تین کورونے

پہلا کورونا:’’ میں جس ملک سے آیاہوں وہاں مجھ سے بھی بڑے بڑے سورما’’ کورونے ‘‘موجود ہیں،مجھیان سب کے بیچ اپنی جگہ بنانے میں بہت دقت ہوئی۔ یہاں آنے کے بعد میں نے سب سے پہلے پورے ملک کا ہنگامی دورہ کیا۔ کشمیر سے تامل ناڈو تک، کرناٹکا سے جھاڑکھنڈ اور جے پور تک چھوٹے بڑے تمام شہروں کو دیکھنے کا موقع ملا اور اس دوران میں بہت سے ’’کورونوں‘‘ سے بالمشافہ ملا،اِن ملاقاتیوں میں متشدو مذہبی کورونے، لسانی کورونے،فسادی کورونے،آئین شکن کورونے، سیاسی کورونے اوراقلیتوں پر شب خون مارنے والے کورونے شامل ہیں۔میں نے دیکھا کہ ملک کے سیاسی کورونے اقلیتوں پراپنا وائرس پھیلارہے ہیں۔ یہاں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے۔ جہاں 30 کروڑمسلمانوں کے حقوق پہ وائرس کا مکمل قبضہ ہے۔ ابھی دو ماہ پہلے کی بات ہے جب ایک عالمی سپر پاور کا صدر آیایہاں آیا تو دہلی میں ’’ہندو کرونوں‘‘ اور سخت گیر’’ سیاسی کورونوں ‘‘نے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا،اِن کی مذہبی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی ، کاروبار ختم کردیے ،دکانوں کو جلایااور مسلمانوں کو ’’ہندؤوں کا ہندستان‘‘ جیسے نعروں سے ڈرایا ، یہبتانا مقصود تھاکہ اب ملک میں تمہاری جگہ نہیں۔ یقین مانیں انسانی تذلیل کا بے ہودہ ناچ ،میں نے مغرب میں بھی نہیں دیکھاتھا۔ پہلے پہل تومجھے لگا کہ یہاں ٹِکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ،مگر پھر سوچا کہ جب ان سب ’’کورونوں‘‘ اقلیتوں کا جینااجیرن کیا ہوا ہے، توپھر میری تو کئی حد ہی نہیں ہے۔ میں جہاں چاہوں اپنے جراثیم پھیلا سکتی ہوں۔ مجھے مسلمان عزیز ہیں نہ ہندو ، لہذا میں نے پڑاؤ ڈال دیا اور اپنی کارروائی شروع کردی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ مریض اسی ملک میں ہیں۔ میں نے ملک کے بڑے شہروں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، جس سے مجھے سب سے بڑی کامیابی یہ ملی ہے کہ میں نے ان تمام ’’ کورونوں ‘‘ کو ’’لاک ڈاؤن‘‘ کا مطلب سمجھا دیا ہے ، ساتھ یہ بھی یاددہانی کرادی ہے کشمیر میں لگائے جانے والے تمہارے جبری لاک ڈاؤن کو آٹھ مہینے ہوچکے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میرے جانے سے پہلے ملک کی سرکار کو’’ لاک داؤن‘‘ کے فوائدو نقصانات سمجھ آجائیں گے۔‘‘

