مجھے وہ رات( 5مئی 2004 ء)زندگی بھر نہیں بھولتی جب
میں اپنے گھر میں آرام دہ بستر پر سو یا ہوا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا
تھا۔ رات کا پچھلا پہر شروع ہوچکا تھا۔ بارہ بج کر پچیس منٹ پر ٹیلی فون کی
گھنٹی نے سب کو بیدار کر دیا۔ فون کا رسیور کانوں کو لگایا تو دوسری طرف
میرا سب سے چھوٹا بھائی ارشد لودھی بول رہا تھا۔ یہ وقت چونکہ فون کرنے کا
نہیں تھا اس لیے میں نے پوچھا۔ بھائی ارشد نے بتایا کہ بھائی اکرم کو خون
کی قے آئی ہے۔ انہیں سروسز ہسپتال لے کرگئے ہیں۔ آپ لوگ بھی جلدی سے گھر
پہنچ جائیں۔ چونکہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اکرم کو سروسز ہسپتال لے جایا
گیا تھا اور وہ خیریت سے گھر لوٹ آئے تھے۔ اس لیے وقتی طور پر اس خبر کی
سنگینی کا اثر تو مجھ پر زیادہ اثر نہ ہوا ۔ مجھے یقین تھا کہ بروقت اور
مناسب علاج سے وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ میری گفتگو سن کر میری اہلیہ عابدہ بھی
نیند سے بیدا ر ہوگئی۔ میں نے جب اس کو بھائی اکرم کی بیماری کے بارے میں
بتایا تو رشتوں کی چاہت نے اسے بھی گھیر لیا۔ کرب ‘ اضطراب اور تشویش اس کے
چہرے پر بھی عیاں تھی۔ میں نے جب اسی وقت جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو بیگم
نے بھی میرے ساتھ جانے پر اصرار کیا۔ سو اس وقت ہم دونوں موٹر سائیکل پر
سوار آبادی قربان لائن کی طرف روانہ ہوگئے ۔اس لمحے گلیوں اور سڑکوں پر رات
کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کچھ لوگ بازاروں میں بیٹھے گپیں ہانکتے اور کھاتے
پیتے دکھائی دیئے ۔ ان کے یہ معمولات یقینا ہمارے جیسے لوگوں کے لیے بڑے
حیران کن تھے۔کیونکہ میرا تعلق معاشرے کے اس طبقے سے ہے جو زیادہ سے زیادہ
دس بجے سو جاتا ہے ۔ یہاں میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ میر ی والدہ کو سرے شام
ہی نیند آ گھیرتی تھی اور مغرب سے پہلے رات کا کھانا کھا کر گھر کے صحن میں
آراستہ چار پائی پر وہ بڑے اہتمام سے خواب خرگوش کے مزے لوٹتیں۔ ان کا یہ
معمول یقینا آج کے بے چین اور بے خواب معاشرے کے لیے حیران کن ہوگا‘ لیکن
اعتراض کرنے والوں کو وہ اکثر یہ جواب دے کر مطمئن کر دیتیں کہ دن کام کے
لیے اور رات آرام کے لیے بنائے گئے ہیں جو لوگ اس نظام اور ترتیب کو تبدیل
کرنا چاہتے ہیں ان کو بیماریاں جلد آ گھیرتی ہیں۔ ماں کے نزدیک سارا دن
ہشاش بشاش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ رات کو چھ سے آٹھ گھنٹے ضرور سولیا
جائے۔کبھی کبھار جب میں جزوقتی ملازمت سے فارغ ہوکر رات کے نو بجے ماں کے
گھر پہنچتا ہوں تو اکثر ماں کاگھر رات کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔
جب ماں کو میری آمد کی اطلاع ملتی ہے تووہ نیند کاایک دور مکمل کر چکی
ہوتیں اور شفقت بھرا پیار دے کر فرماتی ہیں بیٹا! تمہیں رات کو بھی چین
نہیں آتا۔ اس پر جب میں ماں کو کہتا ہوں کہ لوگ تو ابھی رات کا کھانا کھا
رہے ہیں اور ٹی وی سے انجوائے کر رہے ہیں تو ماں کہتی ہے کہ جب سے گھروں
میں بجلی اور ٹیلی ویژن آیاہے انسانی زندگی میں سکون ہی ختم ہوگیا ہے۔ پہلے
بچے اپنی اپنی ماؤں سے کہانی سن کر سرے شام ہی سو جایا کرتے تھے۔ اب ماں کی
کہانیوں کی جگہ ٹی وی ڈراموں اور فلموں نے لے لی ہے اور جو سبق ان ڈراموں
میں دیا جاتا ہے ۔ نوجوان نسل اسی اثر کو قبول کر لیتی ہے‘ جس سے معاشرتی
قدریں تیزی سے تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔
