رنگ برنگی معیشتیں

خدا کی قدرت دیکھئے کہ اِس دنیا میں کہیں بھی یکسانیت نہیں..رنگ رنگ کے پھول، پرندے، دریا، پہاڑ اور انسان یہاں تک کہ معیشت بھی رنگ برنگی.. آئیے آج اسی باغِ معیشت کی سیر کریں۔

نارنجی(اورینج) معیشت کو لامحدود مواقع اور کھربوں ڈالر کی صنعت کہا جاتا ہے...یہ فیشن،ٹی وی، سنیما، ویڈیو گیمز، فنِ تعمیر، تحقیق، اشاعت، سافٹ وئیر،کھلونے،تشہیرکاری وغیرہ پر مشتمل ہے..گویا تخلیقی سرگرمیوں کی معیشت...اور نوجوان اِس کا اثاثہ۔

سیمیں(سلور) معیشت 'ابھی تو میں جوان ہوں' گنگنانے والے پرانے مگر قیمتی لوگوں سے متعلق ہے... یعنی بزرگوں کی معیشت...جس میں پچاس برس سے زائد عمر رسیدہ افراد کی ضروریات و خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اشیاء و خدمات کی پیداوار اور فراہمی ممکن بنائ جاتی ہے...1970 کی دہائ میں جاپان میں سیمیں بازار کی اصطلاح پہلی بار استعمال ہوئ تھی... مخصوص وھیل چئر اور لفٹ، گرنے سے بچانے والے آلات، ضعفِ بصارت کے شکار افراد کے لئے سمارٹ فون وغیرہ۔

گلابی معیشت بے راہ روی کی معیشت ہے...جو
ہم جنس پرستوں کی غیر فطری خواہشات کی بنیاد پر قائم ہے..یورپ و امریکہ اِس باغی صنعت کے پشتیبان ہیں.. مقامِ فکر ہے کہ اب یہ صنعت ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں بھی قانون کے زیرِ سایہ پروان چڑھ رہی ہے۔

سیاہ معیشت ان تجارتی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے جو قانون سے بالاتر ہوں جیسے ٹیکس چوری، کمیشن خوری، منشیات،شراب اور جوئے کا کاروبار،
جسم فروشی منی لانڈرنگ وغیرہ ...سیاہ معیشت کو زیرِ زمین معیشت بھی کہا جاتا ہے..پاکستان میں یہ معیشت کھربوں روپوں کے خسارے کی ذمہ دار ہے...درحقیقت یہ ایک عالمی وبا کی سی ہے۔

چلیں اب سیاہ سے سفید کی طرف بڑھتے ہیں..شاید آپ سفید معیشت سے قانونی معاشی سرگرمیاں مراد لیں مگر ایسا نہیں ہے ...اسے سیمیں معیشت کی ایک شاخ کہا جا سکتا ہے جو اٹلی میں بطور خاص پھل پھول رہی ہے ۔۔۔یہ عمر رسیدہ بیمار معذور افراد کی اشیاء و خدمات پر مشتمل ہے۔۔اس میں ذاتی نگہداشت و خدمات کے شعبے سمیت دوا سازی .....طبی تشخیص اور طبی آلات کی صنعتیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔۔.تقریبا تیس لاکھ اسی ہزار افراد ذاتی نگہداشت و خدمات کے شعبے سے وابستۂ روزگار ہیں... پروفیسر ڈوگلس کی جانب سے متعارف کرائ گئی نئ اصطلاح فلیٹ وائٹ معیشت کا ذکر بھی کرتا چلوں جسے برقی (ڈیجیٹل) معیشت سے منسوب کیا جا رہا ہے جو کہ عالمی معیشت کی شکل اختیار کر چکی ہے اور پاکستان میں بھی اسے خوب پذیرائ مل رہی ہے..علی بابا ڈاٹ کام کے جیک ما نے دراز ڈاٹ پی کے کو خرید کر برقی (آن لائن) تجارت کو کافی وسعت دی ہے۔