دوسرا کورونا:’’میں بہت لمبا سفر طے کرکے آیا ہوں، مختصر سا احوال سنا کررخصت چاہوں گی۔ مغربی ممالک میں، میں نے بہت تباہی مچا دی ہے۔ آپ یہ دیکھیں کہ ایک ایسا ملک کہ جس کو اپنی طاقت پر ناز تھا، جدید ترین اسلحے پر گردن میں سریا آجاتا تھا، جس کے صدر نے اقتدار میں آنے کے تیسرے روز کئی مسلم ممالک پر داخلے کی پابندی لگا دی تھی اور جس کے گھمنڈ سے دنیا کا تہائی حصہ عجب پریشانی کا شکار رہا ۔ میرے چین میں ظہور کے بعداس اکڑوصدر نے کہا تھا کہ یہ ایک معمولی سا فلو ہے ،تب مجھے اس کی کنچوں جیسی آنکھوں پہ بہت غصہ آیا تھا۔ مجھے امریکہ میں قدم جمانے میں ذرا بھر مشکل نہیں ہوئی،جس کی بنیادی وجہ وہاں کے عوام کی بے احتیاطی تھی۔ مجھ سے بچنے کاذریعہ سماجی فاصلہ ہے اوران اقوام نے سماجی فاصلے کو گھاس نہیں ڈالی،سماجی فاصلے مٹا کر نفسانی خواہشات حاصل کیں، صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھا ۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک سماجی فاصلہ والی تدبیر پر عمل کرکے میرا داخلہ بند کر سکتے تھے، مگر میں نے دیکھا کہ یہاں کے عوام سماجی فاصلہ قائم نہیں رکھ سکتیں۔ ان کے تسکین نفس کے سارے نشے اسی سماجی فاصلے میں پنہا ہیں اور جب تک مرد وزن سماجی فاصلوں کی سرحد یں نہ توڑدیں دِن نکلتا ہے نہ رات ہوتی ہے۔ اسی سماجی فاصلے کی بے احتیاطی سے مجھے شہہ ملی اورمیں پھلتی پھولتی رہی۔ لہذا یہاں بھی آپ میری تباہ کارریوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ میں اس ملک میں اپنے پجنے گاڑ چکی ہوں اور اب تک سات لاکھ سے زائد افراد کو اپنا شکاربناچکاہوں۔ ہر روز کئی ہزار نئے کیسز ریکارڈ کئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے انتظامیہ کی حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہوگئی ہے، عالمی سطح پر طاقت ورتصور کئے جانے والے امریکہ میں میرا سب سے زیادہ قہربرس رہا ہے۔‘‘

تیسرا کورونا:’’میں جب سے یہاں آئی ہوں ، عجب حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میری حالت ایک ایسے پرندے کی سی ہوگئی ہے ،آزاد ہوسکتی ہوں نہ قید ۔ بھانت بھانت کی باتیں سن سن کرمیں نفسیاتی مریضہ اور عوام وحکام کے درمیان فٹ بال بن چکی ہوں۔ پہلے حکام نے مجھے سنجید نہیں لیااور عوام میرے نام کا چرچا سن کر بے خوف رہی۔ جب میں یہاں پہنچی تو پہلے میرابڑا آدر مان کیا گیا، لاک ڈاؤن بھی ہوا، احتیاط بھی ہوئی اور سماجی فاصلہ رکھنے کی کوشش بھی کی گئی،لیکن ان سب کے باوجود میں یہاں اپنی توقعات سے بہت کم کامیاب ہوپائی ہوں۔ عوام کے ایک طبقے نے مجھ پر جگتیں کیں،لطیفے بنائے،ٹک ٹاک ویڈیوبنائیں، تو دوسرے طبقے نے مجھے بددعائیں دیں، پھونکیں ماریں، دم درود کیے، تعویذات کیے۔ میں خوشی غمی کے ملے جلے تاثرات میں جی رہی ہوں۔ کبھی حکمرانوں کی باتیں سن کر خوش ہوتی ہوں ، کبھی عوام کے رویے سے تنگ ہو جاتی ہوں۔ مجھے یہ تو معلوم ہے کہ میں جان لیوا ہوں،مگر میری جان لینے والی کوئی قوم ہے اس کا یہاں آکر پتا چلا۔ میری کوشش یہی ہے کہ یہاں سے جلد از جلد اپنا بوریا بستر گول کروں،کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ یہاں میری دال گلنے والی نہیں ہے، اس لیے کہ انہیں بھی دوسری قوموں کی طرح زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔ اگر ٹیسٹوں میں اگلے چند دنوں میں اضافہ ہوا تو میرا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور اب تک میں نے جہاں جہاں خفیہ انڈے بچے دیے ہوئے ہیں ان کا پتا چل جائے گا،لہذا مجھے اب جلد کوچ کرنا ہوگا۔ اجازت دیجیے۔‘‘

کالم کا نتیجہ: کورونا وئرس سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن، سماجی فاصلہ اور زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ۔

 

Muhammad Ansar Usmani
About the Author: Muhammad Ansar Usmani Read More Articles by Muhammad Ansar Usmani: 32 Articles with 24553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.