
کی لکیریں ابھر آئی تھیں۔”یار کچھ بتاؤ نا میں کیا بولوں، میری تو کچھ سمجھ
میں ہی نہیں آرہا“وہ پریشان دکھائی دے رہی تھی ،شاید وہ اپنے پہلے والے
جواب سے مطمئن نہیں تھی، یا اسے یہ ڈر تھا کہ دوسرے لڑکے اور لڑکیاں اس پر
ہنسیں گی۔آخر اپنے باپ کے قتل کی بات سوچنا مکھی مارنے کی بات سوچنے جیسا
تو نہیں مگر مشکل یہ تھی کہ اسے ابھی تک کوئی معقول جواب بھی نہیں سوجھا
تھا اور اس کی باری آچکی تھی۔”تم یہ بھی کہہ سکتی ہو کہ میں اپنی جاب
چھوڑنا چاہتی ہوں، کیونکہ مجھے کمپنی کا مالک پسند نہیں“اس نے کل مجھ کو
اپنی جاب چھوڑنے کے بارے میں بتایا تھا، مجھے وہی بات اچانک یا د آگئی اور
میں نے اسی کے ذہن کی بات اس کی طرف لوٹا دی۔”او کھے“ اس نے ذرا اتراتے
ہوئے کہا۔اسے یہ جواب بہت زیادہ پسند تو نہیں آیا تھا مگر اب اس کو قبول
کرلینے کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، کیو نکہ اس کے پاس وقت نہیں بچا
تھا۔او ر جیسے ہی میم نے اس سے پوچھا۔”اگر تمہیں یہ اختیار دیا جائے کہ تم
ماضی کی کوئی ایک چیز بدل سکو تو وہ کونسی چیز ہو گی جسے تم بدلنا چاہو گی
اور کیوں؟“ اس نے بنا سوچے میرے ذریعہ بتایا گیا جواب دہرا دیا۔اور ایک
گہری لمبی سانس لی ،جیسے اسے کسی گھٹے گھٹے ماحول سے نجات مل گئی ہو۔اس کو
اپنے دل پر چھاؤں جیسی ٹھنڈک کا احساس ہوا جیسے دھوپ میں جھلستا ہوا مسافر
سائے میں آ بیٹھے۔
اب میری باری تھی، مجھے تو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ مجھے بھی کوئی جواب دینا
ہے۔ میرا تو سارا وقت سارا کے پہلے جواب کے بارے میں سوچنے ہی میں ختم
ہوگیا تھا، آخر کے چند منٹ جو میرے پاس بچے تھے وہ بھی سارا کے لئے ایک
معقول سا جواب سوچنے میں صرف ہوگئے۔اس وقت مجھے اپنے آپ پر غصہ آیا کہ آخر
میں یہاں سارا کے لیے آتا ہوں یا اپنے بہتر مستقبل کے لیے۔مجھے مستقبل یا
سارا میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا۔مگر جب اس طرح کے اختیار کی بات آتی ہے
تو پتہ نہیں کیوں ایسا ہوتا ہے کہ فیصلہ کرنے کی میری قوت گویا ماند پڑ
جاتی ہے۔”اینڈ یو، تھنویروھاٹ ڈو یو تھنک“ میں نے سر اٹھایا،میم مجھ سے
مخاطب تھیں۔ میرا پورا نام تنویر احمد ہے ، مگر میم مجھے صرف تنویر کہتی
ہیں ،کبھی کبھی مجھے برا بھی لگتا ہے۔ ایک تو یہ صرف آدھا نام لیتی ہیں اور
وہ بھی ٹھیک سے نہیں لیتیں۔
یہ ایک بڑا سا کلاس روم تھا ، جس میں تین اطراف کی دیوار وں سے ملحق آٹھ دس
میزیں ایک دوسری سے ملا کر لگائی گئی تھیں اور ہر میز کے پیچھے تین تین
کرسیاں تھیں، چوتھی دیوار پر جو میرے دا ہنی طرف ایک گز کے فاصلے پر تھی
بڑا سا سفید بورڈ لگا ہوا تھا۔جس پر ہماری انگریز میم ہر وقت کچھ نہ کچھ
لکھتی رہتیں تھیں،میں بائیں طرف والی آخری میز کے آخری سرے پر رکھی ہوئی
کرسی پر بیٹھا تھا۔ میم نے اپنے داہنے طرف سے پوچھنے کا سلسلہ شروع کیا
تھا۔اس طرح میں جواب دینے کے لیے آخری طالب علم باقی رہ گیا تھا۔ باقی سارے