ماں کی باتیں چونکہ میری زندگی کا محور و مرکز تھیں اس لیے ان کا ذکر میں
نے اس تحریر میں شامل کرنا ضروری سمجھا ۔ بہرکیف رات کے پچھلے پہر سڑکوں پر
بائیک چلاتے ہوئے میں انجانے سے خوف میں مبتلا تھااور یہ خوف بھائی اکرم کی
خرابی صحت کے بارے میں تھے‘جن کی زندگی کا بہت بڑا حصہ میرے ساتھ ہی گزرا
تھا۔ چونکہ وہ مجھ سے دو سال بڑے تھے یعنی ان کی عمر اس وقت 52سال ہوگی ‘
اس لیے بچپن کا زمانہ ‘ سکول کا سارا عرصہ‘ لڑکپن اور جوانی کی لڑائیوں میں
ہم ساتھ ساتھ تھے مار بھی کھاتے تھے اور مارتے بھی تھے۔ وہ سکول سے اگر
بھاگتا تو مجھے بھی ساتھ لے کر بھاگتا تاکہ میں والدہ کو شکایت نہ لگا
سکوں۔ وہ اگر اپنے پالتو کتے کے ساتھ شکار کھیلنے کا ارادہ کرتا تو مجھے
بھی اپنے ساتھ رکھتا۔ وہ کٹی ہوئی پتنگوں کو پکڑنے کا بہت ماہر تھا‘مجھے
ایک جگہ بٹھا کر خود ہوا کے دوش بدوش دوڑ لگادیتا ان کی دوڑ بھی اتنی تیز
تھی کہ کٹی ہوئی پتنگ خودبخود ان کے ہاتھ لگ جاتی ۔ کئی بار ایسا بھی ہوا
کہ پتنگ جب زمین پر گرنے لگی تو زیادہ لڑکوں نے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ڈانگے
مار کر پتنگ کو پھاڑ دیتے ۔پھروہاں لڑائی شروع ہوجاتی ۔کئی بار ایسا بھی
ہوا کہ میں نے اس کے ساتھ بھاگنے سے انکار کردیا وہ غصے میں آکر مجھے ہی
پیٹنے لگتا ۔میں جب گھر واپس پہنچ کر امی کو شکایت لگاتا تو بھائی اکرم کو
بھی خوب پھینٹی پڑتی ۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کی ہر شرارت کا خمیازہ اکثر مجھے ہی
بھگتنا پڑتا۔ وہ اپنی ہر مصیبت میرے گلے میں ڈال کر خود رفوچکر ہوجا
تاہے۔نافرمانی کی سزا بھی وقتاً فوقتاً مجھے دیتارہتاتھا۔ایک واقعہ کا ذکر
یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں جب ہم ابھی لاہور شفٹ نہیں ہوئے تھے اور ہماری
رہائش واں رادھارام ( حبیب آباد ) تھی ۔ وہاں اسے کتا پالنے کا بہت شوق تھا
۔ نہ جانے کہاں سے ایک کتے کا بچہ پکڑ لایا کبھی اسے کنویں پر جاکر اپنے
ہاتھوں سے نہلاتا تو کبھی گیندکو دور پھینک کر کتے کولانے کا حکم دیتا کہ
اسے اٹھا کر لاؤ ۔ وہ کتا بھی اس کے ساتھ جلد ہی مانوس ہوگیا ۔گرمیوں کی
رات جب ہم ریلوے کوارٹرکے سامنے کھلی جگہ پر چارپائیاں بچھا کر سویا کرتے
تھے ‘ جس چارپائی پر بھائی اکرم محو استراحت ہوتا اس چارپائی کے نیچے کتا
موجود ہوتا ۔ایک دن جب ہم دو نوں بھائی ملیشیے کی وردی پہن کر قلم دوات اور
بستہ اٹھاکر سکول پہنچے تو کتا سکول کے گرد بنی ہوئی مٹی کی چھوٹی سی دیوار
کے اس پار بیٹھ جاتا ‘جب سکول سے چھٹی ہوتی تو وہ بھی بھائی اکرم کے ساتھ
گشت کرتا ہوا گھر لوٹ آتا ۔ اس کے برعکس مجھے کتے سے سخت نفرت تھی ہر لمحے
ڈر لگا رہتا کہ کہیں کاٹ ہی نہ لے ۔چھٹی کے بعد جب ہم دونو ں بھائی سکول سے
باہر نکلے تو کتا حسب معمول بھائی کے پاؤں میں لاڈیاں کرنے لگا ‘ کتے کی
لاڈیاں بھائی کو کچھ زیادہ ہی پسند آگئیں وہ مجھے اور کتے کو ساتھ لیکر
سکول سے ملحقہ مسجد کے پاس جا پہنچا ۔جہاں چھوٹا سا کنواں بھی تھا جسے سے
پانی نکال کر نمازی وضو کرتے تھے ‘بھائی نے کتے کو دوسری جانب کھڑا کیا اور
خود مخالف سمت کھڑا ہوگیا۔پھر اسے مخصوص آواز سے بلایا تو کتا چھلانگ لگا
کر کنویں کو عبور کر کے ان کی پاؤں میں کھیلنے لگتا ۔ کتے کی اس کامیابی پر
بھائی بہت خوش ہوتا‘ مجھے کہنے لگا دیکھو آج میرا کتا کتنا بڑا جمپ لگا رہا
ہے ۔ میں نے بھی تعریف میں سر ہلا دیا ۔ اسی اثنا میں کتا دوبارہ کنویں کی
دوسری جانب جا پہنچا بھائی اکرم نے پھر مخصوص آواز لگائی تو اس نے فلائنگ