سرمئ(گرے) معیشت غیر اندراج شدہ معاشی سرگرمیوں کو کہتے ہیں..یہ غیر روایتی معیشت جنوب مشرقی ایشیا میں خوب قدم جمائے ہوئے ہے...پاکستان کی 70 فیصد معیشت اسی طرز پر قائم ہے..کوشش کی جا رہی ہے کہ قومی پیداوار کے درست تعین کے لئے تمام معاشی سرگرمیوں کا اندراج کرایا جائے۔

جامنی(پرپل) معیشت کی اصطلاح پہلی بار فرانس میں 2011 میں استعمال کی گئی...یہ درحقیقت حقوقِ نسواں کی معیشت ہے جس میں عورتوں کو کام کے یکساں مواقع ، مردوں کے مساوی تنخواہ، زچگی کی چھٹیاں،فیصلہ سازی اور دیگر معاملات میں مرد کو فوقیت نہ دینا وغیرہ کو لائحہ عمل قرار دیا جاتا ہے..البتہ ثقافت سے مطابقت کی گنجائش نکالی گئ ہے.. قصہ مختصر کہ یہ نیو ورلڈ آرڈر کی طرز پر ایک نیا معاشی حکمنامہ ہے...

خاکی(براؤن) معیشت کو فضائ آلودگی کا ذمہ دار قرار دیا جا چکا ہے کیونکہ اِس کا زیادہ تر انحصار زمین کھود کر نکالے جانے والے جیواشم ایندھن (فوسل فیول) مثلا تیل،قدرتی گیس اورکوئلہ پر ہے...جیواشم قدیم زمانے کے پودوں اور جانوروں کی باقیات ہیں۔

سرخ معیشت کو بہت سے ماہرین اشتراکیت سے منسوب کرتے ہیں...اِس طرزِ معیشت میں نجی ملکیت کی اجازت نہیں ہوتی..تمام کاروبار ریاست کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔

سبز معیشت کے آج کل بڑے تذکرے ہیں..یہ ایک طرح سے خاکی معیشت کی ماحولیات سے بے نیازی کا ایک ردعمل ہے.. کاربن ڈائ آکسائیڈ سے جنم لینے والی صحت دشمن فضائ آلودگی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا..ِ لیکن اِس اقدام کا سیاسی استعمال بہرحال باعثِ تشویش ہے...کارل برکارت کے مطابق سبز معیشت ہوا..پانی..کچرے وغیرہ سے حاصل ہونے والی فضا دوست قابلِ تجدید (صاف)توانائ،پائیدار نقل و حمل ، سبز عمارتیں اور آب و زمین بشمول فضلے کے انتظام پر منحصر ہے..موجودہ عالمی تالہ بندی ( لاک ڈاؤن) سے مفلوج صنعتوں کی بدولت فضائیں پھر سے تازہ ہوا اور شفاف مناظر کے جلوے دکھا رہی ہیں۔

کیوں نا اِس سیرِ چمن کا اختتام دنیا میں سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے نیلے رنگ کی مناسبت سے نیلی (بلیو) معیشت پر کیا جائے...لوٹ آئیے کہ یہ چرخِ نیلی فام کا نہیں بلکہ موج آشنا نیلگوں سمندر کا ذکر ہے...جو فضا میں موجود 30 فیصد کاربن ڈائ آکسائڈ جذب کر کے حضرتِ انسان کو تازگی بخشتا ہے... نئے زاویۂ فکر کے مطابق یہ نیلے وسائل کی معیشت ہے جس میں بحری نقل و حمل، ماہی گیری، سمندری کان کنی، ساحلی تفریحات وغیرہ اور موسمیاتی تبدیلی کے درمیان توازن قائم کرنا مطلوب ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ مذکورہ بالا معیشتیں انسانی زندگی میں بھی رنگ بکھیرتی رہیں گی۔
 

Yasir Farooq
About the Author: Yasir Farooq Read More Articles by Yasir Farooq: 27 Articles with 45058 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.