طلبہ چونکہ اپنے اپنے جوابات دے چکے تھے اس لیے وہ سب پرسکون تھے اور اپنی
تمام تر توجہات کے ساتھ میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے میم کو اپنے سر پر
کھڑے ہوئے دیکھا تو ایک دم گھبرا سا گیا۔ اتنی عجلت میں کچھ سوچنا محال
تھا، کم از کم کوئی معقول سا جواب تو بہرحال نہیں سوچا جاسکتا تھا”میں ماضی
کی تمام یادوں کو بھلا دینا چاہتا ہوں، کیونکہ یہ مجھے تکلیف دیتی ہیں“عین
اسی لمحے میں میری زبان پر جو کچھ آسکا کہہ دیا۔ مجھے لگا جیسے میری روح
بھاری پتھر کے نیچے آگئی تھی اور اب آزاد ہوگئی۔ساتھ ہی مجھے یہ احساس بھی
ہوا کہ میں نے سب سے زیادہ معقول جواب دیا ہے۔مجھے لگا جیسے اس میں یک گونہ
ادبی لطافت آگئی ہے۔ایسا جواب تو کسی نے بھی نہیں دیا تھا،سب نے اپنی
ذات،اپنے خاندان یا پھر زیادہ سے زیادہ اپنے ملک سے جڑی ہوئی مادی اور ظاہر
ی پریشانیوں کے سد باب کے متعلق سوچا تھا اور ان کی کوئی نہ کوئی ایسی وجہ
بتائی تھی کہ اس کو اگر پڑے لکھے لوگوں کے درمیان اور خاص کر ادیبوں کے
درمیان بیان کردیا جائے تو وہ برافروختہ ہوجائیں اور پوری نئی نسل پر “بے
ادب نسل ” ہونے کا لیبل لگا دیں۔
مگر ابھی تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ مجھے ایک بار پھر اپنی روح پر بھاری
پتھر کا احساس ہوا۔مجھے یہ جواب اس شعر کی وجہ سے سوجھا تھا ”یادماضی عذاب
ہے یارب/چھین لے مجھ سے حافظہ میرا“یہ شعر میں نے بچپن میں کبھی سنا تھا
اور آج تک یاد تھا،اگر ماضی کی یادیں نہ ہوتیں تو میں آج اتنے مختصر وقت
میں اور وہ بھی ایک الجھے ہوئے دماغ کے ساتھ اتنا پرکشش جواب کیسے سوچ سکتا
تھا۔ آخر ماضی کی ایک یاد ہی کی وجہ سے تو مجھے یہ جواب سوجھا تھا ، دھیرے
دھیرے مجھ پر اپنے جواب کی غیر معقولیت واضح ہونے لگی۔میں بھی کتنا خر دماغ
ہوں، آخر میم کیا سوچیں گی میرے بارے میں اور دیگر لڑکے لڑکیاں کیا خیال
کریں گی۔ مجھے لگا جیسے سب طالب علم من ہی من میں مجھ پر ہنس رہے ہیں۔میں
نے دزدیدہ نگاہوں سے ان کے چہروں اور آنکھوں کو دیکھا، مگر وہاں کچھ بھی
نہیں تھا، وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے۔
میں نے اپنی نظریں واپس لوٹائیں اور سارا کی طرف دیکھا،وہ اپنے موبائل پر
میسج لکھ رہی تھی۔آج بھی کلاس جلدی ختم ہوجائے گی اور یہ آج پھر اپنے دوست
کے ساتھ آئس کریم کھانے جائے گی۔ شاید یہ اسی کو میسج کررہی ہوگی۔میں نے
اپنے دل میں سوچا اور چوری چھپے میسج پڑھنے کی کوشش کی،اس کوشش میں اپنی
گرد ن کو بار بار اچکایا پر کچھ دکھائی نہیں دیا،بس چند حروف بنتے بگڑتے
نظر آئے۔پھر اس کے سراپا پر نظر کی ،اس بار وہ ایک عام سی لڑ کی کی طرح
دکھائی دے رہی تھی، اس کا وہ خوبصورت لمبوترا چہرہ جس کو نظر بھر کر دیکھنے
کے لیے میں اکثر کلاس کے وقت سے دس منٹ پہلے ہی پہونچ جایا کرتا تھا، محض
اس اتفاق کے بارے میں سوچ کر کہ کیا پتہ وہ آج جلدی آجائے اور میں دیگر
طلبہ کی عدم موجود گی میں اس کو نظر بھر کر دیکھ سکوں گا، اب اس کا وہ