جمپ لگی لیکن کنویں کے دوسرے کنارے تک نہ پہنچ سکا اور کنویں میں جاگرا ۔
کتے کے کنویں میں گرنے سے زور دار آواز پیدا ہوئی ۔بھائی اکرم کے تو حواس
اڑ گئے ۔ سخت پریشان ہوکراس نے جب کنویں میں جھانکا تو کتا پانی میں غوطے
کھارہا تھا ‘ اس حالت میں دیکھ کر بھائی اکرم خود بھی کنویں میں چھلانک
مارنے لگے ۔بہت مشکل سے اسے روکا ۔ پھر اس نے وہ لج (جس کے ساتھ پانی
نکالنے والا بوکا بندھا ہوتا ہے )چرخی کو کھول کر کنویں میں پھینک دیا ۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ۔ کتا پانی والے بوکے میں بیٹھ گیا اس طرح ہم دونوں
نے کتے کو کنویں باہر نکالا۔ ابھی ہم اس جدوجہد سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ
مسجد میں نماز پڑھنے والے لوگ آپہنچے ۔ انہوں نے جب کنویں سے کتے کونکالتے
دیکھا تو ہم دونوں کو پکڑ لیا‘ سردی کی وجہ سے کتا کانپ رہا تھا لوگوں نے
کہا تم نے کنویں کا پانی پلید کردیا ہے ‘ اب ڈیڑھ سو بوکے پانی کے نکالو
پھر گھر جاسکتے ہو ۔ اب پڑ گئی مصیبت ۔ بھائی نے چند بوکے لوگوں کے سامنے
نکالے اور مجھے یہ کہہ کر خود کتے سمیت وہاں سے غائب ہوگیا کہ تم یہاں
بیٹھو میں ابھی واپس آتا ہوں ۔بھائی اکرم تو نکل گئے اور مجھے مصیبت میں
پھنسا گئے ۔ اس وقت میری عمر آٹھ سال ہوگی اب مجھ سے پانی کے بوکے تو نکل
نہیں سکتے تھے چنانچہ ایک بزرگ کو مجھ پر رحم آیا اس نے کہا جس کا کتا تھا
وہ تو بھاگ گیا اب اس بچے پر ظلم کیوں کررہے ہو ۔ چلو ہم باری باری بوکے
نکال کے کنویں کے پانی کو پاک کرتے ہیں ۔
بہرکیف پچھلی رات کے ان پرسکوت لمحات میں‘ میں ماضی کی انہی یادوں میں
کھویا ہوا محوسفر تھا اور دل سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ خدا کرے میرا بھائی
ٹھیک ہو۔جونہی میں ماں کے گھر پہنچا توبھائی ارشد کو اپنا منتظر پایا۔ اس
نے انتہائی غمگین لہجے میں بتایا کہ بھائی اکرم کا انتقال ہوچکا ہے ‘ میت
بھی ہسپتال سے گھر پہنچ چکی ہے۔یہ سنتے ہی یوں محسوس ہوا جسے کسی نے سیسہ
پگھلا کر میرے کانوں میں ڈال دیا ہو۔ دماغ اس خبر کی سنگینی سے چکرانے لگا
‘ دل سے درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ 19جنوری 1994ء کی صبح والد کے انتقال کے
بعد میں یتیم ہوا۔ 27دسمبر 1995ء کو میرا سب سے بڑا بھائی محمد رمضان خان
لودھی (جسے والدکی رحلت کے بعد باپ کا درجہ حاصل تھا) ایسی ہی ایک منحوس
شام اپنی زندگی کی بازی ہار کر منوں مٹی کے نیچے جا دفن ہوا۔ ان کے بعد
بھائی اکرم ہی باپ کے درجے پر فائز تھا۔ اور اس کا اظہار وہ برملا سب کے
سامنے بھی کرتا تھا ۔ بہرکیف بھائی اشرف اور ماں پہلے ہی بھائی اکرم کے گھر
میں موجود تھے۔ پھر ہم بھی وہاں پہنچ گئے جس گھر کے صحن میں رکھی ہوئی ایک
چار پائی پر دراز میرے بھائی کی نعش پڑی تھی وہ اس بات سے قطع نظر (کہ اس
کے قریب دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرنے والی ماں بیٹھی ہے‘ اس کے قریب
اپنی ساری زندگی نچھاور کرنے والی بیوی (روقیہ) موجودہے۔ اس کے تین چھوٹے
بھائی موجود تھے۔) چپ چاپ بے سدھ اور بے حس لیٹا ہوا تھا۔ اس پر ڈالی ہوئی
سفید ململ کی چادر پنکھے کی ہوا سے کچھ اس طرح حرکت کر رہی تھی‘ جیسے گہری
نیند سویا ہوا میرا بھائی بیدار ہوکرابھی اٹھ بیٹھے گا۔ لیکن آج اسے موت کی
خاموشی نے اپنے مضبوط پنجوں میں جکڑ رکھا تھا۔ ابھی چند دن پہلے کی بات تھی
۔ میں نے نیند کی حالت میں خواب دیکھا کہ اسی گھر کے آنگن میں بھائی اکرم
کی میت پڑی ہوئی ہے۔ ماں سمیت سبھی گھر والے ان کے گرد جمع ہیں اور
