سُنتے آئے ہیں کہ جلدی کا کام
شیطان کا۔ ایبٹ آباد میں جو کچھ ہوا وہ اس بات کو سچ یا درست بھی ثابت کرنے
کے لئے کافی ہے۔ امریکہ نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ختم (!)
کرنے میں جتنی تیزی دکھائی اُس نے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
امریکیوں نے القاعدہ چیف کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس دعوے کی تصدیق جس
چیز سے ہوسکتی تھی وہ اب، امریکیوں کے بقول، نہیں رہی۔ اسامہ بن لادن کی
لاش کو امریکیوں نے سمندر برد کردیا۔ لیجیے، قصہ ہی ختم۔ غالب نے سچ ہی تو
کہا تھا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا!
زندہ اسامہ سے امریکہ کو یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں دھماکے نہ کرا دے، تباہی
نہ پھیلا دے۔ اور مرے ہوئے اسامہ سے شاید یہ خطرہ تھا کہ کہیں مزار نہ بن
جائے، مریدین پیدا نہ ہو جائیں، نذر و نیاز کا سلسلہ شروع نہ ہو جائے !
ظاہر ہے یہ “نذر نیاز” بھی خاصی دھماکہ خیز ہوتی!
اتوار (یکم مئی) کو امریکی صدر براک اوبامہ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا والوں
سے ملاقات میں بزم طرب سجائی اور خاصے بے تکلفانہ انداز سے لطائف سنائے۔
اوبامہ نے اپنی جائے پیدائش کے معاملے کو بھی ہلکے پھلکے انداز سے بیان کیا
اور محفل لوٹ لی۔ ثابت ہوا کہ امریکی حکمران اپنی جائے پیدائش اور (کمزور)
دشمنوں کی جائے ہلاکت کا ذکر فکاہیہ انداز سے کیا کرتے ہیں! اور اگلے ہی دن
اُنہوں نے ایبٹ آباد آپریشن کے ذریعے پریکٹیکل جوک بھی کر دکھایا! امریکی
صدر کی شگفتہ مزاجی کی مناسبت سے اب امریکی ایوان صدر کو ”لائٹ ہاؤس“ کہنا
بھی کچھ غلط نہ ہوگا!
اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن اور اس آپریشن میں اُن کے مارے جانے کا
امریکی دعویٰ بہت حد تک لطیفے کے مشابہ ہے۔ جس اُسامہ کے بارے میں دنیا
جانتی ہے کہ وہ کہیں پندرہ بیس دن سے زیادہ نہ ٹھہرتے تھے، دعویٰ کیا جارہا
ہے کہ وہ ایبٹ آباد کے ایک وسیع و عریض وِلا میں پانچ چھ سال مقیم رہے! اور
ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ امریکہ نے ان پر نظر رکھی ہوئی تھی۔
اگر واقعی ایسا تھا تو پہلے نشانہ کیوں نہ بنایا گیا؟ کیا اوبامہ کی ریٹنگ
بڑھانے کے لئے موزوں موقع کا انتظار تھا؟ یاد کیجیے کہ سابق امریکی صدر
جارج ہربرٹ بش (سینئر) نے اپنے عہدِ صدارت کے آخری دنوں میں انتخابی فائدے
کے لئے عراق پر بلا جواز بمباری کروائی تھی!
ایبٹ آباد آپریشن خاصی عجلت میں کیا گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے امریکی فوجیوں
کی ٹرین چھوٹی جارہی تھی! انہیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ اب ہمارے ہاں کوئی
ٹرین ہی نہیں بچی تو چھوٹے گی کیا! دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی
لاش بحیرہ عرب میں بہا دی گئی۔ اگر امریکی دریائے گنگا میں بہانے کا دعویٰ
کرتے تو اہل ہند بھی خوش ہو جاتے اور بھارت سے دوستی کا حق بھی ادا ہو
جاتا!
امریکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اسامہ بن لادن خاصی طلسماتی شخصیت کے مالک تھے
اور ایمن الظواہری میں ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ بھی آگ لگانے کی کوشش کا حصہ
ہے۔ جسے مارنے کے لئے بے تاب تھے اسے مارنے کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں اور
ستائش کے ڈونگرے بھی برسا رہے ہیں! یعنی ایک گال میں آگ اور دوسرے گال میں
پانی۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسامہ طلسماتی شخصیت تھے تو امریکی حکومت خود کیا
سامری جادوگر سے کم ہے! آنکھوں سے کاجل چرانے کا محاورہ تو ہم سنتے آئے ہیں
مگر آنکھوں میں دھول جھونکنے کا ہنر امریکہ پر ختم ہے! جس کی شکل سے نفرت
تھی اس کی لاش کو بھی جی بھر کے نہ دیکھا اور سمندر برد کردیا! ہم ایسی کسی
بھی کہانی پر کیسے یقین کرسکتے ہیں؟ ہماری نظر تو خوگر پیکر محسوس ہے۔ کسی
ان دیکھے معاملے پر کیوں اور کیونکر ایمان لائیں؟ امریکی حکومت نے اب تک یہ
وضاحت بھی نہیں کی کہ اسامہ بن لادن کی لاش کی تصاویر یا وڈیو منظر عام پر
لانے میں کون سی مصلحت دیوار بنی ہوئی ہے؟ آج کے دور میں تو لوگ ہاتھ میں
موبائل کیمرے لئے پھرتے ہیں اور ایک ایک چیز کی وڈیو بناتے ہیں۔ ایسے میں
اسامہ بن لادن کی لاش کی وڈیو کیوں نہ بنائی جاسکی! اس حوالے سے امریکہ کی
جانب سے کوئی بھی وضاحت صدر براک اوبامہ کے لطائف ہی میں شمار کی جائے گی!
ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کے مارے جانے پر امریکہ جس طرح زور دے
رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم اس کی بات پر آمنا و صدقنا کہیں اسے دیکھ کر
ہمیں ایک گیت کی دو لائنیں یاد آ رہی ہیں۔
تم کہو تو سچ ۔۔ ہم کہیں تو جھوٹ
تم کو سب معاف ۔۔ ظلم ہو کہ لوٹ
اب اس سے آگے کیا کہیے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ وہ سورج کو سیاہ دھبّہ قرار
دیں ا ور ہم مان لیں کہ سورج کالا ہے۔ ذرا سپر پاور کی شان تو دیکھیے۔ چراغ
بجھنے سے پہلے بھڑک کر روشنی بڑھا رہا ہے اور اِسے اجالا بھی قرار دے رہا
ہے! افسوس اس بات کا ہے کہ جنہیں ہم نے حکمرانی کا حق دیا ہے وہ امریکی
ہدایت کے مطابق سورج کو کالا تسلیم بھی کر رہے ہیں!