مانوس چہرہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا جیسے شہر میں سوکھا پڑ گیا ہو اور اسے
منہ دھونے کے لیے پانی نہ مل سکا ہو۔میں نے محسوس کیا کہ اس کی ستواں ناک
کے پھول کی چمک بھی ماند پڑگئی ہے،مگر اس نے ایسا کیا کیا تھا کہ اس کے
بارے میں میرا نظریہ بدلنے لگا تھا اور اس کے بدن کی خوشبو جو مجھے دیر تک
اس کے قریب بیٹھے رہنے پر آمادہ کرتی تھی پسینے جیسی بدبو میں بدل گئی
تھی۔بس اس نے اپنے ایک خیال کا اظہار ہی تو کیا تھا اور وہ بھی کوئی سر عام
نہیں کیا تھا بلکہ صرف مجھ سے کیا تھا سرگوشی کے انداز میں اس کا مطلب ہے
کہ وہ مجھ پر اعتماد کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ محض مذاق میں کہہ رہی ہو، یا
مجھے زچ کرنا چاہتی ہو ، کل کسی بات پر میں نے بھی تو اس کا مذاق اڑایا
تھا۔اس نے اگر اپنے پاپا کو قتل کرنے کی بات کہہ بھی دی تو کیا ہوا ، بس
کہہ دینے سے وہ قتل تو نہیں ہوگئے نا میں نے خود کو بہت سمجھانے کی کوشش کی
مگر میرے اندر کا مسلمان نما انسان کسی قیمت پر راضی نہ ہوا، میں نے اسے
اِس طرح بھی سمجھایا کہ آخر تم ایک افسانہ نگار ہو اور کسی افسانہ نگار کا
اخلاقیات سے متعلق افکار کو اتنی زیادہ اہمیت دینا مناسب نہیں، اس فکر کا
براہ راست اثر تمہارے فن پر بھی پڑ سکتا ہے۔اخلاقیات سے متاثر فکرو فن دیر
وحرم کے لئے چھوڑ دو۔تمہارے لیے اور بہت سارے موضوعات ہیں،جیسے حورو قصور،
طاؤس ورباب،بادہ وساغر، تیشہ وفرہاداور شیشہ وآہناوراور لمس کی خوشبو، بدن
کی جمالیات اگتے سورج کا کرب اور اور ڈھلتے چاند کی پراسراریات تمہارے لیے
تو ہزاروں موضوعات ہیں۔تم اس آباد خرابے میں اخلاقیات کی بات کر کے آخر کیا
حاصل کر لو گے میں سوچ سوچ کر نئے نئے موضوعات بتانے لگا ۔مگر وہ نہیں مانا
اور اس کا طنطنہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔مجھے اس
کے مسلمان نما ہونے پر پہلی بار خوشگوار ی کا احساس ہوا، اگر یہ مسلمان
ہوتا تو کیا ہوتا، اچھا ہی ہے کہ یہ مسلمان نما ہے۔
مجھے امریکن انگلش اسپیکنگ سینٹر جوائن کئے ہوئے ایک ماہ گزرچکا تھا، سارا
بھی میرے ساتھ ہی آئی تھی، شروع کے کچھ دن تو یونہی گزر گئے ، شروع شروع
میں وہ خاموش خاموش اور الگ تھلگ رہتی تھی ،مگر جب وہ ایک دن میرے پاس والی
کرسی پر بیٹھی تو میں نے اس کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کردیں۔ او ر اب
ہمارے درمیان اس ایک لڑکے کے سوا اور کوئی نہیں تھا جو ہر دوسرے تیسرے روز
اس کو آئس کریم کھلانے آیا کرتا اور باہر گیٹ پر کھڑا اس کے نکلنے کا
انتظار کرتا رہتا۔میرے اندر کا مسلمان نما انسان کبھی سوجاتا اور کبھی جاگ
جاتا، جب وہ سویا ہوا ہوتا تو میں سارا کے بدن کی خوشبو میں بڑی جاذبیت
محسوس کرتا اور جب وہ جاگتا ہوا ہوتا تو مجھے یہ خوشبو پسینے کی بدبو کی
طرح محسوس ہوتی۔جب وہ سویا ہوا ہوتا تو مجھے اس لڑکے پر رشک آتا ،آخر وہ