زاروقطار رو کر اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسی اثنا میں بھائی اکرم
اچانک اٹھ بیٹھا۔ ہم خوفزدہ ہونے کی بجائے اس کے گرد جمع ہوگئے۔ میں نے
پوچھا ‘ بھائی تم تو فوت ہوگئے تھے پھر زندہ کیسے ہوگئے۔ اس پر انہوں نے
کہا کہ فرشتہ مجھے غلطی سے لے گیا تھا۔ جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو
اس نے میرے جسم میں روح دوبارہ داخل کر دی۔ میں نے پوچھا کہ اس دوران آپ نے
کیا منظر دیکھا تو انہوں نے کہا مجھے اتنا یاد ہے کہ سبز پٹیاں میری آنکھوں
پر باندھ دی گئی تھیں۔ جب یہ پٹیاں ہٹائی گئیں تو میں اس دنیا میں واپس
آگیا۔ پھر اسی خواب میں دیکھا کہ وہ مزید چند دن ہمارے درمیان زندہ رہا اور
معمول کی زندگی گزار کر ایک بار پھر موت کی آغوش میں ایسا سویا کہ پھر زندہ
نہ ہوسکا۔ خواب کی یہ باتیں جب میں نے اپنی اہلیہ کو بتائیں تو اس نے میرا
دل رکھنے کے لیے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے اگر چاہا
تو آپ کے بھائی کی زندگی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ عموماً پرانے وقتوں میں خواب
میں مرنے کی تعبیر زندگی میں اضافہ ہی تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن اس خواب کے
بعد مجھ پر جو کیفیت طاری ہوئی وہ کچھ اور خبر دے رہی تھی۔ دل میں ایک وہم
سا پیدا ہوچکا تھا۔ جو ہر لمحے مجھے بھائی کی جدائی کا احساس دلا رہا تھا۔
چونکہ مجھے اپنا بھائی ہنستا کھیلتا چلتا پھرتا دکھائی دے رہا تھا اس لیے
میں نے اس احساس کو وہم قرار دے کر ذہن سے جھٹک دیا۔
آج میرا وہی بھائی چارپائی پرلیٹا ہوا ابدی نیند سو رہا تھا اس کے قریب ہی
وہ ماں بیٹھی زار و قطار آنسو بہا رہی تھی ‘ کیونکہ اس کا دوسرا بیٹا ہمیشہ
ہمیشہ کے لیے جدا ہو رہا تھا وہ بے بس پنچھی کی مانند تڑپ رہی تھی۔ اس کے
بین انسانی روح کو مضطرب و بے قرار کر رہے تھے۔ ماں کے قریب ہی میری وہ
بھابھی روقیہ بیٹھی تھی جو مرحوم کی بیوی تھی۔ چونکہ بھائی اکرم کے فوت
ہونے کے بعد اس کی دنیا ہی اجڑ گئی تھی اس لیے چار پائی کو پکڑ پکڑ چیخ و
پکار کر رہی تھی۔ لیکن آج کوئی اس کے آنسو پوچھنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
میں چونکہ بھابی روقیہ کو اپنی چھوٹی ماں قرار دیتا ہوں اور اس کی معمولی
سی تکلیف بھی مجھے مضطرب کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ماضی میں جب بھی بھابی
پر کوئی مشکل آئی میں اس مصیبت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑا
ہو جایا کرتا تھا اور اس وقت تک مجھے سکون نہیں ملتا جب تک میری اس بھابی
کی مشکل حل نہیں ہو جاتی تھی۔ اتنی محبت کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمارے گھر
1968ء میں اس وقت آئی جب میں ابھی آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ 36سال کی
رفاقت انسانی دلوں میں اتنی محبت تو پیدا کر ہی دیتی ہے۔
لیکن اب جب ان کا سہاگ اجڑ گیا تھا جن کے ساتھ 36سال کا غیر معمولی ساتھ
رہا ہو اس کی جدائی تو انسان کو پاگل کر ہی دیتی ہے۔ اس کیفیت میں میں ان
کے گلے لگ کر جی بھر کے رونا چاہتا تھا ‘ لیکن اس لیے نہ رو سکا کہ درمیان
میں کئی اور عورتیں بھی حائل تھیں جو بے چاری رات کے پچھلے پہر سے دکھ
بانٹنے کے لیے یہاں موجود تھیں۔میں گھر میں داخل ہوا تو میری چھوٹی بھابی
نسرین‘ ندیم کے دونوں بچوں کو پنگھوڑے میں لیٹا کر سلانے کی جستو میں مصروف
تھی۔ ننھی سحر اور احسن اپنے والد ندیم اور چاچاؤں وسیم‘ نعیم اور کلیم اور
دادی روقیہ کو زار و قطار روتا دیکھ کر سخت پریشان تھے۔ اس لمحے یہی سوچ ان