سیاسی قیادت نے امریکہ کو سراہنے میں بازی لے جانے کی بھرپور کوشش کی اور
کامیاب رہی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایبٹ آباد آپریشن پر بر وقت
”ریسپانس“ دیا اور کامیاب رہے۔ وہ چاہتے تو خاموش بھی رہ سکتے تھے مگر شاید
خاموش رہنا ان کے لئے ممکن نہ تھا اور بولنا گویا فرائض کا حصہ تھا! اور جب
وزیر اعظم نے اپنا حق ادا کردیا تو اعلیٰ ترین سطح سے بھی اسامہ بن لادن کے
مارے جانے پر امریکیوں سمیت بارہ سے زیادہ ممالک کے عوام اور حکمرانوں کو
سکون کا سانس لینے کی نوید سنائی گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کے لئے ایک مضمون میں
صدر آصف علی زرداری نے لکھا ہے کہ اسامہ نئے ملینیم میں دہشت کی سب سے بڑی
علامت تھا۔ اور اس کے بعد انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی
قربانیاں گنوائی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اسامہ کی موجودگی اور
پھر امریکیوں کے ہاتھوں ان کے مارے جانے کو own کرنے کا خمیازہ کیا ہوگا،
جو بالآخر ہم عوام کو بھگتنا ہے۔ ایبٹ آباد میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے لئے ہر
اعتبار سے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر اسامہ بن لادن واقعی ایبٹ آباد میں مقیم تھے
تو اسے محض انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیا جائے یا پھر امریکہ سے پارٹنرشپ
کی ایک نمایاں شکل قرار دیا جائے؟ صدر کہتے ہیں کہ آپریشن امریکیوں نے کیا،
یعنی پاکستانی فورسز سے مدد لینے سے گریز کیا گیا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی
لکھا ہے کہ پاکستانیوں کی مدد کے بغیر امریکہ کے لئے اسامہ بن لادن تک
پہنچنا ممکن نہ تھا۔ یہی بات دوسرے بہت سے اعلیٰ حکام نے بھی کہی۔ یہ گویا
اس امر کا اعتراف ہے کہ پاکستان کی حکومت اور سیکورٹی حکام کو اسامہ کی
موجودگی کا نہ صرف علم تھا بلکہ وہ امریکیوں کو القاعدہ چیف تک لے جانے کے
لئے بھی بے تاب تھے! وسیع تر مفہوم میں تو یہ اقبالی بیان سے کم نہیں!
امریکی میڈیا نے سات آٹھ سال سے شور مچا رکھا تھا کہ اسامہ بن لادن قبائلی
علاقوں میں موجود ہیں۔ پاکستان تردید کرتا رہا۔ اور ابھی دس دن قبل ہی
امریکی میڈیا نے یہ خبر دی کہ اسامہ بن لادن دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع
کئے جانے کے بعد مشرقی افغانستان سے ہوتے شمالی افغانستان چلے گئے۔ یہ گویا
اس امر کا اعلان تھا کہ پاکستان کو اس معاملے میں مطعون نہ کیا جائے۔ اور
پھر محض ایک ہفتے میں یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی کہ اسامہ بن لادن
نے تو ایبٹ آباد میں پناہ لے رکھی تھی! کیا ایبٹ آباد شمالی افغانستان میں
ہے؟
ایبٹ آباد آپریشن ایک تیر سے چار چھ نشانے لگانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
افغانستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک نے امریکیوں کا ناک میں دم کر رکھا
ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے امریکیوں کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن سے گھبرا
کر طالبان کو گلے لگانے کی کوشش کی۔ آپریشن کی خبر پھیلتے ہی انہوں نے
پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کردیا! اتحادیوں کے جانے کے بعد افغانستان
میں بھارت کے لئے شاید کچھ بھی نہ بچتا۔ مگر اب بھارت بھی پاکستان کو جی
بھر کے آنکھیں دکھانے کی تیاری کر رہا ہے! گویا سازش کے ذریعے بھارت اور
افغانستان کو پاکستان پر ”اپر ہینڈ“ دیا جارہا ہے!
امریکی قانون ساز پاکستان کی امداد رکوانے یا گھٹانے کے لئے بے تاب دکھائی
دے رہے ہیں۔ پاکستان کی وفاداری پر بھی شک کیا جارہا ہے۔ امریکی سیاست دان
میدان جنگ تبدیل کرنے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ حامد کرزئی نے بھی کہا ہے کہ
اسامہ کو تلاش کرنے کے نام پر ہزاروں افغانوں کو بلا جواز قتل کیا گیا، جنگ
تو پاکستان میں لڑی جانی چاہیے تھی! اب اگر تقدیر ہمیں اس موڑ پر لے آئی ہے
تو اللہ سے دعا ہے کہ قوم کم از کم اس معاملے ہی میں متحد ہو جائے اور
حکمرانوں کی سوئی ہوئی حمیت کچھ جاگ جائے! قوم ایسے دو راہے پر کھڑی ہے کہ
ہمارے کالم کی ابتدا مسکراہٹ سے ہوئی تھی مگر اب اِس کی آنکھیں بھی ڈبڈبا
رہی ہیں! |