اتنی خوبصورت لڑکی کو آئس کریم کھلا تا ہے یہ کوئی کم اہم بات نہیں ذرا اس
کے دل سے پوچھو، اسے تو اس کے پہلو میں جنت کا گماں گزرتا ہوگا۔اور جب وہ
بیدار ہوتا تو مجھے اس پر غصہ آتا اور پھر ترس بھی۔ مجھے لگتا جیسے بھولاپن
اس کے چہرے سے ٹپک رہا ہے، آخر جو لڑکی اپنے پاپا کے بارے میں اتنے جارحانہ
خیالات رکھتی ہے وہ اس بھولے بھالے لڑکے کو کہاں تک خاطر میں لاتی
ہوگی۔جتنی دیر آئس کریم کی ٹھنڈک اس کو اپنی آنتوں میں محسوس ہوتی ہوگی بس
اتنی ہی دیر تک وہ اس کے بارے میں اچھا سوچتی ہوگی۔
”کلاس از ڈس مس“ میم کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی اور میں اپنے خیالات
سے باہر آیا۔ سارا نے اپنا پرس سنبھالا اور میری طرف دیکھے بنا تیز تیز
قدموں سے باہر نکل گئی۔مجھے لگا کہ مجھے اس کے ساتھ جرح نہیں کرنی چاہئے
تھی، وہ روز مجھے ہیلو کر کے جاتی تھی اور آج مجھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔
آخر مجھے کیا مل گیا اس کے جواب پر غیر قیاسی سوال قائم کر کے۔وہ اپنے باپ
کو کوئی مارنے تھوڑی نا جارہی تھی۔وہ بس ایک بات تھی جو اس کی زبان پر آگئی
اور اس نے بے سوچے سمجھے اگل دیا اس عمر میں ایسا اکثر ہوتا ہے اور اکثر
لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے میرا جی چاہا کہ دوڑ کر اس کے پیچھے جاؤں اور اس سے
معذرت کروں مگر پھر میں کچھ سوچ کر رک گیا اپنی چاہت کے لیے اتنا گرنا بھی
اچھا نہیں پھر مجھ میں اور اس بھولے بھالے لڑکے میں فرق ہی کیا رہ جائے گا
اور اس پر غصہ کرنے یا ترس کھانے کا کیا جواز پیدا ہوگا میرے اٹھتے ہوئے
قدموں میں جیسے بریک لگ گئے۔پھر مجھے یہ ڈر بھی تھا کہ اس طرح تو میں اس
لڑکے کی نظر میں آجاؤں گا اور وہ مجھ سے نفرت کرنے لگے گا میں نے اس کے
پیچھے جانے کا ارادہ ترک کردیا۔
دن بھر کا تھکا ماندہ آفتاب آسمان کے مشرقی کناروں کی اوٹ میں ڈوب رہا تھا
ٹھنڈ میں شدت پیدا ہوتی جارہی تھی اور میں اپنے دماغ میں بے سدھ خیالات کی
دہکتی ہوئی جہنم لیے اپنے مکان کا زینہ چڑھ رہا تھا۔ کہ دفعتاً اپنے بیٹے
کے رونے کی آواز سنی اور میں بھاگنے کے سے انداز میں زینہ چڑھنے لگا۔ابھی
میں گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ میرے بیٹے نے اپنے پڑوسی بچوں کے خلاف
شکایات کا پٹارا کھول دیا۔کس نے، کہاں، کب ، کس طرح اور کیوں اسے مارا تھا
ایک ایک بات تفصیل سے بتانے لگا۔ میرا دل بیٹھنے لگا۔ میں اس کے آنسو
پونچھتا جاتا اوراپنے پڑوسیوں کے عذاب سے چھٹکارا پانے کے متبادل پر غور
کرتا جاتا۔اتنے میں بیگم نے مٹھائی کا ڈبہ میرے سامنے رکھا اور بتایا کہ
ہمارے اوپر فورتھ فلور پر جو آنٹی رہتی ہیں انہوں نے بھیجا ہے”کس خوشی
میں“میں نے مختصراً پوچھا۔”کل رات ان کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے۔“لڑکی کے
نام سے میرا ذہن ایک بار پھر سارا کی طرف منتقل ہوگیا۔ آخر وہ کیوں اپنے
پاپا کو مارنا چاہتی ہے۔ اس کے رہن سہن اور لباس سے تو بالکل نہیں لگتا تھا