کو سونے سے روک رہی تھی وہ پنگھوڑے سے ہی تمام حالات واقعات کا مشاہدہ کر
رہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ بڑے بھائی کی موت نے مجھے بھی ریزہ ریزہ کر دیا
تھا۔یہ میراوہ بھائی تھا جس کے ساتھ میرے بچپن کی بے شمار یادیں وابستہ
تھیں ‘ جو مجھے گاہے بگاہے تنگ تو کرتا تھا لیکن میرے دشمنوں کے آگے سیسہ
پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑا ہوجاتا تھا۔ اس کی جدائی مجھے خون کے آنسو رو
لا رہی تھی۔ میں چھوٹے بھائی اشرف کے گلے لگ کر خوب رویا ۔اس لمحے میں نے
ارشد کو صبر و استقامت کا پیکر پایا۔حالانکہ چھوٹا ہونے کے ناطے اکرم نے
اسے بھی گود کھیلا تھا۔ بچپن میں بے پناہ نگہداشت کی تھی۔ مرنے سے چند دن
پہلے ہر روز شام کے وقت اکرم لاہور کینٹ کے پلیٹ فارم پر سیر کرتا ہوا ارشد
کے پاس گیٹ پر جا پہنچتا اور اپنے سب سے چھوٹے بھائی سے باتیں کرکے دل
بہلاتا۔ آخری دنوں کی بات ہے کہ ایک دن ارشد پھاٹک پر شام کے وقت موجود
نہیں تھا تب بھی اکرم اسے ملنے کے لیے دانستہ وہاں پہنچ گیا۔
گھڑی پر نظر دوڑائی تو رات کا ایک بج چکا تھا۔ ندیم سیالکوٹ‘ عارف والا‘
ملتان ‘ راولپنڈی‘ ہجرہ شاہ مقیم‘ قصور ‘ ساہیوال میں رہنے والے عزیز
واقارب کو‘ اپنے والد کے انتقال کی اطلاع دے رہا تھا۔ رات کے اس پہر کئی
لوگوں نے دوبارہ فون کرکے یہ تصدیق کی کہ واقعی اکرم فوت ہوگیا ہے۔کیونکہ
عزیز رشتہ داروں کو اس غمناک خبر کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ابھی اکرم کی عمر
ہی کیا‘ بمشکل 52سال کا ہوگا۔ساری زندگی بھر پور طریقے سے گزاری۔ ٹیلی فون
انڈسٹری میں اٹھارہ سال کنٹریکٹ پر نوکری کی۔مستقل ہونے کا خواب کئی
عدالتوں میں مقدمات کرنے کے باوجود پورا نہ ہوسکا۔ بدقسمتی سے ہمارے سرکاری
اداروں میں افسران پر تو کروڑوں روپے بے دریغ خرچ کر دیئے جاتے ہیں لیکن
ماتحت ملازمین کو کریڈٹ دینے کا وقت آتا ہے تو حکومتی خزانے خالی ہوجاتے
ہیں۔
محکمہ ٹیل فون انڈسٹری آف پاکستان (TIP)کے ارباب اختیارنے صرف بھائی اکرم
بلکہ درجنوں ایسے کچے ملازمین کے گھروں میں اپنے غلط فیصلوں سے صف ماتم
بچھا رکھی تھی۔ TIPکی عارضی ملازمت سے جب بھائی اکرم کو درجنوں ساتھیوں
سمیت فارغ کردیا گیا تو وہ اسی دن دلبرداشتہ ہوگیا تھا۔ اسے اپنی زندگی
بوجھ محسوس ہورہی تھی۔ اس کے لاشعور میں یہ احساس پختہ ہوچکا تھا کہ اب وہ
بے روزگار ہوچکا ہے۔ حالانکہ اچھی خاصی چلتی ہوئی دوکان اس کی ملکیت تھی‘
چار جوان بیٹے معاشی کفالت کے لیے موجود تھے۔ پھر بھی بے روزگاری کا احساس
اسے دوسروں کی نظر میں بے وزن کر رہا تھا۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو
لوگ ملازمتوں سے وابستہ ہوجاتے ہیں وہ کاروبار میں کامیاب نہیں ہوتے اور جو
لوگ کامیابی سے کاروبار کرتے ہیں انہیں ملازمت راس نہیں آتی۔ سرکاری اداروں
سے جب ملازمین کو ریٹائرڈ کیا جاتا ہے تو بہت کم لوگ زیادہ عرصہ زندہ رہتے
ہیں۔ وگرنہ یہ سوچ ہی انہیں موت کی دہلیز پر لے جاتی ہے کہ وہ بے روزگار
ہیں ۔
کچھ ایسے ہی حالات سے میرا بھائی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں گزارتا رہا۔
ایک دن یہ انکشاف ہوا کہ اسے شوگر کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ بے شک اس نے اپنی
صوابدید کے مطابق شوگر کا علاج کیا لیکن مناسب ورزش اور باقاعدگی سے سیر نہ
ہونے کی وجہ سے شوگر کی بیماری اندر ہی اندر زور پکڑتی چلی گئی۔ جب میری
والدہ کو اس بیماری کی خبر ہوئی توانہوں نے مجھے بھی اپنی تشویش سے آگاہ
