اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ
کے بارے میں سوچیں اور آپ کو
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے
کی عملی تصویر بنا دیں تو لازم ہے کہ آپ میں کچھ تو ہو جو اوروں سے ہٹ کر
ہو۔ سوال خوبی یا خامی کا نہیں، خصوصیت کا ہے۔ اب ہماری ہی مثال لیجیے۔
ہمیں قدرت نے کئی خصوصیات بخشی ہیں مگر ایک خصوصیت ایسی نمایاں ہے کہ لوگ
رات دن اُس کا تذکرہ، بلکہ اُس پر بحث کرتے نہیں تھکتے۔
احباب ہمیشہ اِس غلط فہمی میں غلطاں رہے ہیں کہ ہم اپنی آراء اور دلائل میں
وزن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم زیادہ دکھائی دینا
چاہتے ہیں! بعض کی رائے یہ ہے کہ ہم فردوس عاشق اعوان ٹائپ کی کوئی چیز
بننے کے مرحلے میں ہیں! حقیقت یہ ہے کہ ہمارے موٹاپے کا اِن تمام باتوں سے
کوئی تعلق نہیں۔ حق تو یہ ہے کہ ہمارا موٹاپا محض سُستی کا نتیجہ ہے۔
مرزا تنقید بیگ ہماری بہت سی دوسری باتوں کی طرح سُستی والی منطق سے بھی
متفق نہیں۔ اُن کا کا کہنا ہے۔ ”جب کہیں کھانا چُنا جاتا ہے تب تم مختلف
ڈِشوں کو انار کلی سمجھتے ہوئے جتنی چُستی اور پُھرتی سے پیٹ کی دیوار میں
چُنتے ہو اُسے دیکھ کر بہت سے لوگ اپنے دانتوں تلے اُنگلیاں دبانے سے ایک
قدم آگے بڑھ کر چبالینے کی منزل تک جا پہنچتے ہیں! کسی بھی دعوت میں تم جس
سُرعت کے ساتھ کھاتے ہو وہ قابل دید، قابل داد اور قابل رشک ہوتی ہے۔ اور
جو تمہیں کھانے کی دعوت دے بیٹھے وہ صرف قابل اشک رہ جاتا ہے!“
دوسرے احباب کی طرح ہم مرزا کی باتوں کا بھی ذرا بُرا نہیں مانتے۔ ہر دور
میں کھاتے پیتے انسانوں کو لوگوں نے اِسی طرح استہزاء اور طنز کا نشانہ
بنایا ہے! عدنان سمیع خان کو کس نے طنز و مزاح کا ہدف نہیں بنایا مگر سب نے
دیکھ لیا کہ اُسے قدرت نے لِفٹ کرا دی اور تمام ناقدین اور بدخواہوں کے منہ
پر تالے لگ گئے!
مرزا کہتے ہیں۔ ”تم جس رفتار سے پَنَپ رہے ہو اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا
ہے کہ بہت جلد تمہارا شمار ملک کے ’بڑے‘ کالم نویسوں میں ہونے لگے گا! سچ
تو یہ ہے کہ تم موٹاپے ہی کی بُنیاد پر ’بڑے‘ کالم نویس بن سکتے ہو!“
ہم ایسی باتیں سُن کر اکثر خاموش ہو رہتے ہیں کیونکہ
کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سُکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا ہی وہ خاموش ہے!
آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہم اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں لے آئے ہیں۔ بات یہ ہے
کہ لوگوں کو کھیلنے کے لئے کچھ نہ کچھ چاہیے۔ زمانہ بدلتا ہے تو رجحانات
بھی بدل جاتے ہیں۔ ایک وہ دور بھی تھا جب لوگ گنجوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
اگر کسی کے سر پر بال نہ ہوں تو دوسروں کو کیوں الجھن ہوتی ہے، یہ بات ہم
آج تک سمجھ نہیں پائے! سر پر بال اُگانے کے نسخے بتا بتاکر لوگ گنجوں کو
مزید گنجا کرنے پر تُلے رہتے ہیں! کوئی دُبلا ہو تو لوگ اِس فکر میں دُبلے
ہوئے جاتے ہیں کہ وہ دُبلا کیوں ہے! اور جنہیں اللہ نے پورے وزن کے ساتھ
پیدا کیا ہے اُن کا وزن کم کرنے کی فکر میں بھی لوگ دُبلے اور پتلے ہوئے
جاتے ہیں! اب آپ خود اندازہ لگائیے کہ ہم جیسے ”صحت مند نونہالوں“ کا وجود
لوگوں کو سلِم رکھنے میں کس قدر مدد دیتا ہے!