کہ اس کے پاپا نے اس کے لیے کچھ نہیں کیا ہوگا۔ وہ شہر کے پوش علاقے میں
رہتی ہے،اس علاقے میں اپنا ذاتی گھر ہونے کا مطلب تو یہی ہے کہ وہ کم از کم
مڈل کلاس کی ضرور ہوگی، اس کے پاس مہنگا ترین بلیک بیری موبائل دیکھ کر
کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کسی غریب گھر کی لڑکی ہے اور اس کے
باپ نے اس کے لیے کچھ نہیں کیا ہوگا۔میں نے اس وقت سے لے کر اب تک تمام
ظاہر ی اسباب پر غور کیا مگر مجھے کہیں سے بھی یہ سراغ لگانے میں مدد نہ
ملی کہ وہ اپنے پاپا سے اتنی نفرت آخر کس وجہ سے کرتی ہے۔اور جو وجہ اس نے
بتائی ہے وہ اتنی معقول نظر نہیں آتی، اب میں اس کے من میں جھانک کر تو
نہیں دیکھ سکتا تھا اور ویسے بھی مجھے ان باتوں سے الجھن ہوتی ہے، اس لیے
میں نے اس خیال کو جھٹک دیا اور مٹھائی کے ڈبے سے ایک گلاب جامن نکال کر
کھانے لگا۔بے خیالی میں گلاب جامن کا رس میرے منہ کے بائیں کنارے سے بہہ
نکلا۔”یہ لڑکیاں روزانہ کیوں نہیں پیدا ہوتیں“ میں نے منہ سے ٹپکتا ہوا رس
صاف کیا اور بیگم سے مضحکہ کرنے لگا۔”کیوں“ بیگم نے مجھے چمکتی آنکھوں سے
دیکھا۔” کم از کم اسی بہانے روز روز مٹھائی کھانے مل جایا کرے گی“مجھے
اگروال کی مٹھائیاں بچپن ہی سے بہت پسند تھیں، آج جب کئی دنوں بعد مجھے
اگروال سوئیٹ کی گلاب جامن کھانے مل رہی تھیں تو اس کے من پسند ذائقہ سے
مجھ پر ایسا سحر طاری ہوا کہ قوت ذائقہ کے علاوہ میری باقی تمام قوتیں جیسے
سلیپنگ موڈ میں چلی گئیں۔ مجھے جب اس چیز کا احساس ہوا کہ اس وقت میری قوت
ذائقہ کے علاوہ اور کوئی قوت کام نہیں کررہی ہے تو مجھے یک گونہ کوفت ہوئی
، کیا میں اتنا گر گیا کہ میری فکر محض کھانے پینے کی چیزوں کے اطراف ہی
گردش کرتی رہے۔ جیسے مکھیاں حلوائی اور قصائی کی دکان کے اطراف منڈلاتی
رہتی ہیں۔ کہاں مکھیاں، حقیر اور ذلیل مخلوق اور کہاں میں ، اشرف المخلوقات
، پڑھا لکھا آدمی۔مجھے اپنے اندر سے بھی اسی طرح بدبو آنے لگی جس طرح ابھی
کچھ دیر پہلے سارا کے وجود سے پسینے جیسی بدبو آرہی تھی۔مگر پھر ایک دم
خیال آیا کہ چلو اچھا ہی ہوا کہ اس بہانے بے معنیٰ افکار سے کچھ دیر کے لیے
نجات تو ملی۔ ”اونہوں میرے ہیں میں کھاؤں گا سب“ میں نے دوسرے گلاب جامن کے
لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ میرا بیٹا ایک دم چیخ اٹھا۔ ”ہٹ ماردوں گا تمہیں
امی لائی ہیں میرے لیے آپ نے تھوڑی لاکر دئے ہیں کوئی“ میں نے جس سرعت سے
ہاتھ آگے بڑھایا تھا اسی سرعت سے واپس کھینچ لیا۔ کتنی عجیب بات ہے ، یہ
ابھی بھی اپنے ہم عمر بچوں سے مار کھاکر آیا ہے ابھی تو اس کی سبکیاں بھی
ختم نہیں ہوئیں اور مجھے کس ڈھٹائی کے ساتھ مارنے کے لیے کہہ رہا ہے۔ آج
پہلی دفعہ مجھے خوف کی اس نفسیات کا صحیح علم ہوا جو اپنے اور غیروں سے
متعلق ہوتی ہیں اور اسی کے ساتھ گیارہ بیبیوں والی حدیث میں اس بی بی کا
اپنے شوہر سے متعلق ریمارک بھی یاد آیا، جس میں وہ کہتی ہے کہ میرا شوہر جب