کیا۔ میں نے ماں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ شوگر کی بیماری تو اب ہر دسویں
بارہویں انسان کولاحق ہے۔ مناسب خوراک‘ باقاعدگی سے واک اور ورزش کے ساتھ
ساتھ بروقت علاج سے یہ بیماری کنٹرول میں رہتی ہے۔
بے شک تمام احتیاطی تدابیریں اختیار کی جاتی رہی ہیں لیکن بھائی اکرم کے
لاشعور میں شوگر کا خوف بیٹھ گیاتھا ۔جس دن بھائی اکرم کو موت واقعی ہوئی۔
اسی شام وہ خود کو انتہائی تندرست محسوس کررہے تھے۔ انہوں نے نیا سفید کاٹن
کا سوٹ اور نئی چپل پہنی اور محلے میں اپنے دوستوں کو ملنے چل پڑے۔ وہ جس
دوست کے پاس بھی جاتے وہ ان کی مزاج پرسی کرتا‘ جس پر بھائی اکرم کہتے کہ
آج میں خود کو بالکل ٹھیک محسوس کررہا ہوں۔ چار پانچ دوستوں کے پاس کچھ وقت
گزار کر والدین کے گھر آگئے اور حسب معمول دونوں بھابیوں نے ان کی خوب خاطر
تواضع کی۔ ماں اور چھوٹے بھائیوں سے جی بھر کے باتیں کرکے ساڑھے نو بجے
اپنے گھر کے لیے رخصت ہوئے اور گھر پہنچ کر ٹیلی ویژن کے پروگراموں سے
انجوائے کرنے لگے۔رات ساڑھے گیارہ بجے انہیں قے کا احساس ہوا ۔وہ قے کرنے
کے لیے جب واش بیسن پر پہنچے تو الٹی میں خون دیکھ کر پریشان ہوگئے اور
اپنی اہلیہ کو آواز دے کر کہا دیکھو الٹی میں خون کیوں آ رہا ہے ۔ بھابی
روقیہ سمیت بچے بھی دوڑتے ہوئے پہنچے اور انہیں لے کر سروسز ہسپتال کی جانب
روانہ ہوئے جب ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر اسی وقت فارغ کردیا کہ
راستے میں ہی سانس کا رشتہ ٹوٹ گیا تھا ۔چنانچہ اسی گاڑی پر واپس لے کر گھر
پہنچے ۔
بہرکیف میں گھر سے نکلا ہی تھا کہ بھائی اکرم کے دیرینہ دوست وسیم خان اور
وحید خان سوگوار حالت میں دری پر بیٹھے ہوئے نظر آئے ۔ان کے قریب ہی راجہ
اصغر بھی موجود تھے ان تینوں احباب کے چہروں سے پریشانی اور اداسی بخوبی
دیکھی جاسکتی تھی۔ انہوں نے مجھے حوصلہ دیا ‘ لیکن میری آنکھوں سے آنسو
رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ہاتھ میں تسبیح لیے میں بھی بچھی ہوئی دری پر
بیٹھ گیا۔ چند نوجوان بھی یہاں موجود تھے جو غالباً ندیم ‘ وسیم‘ نعیم اور
کلیم کے دوست تھے۔ میں سمجھتا ہوں ان تمام لوگوں کا ہم پر احسان تھا کہ
اپنی نیند کو خیر باد کہہ وہ رات کے پچھلے پہر ہمارے غم میں شریک تھے۔ میرے
گھٹنوں میں چونکہ درد کا شدت سے احساس رہتا ہے اس لیے دری پر ایک ہی کروٹ
بیٹھنا میرے لیے محال تھا۔ رخ بدل کر میں گھڑی پر نظر ڈالتا تو وقت چیونٹی
کی چال چلتا دکھائی دیتا۔ آرام دہ بستر پر وقت پر لگا اڑ جاتا ہے لیکن موت
کے سائے میں رات کا یہ پچھلا پہرمیں نے جس اذیت سے گزارا اس کا ذکر الفاظ
میں نہیں کر سکتا۔ خدا ایسی منحوس رات کسی کونہ دے۔ آنکھیں نیند سے بند ہو
رہی تھیں۔جسم لیٹنے کے لیے بے تاب تھا لیکن اس لمحے یہ دونوں کام ناممکن
تھے۔ کچھ دیربعد مجھے تکیہ لا کر دے دیا گیا جس سے کچھ راحت محسوس ہوئی۔ اس
لمحے میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں ہر رات آرام دہ بستر پر سوتے ہوئے خدا کا
لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ آرام دہ بستر اور پرسکون نیند کسی
نعمت سے کم نہیں ہے۔
قصہ مختصر کہ اذان فجر کی صدا بلند ہوئی تو میں نے مسجد کا رُخ کیا‘ جس کے
امام حافظ افتخار احمد سیالوی ہیں۔ امام ہونے کے باوجود وہ ہر کسی کے دکھ
درد میں ایسے شریک ہوتے ہیں جیسے وہ ہر گھر کے فرد ہوں۔ رات کے بارہ بجے جب
بھائی رمضان(مرحوم) کے گھر کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا غالباً ان کا فون