مغرب میں اب تحقیق کے لئے موضوعات تقریباً ختم ہوچلے ہیں۔ پُرانی شراب نئی
بوتل میں پیش کرنے ہی کو تحقیق سمجھ لیا گیا ہے! جب کچھ نہیں ملتا تو ”سدا
بہار“ قسم کے موضوعات پر گھسی پٹی تحقیق کی جاتی ہے۔ مثلاً ڈھائی تین ہزار
افراد کی میڈیکل ہسٹری کھنگال کر اور دو ڈھائی سو رضاکاروں پر تجربات کے
بعد یہ نتیجہ اخذ کر کے دُنیا کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے کہ انسان زیادہ
کھانے سے موٹا ہو جاتا ہے! ایسا نتیجہ تو ہم کسی بھی قسم کی تحقیق کے بغیر
پلک جھپکتے میں اَخذ کرسکتے ہیں! امریکہ میں ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا
ہے کہ موٹاپا دراصل سُستی کا نتیجہ ہوتا ہے! ہم نے بعض ماہرین کی یہ رائے
بھی پڑھی ہے کہ موٹے افراد سُست ہوتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ ماہرین کی ایک زبان
نہیں ہوتی۔ کبھی موٹاپے کو سُستی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور کبھی سبب
بتاتے ہیں! ایسے لوگ بھلا کِس طرح جان پائیں گے کہ مُرغی پہلے آئی تھی یا
انڈا! کبھی ماہرین دس سال کی تحقیق کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ انسان زیادہ
سونے سے موٹاپے کی دُنیا میں داخل ہو جاتا ہے! سمجھ میں نہیں آتا کہ کس بات
کو تسلیم کریں اور کِسے ردّی کی ٹوکری میں ڈالیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ماہرین
خُوش خُوراکی، سُستی اور نیند کے درمیان پَھڈّا کرانے کے موڈ میں ہیں! اب
کیا کوئی کھانا، پینا اور سونا چھوڑ دے؟ رہ گئی سُستی۔ تو کیا اعجاز بٹ کا
وجود اِس بات کا زندہ ثبوت نہیں کہ سُست رہتے ہوئے بھی انسان خاصی پُھرتی
سے کامیابی کی طرف بڑھ سکتا ہے؟
مغرب میں ایک حالیہ تحقیق سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ موٹے لوگوں
کی عقل بھی موٹی ہوتی ہے! لیجیے، مرزا کو تو گویا کھلونا مل گیا۔ اخبار میں
موٹوں کی موٹی عقل والی خبر پڑھتے ہی ملاقات کے نام پر ہم سے کھیلنے آدھمکے
اور بولے۔ ”اِن ماہرین کی عقل ہمیں موٹی معلوم ہوتی ہے۔ موٹی عقل کا راز
جاننے کے لئے اِتنی محنت کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ ہم سے پوچھ لیا ہوتا،
تمہیں دیکھ کر ہم بہت پہلے اندازہ لگا چکے تھے کہ عقل موٹی کس طرح ہو جاتی
ہے! اور تمہارا لِکھا پڑھ کر تو ہمارا اندازہ اب یقین اور عقیدے کی منزل تک
پہنچ چکا ہے!“
ابھی ہم جواباً کچھ کہنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ مرزا نے حُسن تکلم کی
گاڑی کا ایکسیلریٹر مزید دبا دیا۔ ”1942 کی فلم ’تان سین‘ میں تانی بیگم
کسی طور میاں تان سین کے راگوں اور راگنیوں سے متاثر نہ ہوتیں تھیں۔ ایک دن
گاؤں میں کہیں سے مَست ہاتھی آنکلا۔ سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ مگر میاں تان سین
ہاتھی کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اپنی دل نشیں آواز میں ’رُم جُم رُم جُم چال
تہاری، چال بھئی متواری‘ گاکر ہاتھی کو پُرسکون ہوکر دو زانو بیٹھنے پر
مجبور کردیا! پورے گاؤں نے یہ منظر دیکھا۔ اور جب تان سین نے داد طلب نظروں
سے تانی بیگم کی طرف دیکھا تو وہ تان سین کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے
بولیں۔۔’تمہاری راگ ودیا کو ہم بھی مان گئے، مگر ایک تو کہنی پڑے گی۔
تمہارا گانا موٹی عقل والوں ہی کی سمجھ میں آتا ہے!‘ جب ہم تمہیں اُستاد
بڑے غلام علی خاں، اُستاد برکت علی خاں، پنڈت جَسراج اور بھیم سین جوشی کے
پکے راگ سُنتے اور جُھومتے دیکھتے ہیں تو تانی بیگم کی رائے میں پائی جانے
والی صداقت کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے!“
ہم نے عرض کیا کہ مرزا! صرف موٹاپے پر مت جاؤ۔ فربہ اندام لوگوں نے دُنیا
کو بہت کچھ دیا ہے۔ اب یہی دیکھ لو کہ موٹے زندہ دل ہوتے ہیں۔“
مرزا نے جواب دیا ”زندہ دِلی تو مجبوری ہے۔“
ہم نے وضاحت طلب کی تو کہنے لگے۔ ”موٹا آدمی اپنے موٹاپے پر کوئی طنزیہ
جملہ سن کر مارنے کے لئے بھاگ تو سکتا نہیں اِس لئے دوسروں کے ساتھ خود بھی
ہنسنے لگتا ہے۔ اب چاہو تو اِس مجبوری کو زندہ دِلی کہہ لو!“
اِس بات پر جی میں تو آیا کہ بڑھ کر مرزا کی گردن دبوچ لیں، مگر اُن کے
ساتھ ہمارا پیار اور دُلار کا رشتہ ہے اِس لئے دِل کی تمنا کی تعمیل سے
اجتناب برتنا بہتر جانا! |