دیر سے ہی سہی مگر اچھی بات یہ ہے کہ عربوں میں ایک
بیداری کی لہر اٹھی ہے جسے کم ازکم ہم پاکستانی تو بڑی قدر کی نگاہ سے
دیکھتے ہیں، ہوا کچھ یوں ہے کہ بھارت میں شہریت کے قانون کو لے کر مسلمانوں
کے خلاف نفرت کی جو لہر اب دنیا کے سامنے آئی ہے اس سے متاثر ہوکر عرب
نوجوانوں بالخصوص قطر کے نوجوانوں اور کچھ اہم شخصیات نے بھی سوشل میڈیا پہ
ایک منظم اور پرزور آواز اٹھائی ہے کہ عرب ممالک میں جو لاکھوں ہندو بھارتی
روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں انہیں بےدخل کرکے واپس بھارت بھیجا جائے اور
ان کی جگہ مسلمان ورکرز کو تعینات کیاجائے اگر اس تحریک کے نتیجے میں کچھ
عملی اقدامات کئے گئے تو مظلوم مسلمانوں کے حق میں اس کے خاطر خواہ نتائج
نکلیں گے۔
اس کے ساتھ عرب کی مختلف کمپنیوں میں کام کرنے والے ہندووں کے سوشل میڈیاء
اکاونٹس پہ بھی نظر رکھی جارہی ہے اور اگر کوئی شخص مسلمانوں کے خلاف نفرت
آمیز کچھ بھی پوسٹ کرتا ہے تو اس کا سکرین شارٹ لےکر متعلقہ کمپنی یا کفیل
جس کے پاس وہ کام کرتا ہے کو ٹیگ کرکے شرم دلائی جاتی ہے ،بیداری کی اس لہر
سے بھارتی ایوانوں میں ایک اضطراب پیدا ہوگیا ہے ، سوشل میڈیاء پہ کام کرنے
والے پاکستانی لڑکوں کو اس کام میں شامل ہو کر ہندو سامراج کو ننگا کرنے کا
موقع گنوانا نہیں چاہئے ۔
بھارت میں ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا، پرانی باتیں
چھوڑیں صرف شہریت کے بل کو لے کر کچھ روشن خیال لوگوں کو چھوڑکر باقی سارے
نیتاوں کی مجرمانہ خاموشی کافی نہیں ہندو ذہنیت کو آشکار کرنے کے لئے؟
حالیہ دنوں میں جہاں پوری دنیا کرونا سے پریشان ہے بلا تمیز رنگ ونسل و
مزہب ہر کوئی انسانیت کی خدمت میں حتی المقدور اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش
کررہا ہے بھارتی ہندو ایسے میں بھی اپنی گھٹیا فطرت کے ہاتھوں مجبور
مسلمانوں کے خلاف اپنے شیطانی ہتھکنڈوں سے باز نہیں آرہے ۔
کرونا وائرس میں مبتلاء بھارتی مسلمانوں کو جہاں غلط سماجی روئیوں اور
خوراک کے ساتھ بہت سارے دیگرمسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہیں بے شمار
ہسپتالوں نے باقاعدہ اخبارات میں اشتہارات چھپوا کر مسلمانوں کا علاج کرنے
اور انہیں اپنے ہسپتالوں میں داخل کرنے سے انکار کردیا ہے ، اور میں بے
اختیار سوچ رہا ہوں ہمارے قائداعظم رحمہ اللہ کتنے بابصیرت اور فہم و فراست
کے مالک تھے جو بات آج ہندو نیتا اپنے کردار سے ثابت کررہے ہیں وہ انہوں نے
پون صدی پہلے ہی بھانپ لی تھی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں جو کبھی
پرامن طریقے سے ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، دو قومی نظریہ ایک حقیقت ہے ۔
رمضان کا مقدس ماہ مبارک آچکا ہے ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کے ساتھ
اپنے اردگرد ایسے سفید پوش لوگوں کی مدد کے لئے بھی آگے بڑھنا چاہئے جو لاک
ڈاون کی وجہ سے شدید مالی پریشانیوں میں گھر چکے ہیں ۔طاہر ویلفئیرفاونڈیشن
نے اپنے محدود وسائل مین رہتے ہوئے عام لوگوں تک کھانے پینے کا سامان
پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو بجٹ ختم ہونے کے ساتھ ہی رک گیا تھا اب
چونکہ رمضان بھی ہے اس سلسلے کو ازسرنو شروع کرنے کی سخت ضرورت ہے مخیر
حضرات سے مالی تعاون کی درخواست ہے۔ عطیات بھجوانےکےلئے03434011974 ایزی
پیسہ اکاونٹ استعمال کریں یا کال کرلیں ، رمضان الکریم میں نیکی کے ہرکام
کا اجر کئی سوگناتک بڑھادیاجاتاہے ، آئیں ہم سب مل کر انسانیت کی خدمت کرکے
اپنے معاشرے کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے لائیں ۔
|