خراب تھا۔ تو حافظ افتخار احمد سیالوی اپنی موٹر سائیکل
(4)
پر رات کے پچھلے پہرشالیمار باغ کے پیچھے واقع آبادی افتخار ٹاؤن گئے
حالانکہ یہ ان کے فرائض میں شامل نہیں تھا لیکن انہوں نے ان دکھ بھرے لمحات
میں اپنی محبت کا عملی ثبوت پیش کر دیا۔ نماز فجر کے بعد جونہی بھائی اکرم
کی موت کا اعلان ہوا تو لوگ جوق در جوق تعزیت کے لیے آنے لگے۔ اس طرح
عورتوں اور مردوں کے بیٹھنے کا الگ الگ انتظام کیا جانے لگا۔ خوش قسمتی سے
بھائی اکرم کے نام سے منسوب گلی سے پہلے ایک وسیع احاطہ میسرہے‘ جہاں کچھ
عرصہ پہلے ہی باقاعدہ فرش لگایا گیا تھا وہاں تعزیت کرنیوالوں کو
بٹھایاگیا۔ نمازجنازہ کے وقت کا تعین نماز ظہر کے بعد دو بجے مقررہوا۔جوں
جوں وقت گزر رہا تھا ‘دوسرے شہروں سے عزیز و اقارب آنے لگے۔ ان کے آتے ہی
ایک بار کہرام مچ جاتا اور ہر آنے والا رو کرہی اپنے جذبات کااظہار کرتا ۔
جب میں سوچتا کہ بھائی اکرم کے مرنے کے بعد میری پشت خالی ہوگئی ہے۔
بھائیوں کے مرنے سے بازو ٹوٹ جاتے ہیں تو ایک ہوک سی دل سے اٹھتی اور میری
آنکھوں کو رونے پر مجبور کر دیتی۔
اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ بھائی اکرم کو کون سے قبرستان میں دفن کیا
جائے۔ قبرستان تو میاں میر پل کے قریب بھی واقع ہے۔لیکن والد سمیت تمام
عزیز و اقارب سنی فلور ملز سے ملحقہ قبرستان میں ہی دفن ہیں اس لیے ہماری
ترجیح و ہی قبرستان تھا۔ اس میں یہ مشکل پیش آ رہی تھی کہ اس قبرستان میں
جگہ تقریباً ختم ہوچکی ہے۔امیر لوگوں نے یہاں بھی بڑے بڑے احاطوں پر قبضہ
کر رکھا ہے۔ پختہ قبریں بھی بہت جگہ گھیرلیتی ہیں۔ قبرستان کے بیشتر حصے پر
زندہ انسانوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس لیے قبرستان کمیٹی نے یہ طے کر رکھا
ہے کہ اردگرد کی چند آبادیوں کے علاوہ اس قبرستان میں کوئی اور دفن نہیں
کیا جائے گا اور اگر کسی کو دفن کرنا بھی پڑتا ہے تو قبر کی قیمت دس ہزار
روپے ہوگی جس کی ادائیگی ایک عام غمزدہ انسان کے لیے ناممکن ہے۔ اب دو ہی
راستے تھے کہ میں اپنے ناظم حاجی سرور رندھاوا سے کہلوا کر قبرستان کمیٹی
کی پرچی حاصل کر وں۔ یا کلیم اپنے استاد مرزا کے توسط سے یونین کونسل 97کے
ناظم حاجی عبدالغفور کی پرچی حاصل کرکے قبر کی پرچی حاصل کرے۔ بہرکیف مرزا
صاحب کی وساطت سے والد( محمد دلشاد خان) اور بھائی رمضان کے درمیان میں ایک
معقول جگہ مل گئی جہاں قبر تیارہونے لگی۔غسل کے فرائض بھائی اکرم کے سیاسی
دوست محمد حسین، احسان الحق عرف شانی نے مشترکہ طور پر انجام دیئے۔
آج سے پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے کہ بھائی اکرم کے حوالے سے ہی ایک عجیب
واقعہ رونما ہوا‘ جو آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔ واقعہ کچھ یوں تھا۔
ایک شخص ہمارے گھر آپہنچا۔ دروازے پر دستک دی تو ماں باہر نکلی۔ دستک دینے
والے شخص نے دریافت کیا کہ کیا اکرم کا یہی گھر ہے۔ ماں نے کہا ہاں جی! پھر
کچھ ٹھہر کر اجنبی شخص نے کہا کہ میں یہ المناک خبر دینے آیا ہوں کہ اکرم
ایکسیڈنٹ سے فوت ہوگیا ہے۔ یہ سنتے ہی ماں نے چیخ و پکار شروع کر دی۔ ماں
کو دیکھ کر ہم سب بھی رونے لگے ۔والد صاحب ڈیوٹی پر تھے انہیں بھی یہ منحوس
خبر سنا دی گئی۔ وہ بھی اس خبر سے پریشان ہوئے کیونکہ اولاد کی محبت بڑے
بڑے سخت دل کو خون کے آنسو رلا دیتی ہے۔ جب ہم تمام رو رہے تھے تو قریبی
مسجد سے نماز ظہر کی اذان کی آواز سنائی دی۔ میں نے آنکھوں سے آنسو صاف کیے
اور مسجد جاپہنچا۔ بارہ رکعت کی اس نماز کی‘ ہر رکعت میں اس قدر رویا کہ