گھر میں ہوتا ہے تو شیر ہوتا ہے اور جب باہر ہوتا ہے تو گیدڑ ہوتا ہے۔ابھی
میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ چلو عارضی طور پر ہی سہی کم از کم مجھے ان تکلیف
دہ فکروں اور الجھنوں سے نجات تو ملی، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ اس قدر
عارضی ہوں گی، ان سے زیادہ تو برساتی کیڑوں کی زندگی ہوتی ہے۔ایک بار پھر
میرا دماغ پھرکی کی مانند گھومنے لگا اور سارا ایک بار پھر میرے دماغ کی
کھڑکی پر آ کھڑی ہوئی آخر سارا ایسا کیوں سوچتی ہے؟ شاید اس کی سوچ کے
پیچھے صدیوں کا کرب ہے جو عمل اور رد عمل کے فطری قانون کے تحت عورتوں کے
وجود سے غبار کی طرح لپٹا رہتا ہے اور پھر انتہائی طویل عمل[لانگ پروسس] کے
بعد کسی سارا کی زبان پر آجاتا ہے۔”مگر یہ خواہش کے بے لگا م ہونے کا نتیجہ
بھی تو ہوسکتا ہے۔“میرے اندر کے مسلمان نما آدمی نے لقمہ دیا۔ کیا ساری
لڑکیاں اسی طرح سوچتی ہیں؟ مگر وہ لڑکی جس نے اپنے باپ کے زندہ ہونے کی
تمنا کی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ وہ اپنے باپ سے بہت محبت کرتی ہےکتنی معصوم
اور بھولی دکھائی دے رہی تھی وہ اس وقت شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اسے اپنے
باپ کا پیار نہیں مل سکا تھا۔وہ تو اسے دودھ پیتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
جب اس کی ماں اسے دودھ پلاتی تھی تو اس کے باپ کو شدت سے یاد کرتی تھی اور
پھر یہی یا دودھ کے راستہ اس کے دل وماغ میں راسخ ہوگئی اگر پرانی یادیں نا
ہوتیں ، تو یہ لڑکی اپنے باپ کے دوبارہ لوٹ آنے کی تمنا کیسے کرپاتی ایک
بار پھر مجھے اپنے جواب کی غیر معقولیت سمجھ میں آئی اب وہ روٹی کھائے یا
دودھ پئے ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے اس کے باپ کی یاد تو اس کے دل ودماغ میں
بس چکی ہےاب وہ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اپنے باپ کو یاد کرتی ہے اور ان
کے واپس لوٹ آنے کی تمنا کرتی ہے تاکہ وہ ان سے اپنے حصہ کا پیار حاصل
کرسکےتو کیا اس کے پیچھے بھی خود غرضی چھپی ہوئی ہے؟یا پھر یہ بات ہے کہ
مردہ آدمی سے محبت کرنے کے لئے کچھ کرنا نہیں پڑتا جبکہ زندہ آدمی سے محبت
کے لیے اس کے حقوق ادا کرنے پڑتے ہیں، اسے وقت دینا ہوتا ہے اور اس کے لئے
پیسہ خرچ کرنا ہوتا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی کڑوی کسیلی باتیں
بھی سنی پڑتی ہیں آخر مجھے اپنے نانا نانی اور دادا دادی سے اتنی محبت کیوں
نہیں جتنی محبت اس لڑکی کو اپنے مرحوم باپ سے ہے؟اسی لیے نا کہ وہ باحیات
ہیں او رمیں ان کی خدمت کرتے کرتے تھک جاتا ہوں تو محبت ٹیس بن کر میرے رگ
وپے کے مسامات سے نکلتی ہے اور دھوئیں کی طرح اڑ جاتی ہے محبت تو شاید ایک
برہنہ شے ہے اور ہم اِسی برہنگی سے پیار کرتے ہیں برہنگی جسے کفن کے علاوہ
اور کوئی چیز نہیں ڈھانپ سکتی تو پھر کیا ہے یہ سب؟پتہ نہیں کچھ بھی ہوسکتا
ہے انسانی نفسیات کو آج تک کس نے جانا ہے-
