مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض حکومت نے ایک بار پھر میڈیا
پر پابندیوں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ گذشتہ
روز، سری نگر میں پولیس نے بھارت کے انگریزی روزنامہ اخبار ہندو کے نمائندے
پیرزادہ عاشق کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔الزام لگایا گیا کہ پیرزادہ کی
رپورٹ حقائق پر مبنی نہ تھی۔پیرزادہ عاشق کی رپورٹ کیگام شوپیاں میں شہید
ہونے والے دو مجاہدین کے بارے میں شائع ہوئی ۔یہ مجاہدین مقامی تھے ۔ انہیں
ورثاء کے حوالے نہ کیا گیا۔ بلکہ یہاں سے 110کلو میٹر دور سرینگر مظفر آباد
شاہراہ پر دفن کیا گیا۔ شوپیاں کے مجاہدین کو جنگ بندی لائن کے قریب ضلع
بارہمولہ کے گانٹھ مولہ علاقے میں سپرد خاک کیا گیا۔ یہ قبرستان غیر مقامی
مجاہدین کے لئے وقف ہے۔ بھارتی حکومت نے کشمیری مجاہدین کو یہاں اس لئے دفن
کیا تا کہ وہ انہیں غیر ملکی قرار دے۔ اس طرح مودی حکومت کو پاکستان کے
خلاف پروپگنڈہ کرنے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔ پیرزادہ عاشق نے بھارت کا جھوٹ
بے نقاب کیا۔ اسی وجہ سے زیر عتاب آ گئے۔انھوں نے کورونا سے متعلق بھی
بھارتی جھوٹ سامنے لائے۔ مقبوضہ حکومت کا دعویٰ ہے کہپیرزادہ کی رپورٹ
لوگوں کے ذہنوں میں خوف یا خطرہ پیدا کرسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں گذشتہ روز
عاشق کو پوچھ گچھ کے لئے تھانہ اننت ناگ یا اسلام آباد میں بھی طلب کیا گیا
تھا۔اس سے قبل، ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا پر غیر قانونی سرگرمیاں
(روک تھام) ایکٹ اور آئی پی سی 505 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ۔ پولیس نے
دعوی کیا کہ اس نے فیس بک پر ''ملک دشمن'' مواد شائع کیا تھا۔پیرزادہ عاشق
نے سری نگر میں پولیس کومعاملہ سمجھایا، اس کے باوجود شام کے وقت تقریبا 40
کلو میٹر دور جنوبی کشمیر کا سفر کرنے اور ضلع اننت ناگ میں پولیس افسر کے
سامنے پیش ہونے کو کہا گیا۔وہ آدھی رات کو سری نگر میں واقع اپنے گھر واپس
آیا لیکن اس دوران اس کا کنبہ خوفزدہ اور اس کی حفاظت کے بارے میں فکر مند
تھا۔مسرت زہرہ پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ''ملک دشمن پوسٹیں'' اپ لوڈ
کیں جن میں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت غیرقانونی سرگرمیوں سے بچاؤ کے
قانون کی دفعہ 13 کی خلاف ورزی کی گئی، جس میں غیر قانونی سرگرمی کی وکالت،
اشتہاری، نصیحت یا اشتعال انگیزی اور ہندوستانی آئین کی دفعہ 505 کی خلاف
ورزی کی گئی تھی۔ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو، زہرہ کو غیر قانونی سرگرمیاں
روک تھام ایکٹ کے تحت سات سال تک کی قید اور جرمانے کے تحت جرمانے اور تین
سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔پولیس نے کسی خاص پوسٹ کا حوالہ نہیں دیا ہے۔
وہ زہرہ پر الزام لگاتی ہے کہ فیس بک اکاؤنٹ پر تصاویر عوام کو امن و امان
کو خراب کرنے کے لئے اکساتی ہیں اور ''ملک دشمن سرگرمیوں کو بڑھاوا دیتی
ہیں اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی شبیہہ کو بگاڑ سکتی ہیں۔پولیس
زہرہ کو ٹویٹر پر شائع ہونے والی ایک تصویر کا بھی حوالہ دے رہی ہے، زہرہ
نے ایک کشمیری خاتون کی تصویر کشی کی جس کے شوہر کو مجاہدین کے مشتبہ
رابطوں کی وجہ سے بھارتی فوجیوں نے شہید کردیا تھا۔ نیویارک میں صحافیوں کی
عالمی تنظیم سی پی جے کی سینئر محقق، عالیہ افتخار کا کہنا ہے کہ ''مسرت
زہرہ اور پیرزادہ عاشق کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے واقعات کے
بارے میں مقامی حکام کی جانب سے ہراساں کرنے اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔ خدشہ
ہے کہ اگر ان صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا تو، غیر قانونی سرگرمیاں روک
تھام کے کالے قانون کے تحت ان کی ضمانت کے امکانات کم کر دئے جائیں گے۔کالے
قانون یو اے پی اے کے تحت، ضمانت کی شرائط زیادہ سخت ہیں، کیونکہ گرفتار
ہونے والوں پر یہ ثابت کرنے کا بوجھ پڑتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کیس موجود
نہیں ہے۔پولیس نے بھارتی صحافی گوتم نولکھا کو گذشتہ ہفتے ایسے ہی ایک
الزام میں تحقیقات کے لئے گرفتار کرلیا تھا۔
کشمیری صحافی عاصف سلطان جولائی 2018 سے بھارتی جیل میں ہیں۔ ان کے خلاف
اسی کالے قانون کے تحت مقدمہ چل رہا ہے۔ بھارتی پولیس کا سوشل میڈیا پر
''ملک دشمن سرگرمیوں'' میں ملوث ہونے کے لئے سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک
تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت ایک خاتون فوٹو جرنلسٹپر مقدمہ درج کرنا
مقبوضہ کشمیر میں سچ کو دبانے اور حقائق چھپانے کی ہی کڑی ہے۔ شہر سری نگر
سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا پر ''ملک دشمن پوسٹیں اپ
لوڈ کرنے'' کا الزام اسی لئے عائد کیا گیا ہے۔اس کالے قانون کے تحت یو اے
پی اے حکومت ایسے افراد کو ''دہشت گرد'' کے طور پر پیش کرنے کی اجازت دیتی
ہے اوربھارتی قومی تحقیقاتی ایجنسی کو ایسے معاملات کی تحقیقات کا اختیار
دیتی ہے۔سرینگر میں مزمل جلیل سمیت صحافیوں کا کہنا ہے کہ زہرا کاایک پیشہ
ور فوٹو جرنلسٹ کے طور پر 4 سالہ کیریئر ہے ، جس نے ایمانداری کے ساتھ
کشمیر کی کہانیاں سنائیں۔ ان پر یو اے پی اے کونافذ کرنا اشتعال انگیز ہے۔
اپنے ساتھی سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایف آئی آر
کو واپس لیا جائے۔ صحافت جرم نہیں ہے۔ دھمکی / سینسرشپ کشمیر کے صحافیوں کو
خاموش نہیں کرے گی۔زہرا کے مطابق قابض حکومت ''کشمیر میں صحافیوں کی آوازوں
کو دبانے'' کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے کہا، ''پولیس نے کہیں بھی یہ نہیں
بتایا کہ میں ایک صحافی ہوں۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں فیس بک کی صارف
ہوں۔زہرہ پر الزامات چونکا دینے والے ہیں۔ وہ اپنی آرکائیو کی تصاویر شیئر
کر رتی ہیں جو پہلے ہی سوشل میڈیا پر مختلفبھارتی اور بین الاقوامی رسائل
میں شائع ہوچکی ہیں، اب مقدمہ درج کیا جارہا ہے۔زہرا کا یہ کام
متعدداخبارات میں شائع ہوا ہے جن میں واشنگٹن پوسٹ، دی نیو ہیومینیٹریٹی،
ٹی آر ٹی ورلڈ، الجزیرہ، دی کاروان اور دیگر شامل ہیں۔زہرا کے خلاف لگائے
جانے والے الزامات پر خطے کے صحافیوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔سرینگر
میں کشمیر پریس کلب نے اپنے اور اس خطے سے تعلق رکھنے والے دیگر صحافیوں کے
خلاف لگائے جانے والے الزامات کی مذمت کی ، اور بھارت کے وزیر داخلہ امیت
شاہ سے مداخلت کا مطالبہ کیا ۔مگر امیت شاہ مودی مل کر کشمیر میں جنگل کے
قانون کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ در اصل بدقسمتی کی بات ہے کہ جب دنیا وبائی
مرض کی لپیٹ میں ہے۔مقبوضہ خطے کی حکومت نے صحافیوں کے خلاف مقدمات درج
کرنا اور انہیں ہراساں کرنا شروع کیا ہے۔یہ بات کشمیر کے صحافیوں کے لئے
ناقابل قبول ہیجنھیں عالمی قوانین کے تحت آزادی اظہار اور تقریر کی آزادی
کے حقحاصل ہیں۔زہرہ کے خلاف'' ایککالے قانون کی سخت دفعات کولگانا صحافیوں
کو خاموش کرنے، طاقت کے استعمال سے سچ بیانیے پر قابو پانے اور کشمیر کی
کہانی پر قابو پانے کی دلیل ہے۔دنیا بھر کے آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کے
عالمی اداروں کو اس پر اپنی آواز بلند کرنا چاہیئے۔
|