نماز کا مصلہ میرے آنسو سے بھیگ گیا۔ نماز پڑھتے وقت یہی دعا میری دل سے
نکل رہی تھی کہ خدایا۔ یہ خبر غلط ہو اور میرا بھائی ہنستا مسکراتا گھر
آئے۔ نماز مکمل پڑھنے کے بعد جب میں مسجد سے نکلا تو میرا بھائی اکرم باکل
صحیح سلامت میری آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا ‘ جسے دیکھ کر میں ایک بار پھر
مسجد میں جا کر خدائے بزرگ برتر کے حضور سجدہ ریز ہوگیا جس نے میری دعا
قبول کی اور وہ خبر غلط ثابت ہوگئی اور زندگی رواں دواں ہوگئی کہ وقت گزرنے
کا کسی کو احساس ہی نہیں رہا۔ اور حقیقی موت کا وقت آپہنچا۔
آج جب نماز ظہر کی اذان ہوئی تو بہت بڑی تعداد میں لوگ جنازے میں شرکت کے
لیے پہنچ چکے تھے۔ اس لمحے میں نے سب لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ یہاں
بیٹھنے کی بجائے اگر باوضو ہوکر نماز ظہر ادا کر کے پھر جنازے میں شرکت کی
جائے تو مرنے والے کے لیے بھی آپ کا یہ عمل زیادہ فائدے مند ہوگا۔وگرنہ
یہاں بیٹھ کر رونا اور بے وضو جنازے میں شریک ہونے سے مرحوم کو کوئی فائدہ
نہیں پہنچے گا۔ میری اس درخواست پر کافی لوگوں نے مسجد پہنچ کر نماز ظہر
باجماعت ادا کی۔نماز کی ہر رکعت میں ایک بار پھر آنسوؤں کی جھڑیاں جاری
تھیں۔ ہچکیوں اور آنسوؤں کی روانی میں نماز ظہر ادا کی اور پرور دگار سے
ایک بار پھر دعا کی کہ کاش ایک بار پھر میرا بھائی زندہ ہوجائے۔ تو تیرا
لاکھ لاکھ شکر ادا کروں گا۔لیکن آج میری دعا کو وہ پذیرائی نہ حاصل ہوسکی
جو ماضی میں میسر آئی تھی۔ بہرحال پھر وہ لمحات سر پر آ پہنچے جب بھائی
اکرم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہونا تھا۔والدہ ‘ بھابی روقیہ اور
دوسری عورتیں جنازہ اٹھانے میں مزاحم تھیں۔ لیکن جانے والے کو کون روک سکتا
ہے۔ کلمہ شہادت کی صدا بلند ہوتے ہی وہ چار پائی ہمارے کاندھوں پر تھی جس
پر میرا بھائی اکرم ابدی نیند سو رہا تھا ۔اس کے چار بیٹے آنکھوں میں اپنے
باپ کی محبت لیے زار و قطار رو رہے تھے ۔لیکن آج ان کے آنسو پونچھنے والا
خود خاموش ہوچکا تھا۔
مئی کے مہینے میں دوپہر کی گرمی کتنی عروج پر ہوتی ہے اس سے میں آگاہ
ہوں۔لیکن انتہائی گرمی کے باوجود اڑھائی تین سو افراد کا ڈیڑھ دوکلومیٹر
پیدل جنازے کے ساتھ چلنا اور مرحوم کے لیے ان سے محبت کرنے والوں کا ایک
خراج تھا۔ گھٹنوں کے درد کا احساس کرکے برادر نسبتی فرقان نے مجھے موٹر
سائیکل پر بیٹھنے کے لیے کہا ‘لیکن اپنے بھائی کے سفر آخرت میں ‘ میں پیدل
ہی چلنا سعادت سمجھتا رہا۔ ہم پندرہ بیس منٹ میں ہم قبرستان کے بالمقابل
پہنچ گئے جہاں بنک آف پنجاب کے جنرل منیجر محمود صادق خان وائس پریذیڈنٹ
حاجی محمد اسلم‘ بابر ملک‘ ظفر زبیر ملک ‘ تجمل حسین‘ شباب حیدر‘ جاوید
اقبال‘ عبدالرحمان جامی‘ انتہائی گرمی کے باوجود نماز جنازہ میں شرکت کے
لیے پہلے سے موجود تھے۔ تقریباً لمبی لمبی پانچ صفیں کھلے میدان میں بنیں
اور نماز جنازہ پیر و مرشد حضرت مولانا محمد عنایت احمد نے پڑھوائی جن کو
اس مقصد کے لیے بطور خاص لایاگیا تھا۔ نماز جنازہ کے بعد میت کو قبرستان لے
جایا گیا جہاں چندہی منٹوں میں میرا بھائی اور ماں جایا‘ ہم سب کی نظروں سے
اوجھل ہوکر زمین کی گہرائیوں میں اتر گیا ۔ یوں وہ پچاس سالہ پرانی رفاقت
اختتام کو پہنچی جو میری پیدائش سے آج تک چلی آرہی تھی۔5مئی 2020ء کو ہم سے
بچھڑ ہوئے انہیں سولہ سال ہوچکے ہیں ۔زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جب ان
کی یاد دامن گیر نہ ہوتی ہو۔
بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
|