مجھے ایک باپ کی اس عجیب وغریب درگت پر ہنسی بھی آئی اور رونا بھی آیا۔
جیسے اسے کسی اندھے کنویں میں الٹا لٹکا دیا گیا ہو۔ ایک خواہش ہے جو زندہ
باپ کو مارنا چاہتی ہے اور ایک تمنا ہے جو مردہ باپ کو زندہ کرنا چاہتی
ہے۔مجھے لگا کہ ہر باپ ایک خواہش اور ایک تمنا کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔شاید
یہ اس وجہ سے ہے کہ میں خود ایک باپ ہوں، اگر میں باپ نہ ہوتا تو مجھے نہ
رونا آتا اور نہ ہنسی آتی مجھے پہلی بار اپنے باپ ہونے سے کراہت محسوس ہوئی
مگر اللہ گواہ ہے اس میں میری خواہش کو کچھ دخل نہیں پھر بھی ہم خواہی نہ
خواہی باپ بن ہی جاتے ہیں-
اس کے علاوہ باقی تمام طالب علموں کو جواب دینے کے لیے مغزماری کرنی پڑی
تھی مگر اس لڑکی کو تو جیسے کچھ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑیاس نے منہ کھولا
، اپنے لب لعل بدخشاں کو جنبش دی اورانتہائی آسانی اور سرعت کے ساتھ اپنے
ذہن کی بات اگل دی۔اس کی ماں نے اس کے باپ کی محبت اسے گھٹی میں ڈال کر جو
پلادی تھی۔میں نے کل رات پیدا ہونے والی بچی کے بارے میں سوچاوہ کس پر جائے
گی؟ سارا پر؟ یا اس دوسری لڑکی پرجو اپنے باپ سے بے انتہا محبت کرتی ہے؟کاش
!وہ سارا جیسی نہ ہو میں اپنے بیٹے کو ساری گلاب جامن پرقبضہ جماتے ہوئے
دیکھ رہا تھایہ ابھی صرف تین سال کاہےاورمجھےاپنے باپ کو مارنے کی بات کہہ
رہا ہےاور وہ بھی میرے منہ پریہ ابھی سے ایسی زبان بولتا ہے تو جب یہ سارا
کے برابر ہوجائے گا تو کیسی زبان بولے گامجھے یہ سوچ کر ہی جھرجھری
آگئی۔اور سارا کے جسم کی مہک خوشگوار محسوس ہونے لگی۔
”اوہ! دو بج گئےچلو اب سوجاؤ جلدی سے “ بیگم نے گھڑی کی طرف دیکھا اور لائٹ
آف کردی میں کچھ دیر دَم سادھے بیٹھا رہا اور پھر ناچاہتے ہوئے بھی لحاف
میں گھس گیا۔
”پتہ ہےمیں نے آج ایک منت مانی ہےاگر اس بار ہمارے یہاں بیٹی ہوگی تو میں
باغوں والی مسجد میں جو شاہجہاں نے اپنے زمانے میں خاص اپنی نگرانی میں
بنوا ئی تھی اور اب سالوں سے ویران پڑی ہے ، سو گرام دیسی گھی کا چراغ
جلاؤں گی“ بیگم نے میری طرف کروٹ لی اور سرگوشی کے انداز میں کہا۔” تو
کیااس طرح ویران مسجد آباد ہوجائے گی؟اور اصلی دیسی گھی کہاں سے لاؤ
گی؟“میں نے لحاف اپنے منہ تک کھینچ لیا۔اور ایک ساتھ کئی سارے سوالات کر
ڈالے” آپ تو ہمیشہ انٹوٹی باتیں کرتے ہیں، میں تو منت والی بات“ابھی وہ
اپنی بات مکمل بھی نہیں کرپائی تھی کہ سارا بنا اجازت میرے ذہن کے دریچے
میں پھر گھس آئی اسی پسینے والی بدبو کے ساتھ جب سے میں نے اس کی زبان سے
یہ کلمہ سنا تھا تب سے اس کے چہرے کی ملائمیت، معصومیت اور مسکراہٹ سب کچھ
بھول گیا تھا بلکہ یہ سب کچھ جیسے نحوست میں بدل گیا تھامجھے ہر وقت ایسا
لگتا جیسے شہر میں پانی کی قلت ہے اور یہ اسی لیے منہ نہیں دھوپاتی”میں
اپنے پاپا کا مڈر کرنا چاہتی ہوں“یہ کلمہ ایک بار پھر میرے دماغ میں ہتھوڑے
مارنے لگا میں کانپ گیا اور مجھے باپ بننے کا خیال انتہائی احمقانہ اور
