مگر اللہ تین فٹ دور نہیں ھے!

پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کی رفتار میں تیزی ھے ، نماز تراویح اور رمضان المبارک کی رحمت بھری ساعتیں اور ھماری غفلتیں بھی عروج پر ہیں پاکستان کے تمام علماء کرام اور صدر مملکت و دیگر حکومتی نمائندوں کے درمیان تفصیلی گفتگو ھوئی اور معاہدہ طے پایا کہ حفاظتی انتظامات کے ساتھ تراویح ھو گی۔اب اس معاہدے کے بعد بھی صورت حال غیر یقینی ھے ، پہلے چھ فٹ فاصلے کی بات ھوئی اور پھر تین فٹ پر اتفاق ھوا ، اب یہ تین فٹ بھی بے عمل ھے ، نہ علماء اور نہ جذباتی وابستگی کے حامل سچے لوگوں کو اصل بات کی سمجھ آتی ہے اول تو مساجد میں قالین ھوتے ھیں، دوسرا اجتماع اور پنکھے کی ہوا سے وائرس کا منتقل ھونا آسان ہے، کیا علماء یہ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ کوئی بیمار نہیں ھو گا یا وائرس نہیں پھیلے گا اور اگر پھیلے گا تو کون سنبھالے گا؟ دوسری بات کہ کیا خصوصی حالات میں دین کے احکام خصوصی نہیں ھوتے؟ میں کم ازکم گزشتہ 35 سال سے تروایح پڑھ رہا ہوں اور ھر عالم ، سکالر اور مشائخ کے تراویح کے بارے میں خیالات ذھین میں نقش ہیں اور تلاوت قرآن پاک کو سننا بہت بڑی سعادت سمجھتا ہوں اور دکھ ھے کہ میں اس دفعہ یہ نہیں کر سکوں گا لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ میرا اللہ میرے سب سے قریب ھے وہ تین فٹ یا چھ فٹ دور نہیں ھے ، تروایح پڑھنے والے بھی یہ سوچیں کہ پہلی دفعہ بچوں کو گھر میں کھڑا کر کہ باجماعت نماز پڑھنے اور تنہا بیٹھ کر اللہ سے دکھ سکھ شئیر کرنے کا موقع ملا ھے اسے جھگڑے میں ضائع نہ کریں۔دوسرا دلیل کے طور پر بازار اور منڈی کا حوالہ دیا جاتا ہے اگرچہ وہاں بھی لاک ڈاؤن موجود ہے دوسرا کم دکانیں اور عوام ضروری حفاظت کے ساتھ ضروری چیزیں خریدتے ہیں چونکہ زندہ رہنا فرض اور انسانی جان کی حرمت سب سے بڑھ کر ھے جبکہ مارکیٹ میں لوگ نہ سجدہ ریز ھوتے ھیں اور نہ قالین بچھے ہیں، علماء سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھ رہے ہیں حالانکہ وہ سائنس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔بات رہی فقہ کے احکامات کی تو وہ علماء بخوبی جانتے ہیں کہ خصوصی حالات میں خصوصی احکامات ھوتے ھیں پانی نہ ملے تو طہارت کے احساس کے لئے تیمم رکھا گیا ہے۔ خواتین کے مخصوص ایام میں کتنی چھوٹ ھے، سفر، جنگ، بیماری میں احکامات مختلف ھوتے ھیں تو پھر کیوں اس کورونا وائرس کی شدید وبا میں تراویح کی چھوٹ ممکن نہیں ہے؟ کیا جان کی حفاظت کرنا فرض نہیں ہے، اسی طرح خیال کریں اللہ تعالیٰ کیا یہ چاھتا ھے کہ سب انسان ھلاک ھو جائیں، یقینا نہیں تقریباً تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے عذاب بھی نہیں ھے ایک تنبیہ ھے کہ اپنے اوپر غور کریں،گریبان میں جھانکیں شرک، قتل ، عزتوں کو پامال کرنا، بے حیائی پھیلانا حقوق العباد میں ناانصافی کرنا، ملاوٹ اور کم تولنا، ذخیرہ اندوزی اور بد اخلاقی جیسی سرکشیوں میں مبتلا ھونا جیسی برائیوں سے توبہ کرنا ضروری ہے، اس کے لیے تنہا بیٹھ کر غور کرنا اور اللہ سے مانگنے کا کتنا بہترین موقع ہے ثواب سے زیادہ اپنے آپ کو بدلنا سب سے بڑی عبادت ھوگی، چوتھی اور اھم بات یہ سب جانتے ہیں کہ ھماری مساجد اور مدارس دنیا کی سب سے بڑے فلاحی مراکز ھیں جن کے لئے رمضان المبارک اھم ھوتا ھے مگر ضرور ذھین میں رکھیں حکومت اور لوگ اس کا بھی ازالہ کر دیں گے تو خدارا آگے بڑھ کر قوم کی رہنمائی کیجیے یہ آپ کو اللہ نے بہت بہترین موقع دیا ھے اجتہاد کا کوئی اصول ، اجماع کا کوئی ضابطہ دوسروں کا خیال رکھنے کا جذبہ ، صفائی اور ماحول پر اسلام کی پالیسی اور عمل کیسے ممکن ہو؟ کتنا موقع ھے کہ آپ اسلام کا نظام معیشت، معاشرت اور فلاح انسانیت کو بیان کریں، اتحاد اور رواداری کے فروغ کے لیے دعوت دیں یقین جانیں حکومتیں، سیاستدان اور سب پیچھے رہ جائیں گے، آپ آگے ھوں گے۔اللہ آپ سے دور نہیں ھے وہ شہ رگ سے قریب ترین ھے وہ نہ تین فٹ دور ھے اور نہ چھ فٹ ۔آپ کی نیت اور مانگنے کی کیفیت اھم ھے۔وہ دامن پھیلائے آپ کو پکار رہا ہے، اس کے پاس چلے جائیں وہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا مگر اب بھی غفلت کی تو یقین کریں علماء پہلے اور ھم کم علم بعد میں پکڑے جائیں گے۔

 

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68497 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.