کریہہ معلوم ہوا شاید میرا پہلا اور دوسرا تجربہ غلط تھا اس وقت مجھے اپنی
گردن کے عقبی حصہ پر نیلے پروں والی تتلیاں منڈلاتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں
اندھیری رات کے آخری پہر میں جب ہنگامے پاؤں پسارے سورہے ہوتے ہیں اور
سناٹے ایک رقص شرر کے لیے بے تاب ہورہے ہوتے ہیں تو میرے دماغ کے تمام خلئے
بیدار ہوجاتے ہیں اور سوچنے کا عمل حیرت انگیز حد تک بڑھ جاتا ہے میں نے
دوسری طرف کروٹ لی اور الجھتی ہوئی فکر کو بے لگام چھوڑ دیا اور دیر تک
اللہ جانے کیا کیا سوچتا رہاکبھی سارا کو اپنے من کے ساحل پر برہنہ پا
ٹہلتے ہوئے دیکھتا اور اس کے گداز قدموں کی دھمک اپنے سینے کی چوکھٹ پر
محسوس کرتا،کبھی نوزائدہ بچی کو لمبی اور پرسکون نیند سوتے ہوئے دیکھتا اور
اس کو اسی طرح پرسکون نیند سوتے رہنے کی دعا دیتا،کبھی اپنے بیٹے کو اپنے
ہم جولیوں کے خلاف شکایات کاپٹارا کھولتے ہوئے دیکھتا اور ایسے ناہنجار
پڑوسیوں سے نجات پانے کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا اور کبھی بیگم کی منت
اپنے ان گنت چہروں کے ساتھ میرے سامنے آ کھڑی ہوتی مگر سارا افکار کے اس
ہجوم میں گویا مرکزی کردار تھی ایک بار میں اس کے ساتھ بتائے ہوئے خوشگوار
لمحات کے بارے میں سوچتا اور دوسری بار اس کی کریہہ آواز میرے ذہن کے دریچہ
کے عقب سے ابھرتی”میں اپنے پاپا کا مڈر کرنا چاہتی ہوں“میں شدت الم سے
آنکھیں موند لیتا۔اور ایک بار پھر باپ نہ بننے کے اپنے قول وقرار کو اپنے
سینے میں پختہ کرتا۔دفعتاً اوپر والے کمرے سے نوزائدہ بچی کے رونے کی آواز
آئی اور میری آنکھ کھل گئی۔مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ میں کس وقت نیند کی
آغوش میں چلا گیا تھا ، بیگم نے اپنی منت کے بارے میں یقیناً اور بھی بہت
کچھ کہا ہوگا پتہ نہیں یہ سب خواب تھا یا میں عالم بیداری میں سوچ رہا تھا
یقینا خواب ہی ہوگا۔ پر خواب اس طرح منطقی اور با ترتیب تو نہیں ہوتےمیں نے
بہت کوشش کی مگر یہ پتہ لگانے میں کامیاب نہ ہوسکا کہ خواب اور بیداری کی
حد فاصل کیا تھی، کہیں ایسا تو نہیں کہ بیگم کی وہ منت والی بات بھی خواب
ہی ہو پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگا کہ اس بچی کی آواز میں اس لڑکی کی آواز
کی سی کشش ہے جو اپنے باپ سے بے انتہا پیار کرتی ہےمجھے اس کی ماں پر غصہ
آیا کہ وہ اتنی پیاری بچی کو دودھ نہیں دے رہی اور رونے کے لیے چھوڑ دیا
ہے۔میرا جی چاہا کہ دوڑ کر جاؤں اور بچی کو گود میں اٹھا لوں-
ٹھنڈ اپنے شباب پر تھی ، لحاف سے باہر منہ نکالتے ہوئے بھی جیسے ڈر لگتا
تھا میں نے اندر ہی اندر کروٹ بدلی اور اس جیسی خوبصورت بچی کا باپ بننے کی
خواہش میرے جسم کے ہر بن مو سے ابھری، میں نے اپنے جسم پر ہاتھ پھیرا ، میں
اوپر سے نیچے تک اس خواہش کے گرم احساس سے جل رہا تھا میں نے ہاتھ بڑھایا
اور بیگم کی سوئی سوئی سی چاندنی جیسی منت کو مور پنکھ سے جھلنے لگا۔ |