دنیائے اردو کا وہ کون سا انسان ہے جس نے اقبال کے متعلق نہ سنا ہو اور وہ
کون سا طالبعلم ہے کہ جس نے کسی نہ کسی سطح پر فکر اقبال کا مطالعہ نہ کیا
ہو، اقبال زبان و ادب کے گلستاں کا وہ شناور ہے جس کی وجہ سے اس چمن کی
شناخت و شہرت صدیوں برقرار رہے گی اور اسکی ثمر آوری کا نتیجہ کہ بہتوں کو
اس نے اپنی جانب متوجہ کیا اور کئی ایک نے اس کے فکر و علم سے فیضیاب ہونے
ٹھانی اور تحقیق و جستجو کو دوڑے اور یہ الگ بات کہ کس کو کیا ملا کہ اعمال
کا دارومدار تو نیتوں پر ہے۔
عہد حاضر کے بہت بڑے شارح قرآن اور عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد اپنے مضمون
’’فکر اسلامی کی تجدید اور علامہ اقبال‘‘ میں کچھ اسطرح رقمطراز ہیں کہ:
’’ علامہ اقبال نے یورپ کی علمی اور سائنسی ترقی کو روحِ قرآن کا ظہور اور
بروز‘ اور عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کے تصور کو نورِ محمدﷺ سے ماخوذ
اور مستعار قرار دینے‘ اور اسلام کے علم ِکلام کو افلاطونی تصورات کی دلدل
اور ارسطو کی منطق کی بھول بھلیوں سے نکال کر جدید تجرباتی علوم کی اساس پر
استوار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک جانب مغرب کے دور جدید عمرانی نظریات اور
بنیادی سیاسی تصورات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے مغربی تہذیب کو پوری خود
اعتمادی اور جرأتِ رندانہ کے ساتھ چیلنج کیا‘ اور دوسری جانب نہ صرف یہ کہ
اسلام کے اصل انقلابی فکر کی پوری ’’مجددانہ‘‘ شان کے ساتھ از سر نو تدوین
کا فریضہ سر انجام دیا اور اللہ اور رسولﷺ کے عطا کردہ نظامِ عدلِ اجتماعی
کو عہد ِ حاضر کی اعلیٰ ترین فکری سطح پر اور حقوق انسانی کے بلند ترین
تصورات کے ساتھ ہم آہنگ کر کے پیش کیا‘ بلکہ انقلاب کا زور دار نعرہ لگاتے
ہوئے اس کے منہج اور منہاج کو بھی کمال اختصار لیکن حد درجہ جامعیت کے ساتھ
پیش کر دیا۔‘‘
اقبال دنیائے ادب ہی نہیں ، تاریخ انسانی کی ان چند گنی چنی ہستیوں میں
شامل ہیں کہ جس کے نام کے ساتھ جس کا بھی ذکر ہوا اس کا نام بھی تاریخ ادب
میں محفوظ ہو گیا اور زمانہ اسے جاننے لگا، جس نے بھی اقبال پر تنقید کی،
جس پر اقبال نے تنقید کی، جس سے اقبال نے اصلاح لی یا جس کو اقبال نے اصلاح
دی یا جس کی انہوں نے تعریف کی آج وہ سب نام تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں،
پطرس بخاری پر علامہ نے تنقید کی تو انہوں نے اس تنقید کو اپنا سرمایہ ہستی
قرار دے دیا، حسین احمد مدنی کے مسلہ قومیت پر تنقید کی تو یہ واقعہ تاریخ
آزادی میں ایک دستاویز کی حیثیت اختیار کر گیا،
شاید یہی وجہ تھی کہ اپنی ذات کو امر کرنے کے واسطے بہت سوں نے کلام اقبال
اور اسلوب اقبال پر تحقیق اور تنقید کا راستہ اختیار کیا، جو اصول پسند
محقیقن تھے انہوں نے تعریف و تنقیص میں ایک توازن برقرار رکھا، کہیں اصول
فن پر اختلاف کیا تو کہیں اسلوب اور فکر پر نشتر چلائے مگر احترام کا پہلو
بحرحال قائم رہا، علمی اختلاف ایک رحمت ہے جس سے تحقیق کے نئے در وا ہو
ہوتے ہیں سوچ کی گھتیاں سلجھتی ہیں اور اس علمی اختلاف سے سلوک کی منزلیں
طے ہوتی ہیں۔ یہ علمی اختلاف ہی تو تھا کہ بعض محققین نے اقبال کے نظریہ
خودی کو ’’برگساں ‘‘ کے نظریہ تخلیقی ارتقاء سے ماخوذ قرار دیا، مرد کامل
کے تصور کو ’’گیتا کے ارجن‘‘ کا مماثل کہا، اور کبھی دور کی کوڑی لائے کہ
فلسفہ اقبال تو ارسطو، فرائڈ، نطشے اور کارلائل کے افکار کی آمیزش کا نتیجہ
ہے۔
بات یہاں تک رہتی تو کوئی اعتراض کی بات نہیں کہ یہ سب تو عملی اختلاف ہیں
اور ان کے حق اور مخالف دلائل بحرحال موجود ہیں جو فکری آزادی اور ترقی کا
پیش خیمہ ہو سکتے ہیں، بات اس وقت بگڑ ی جب بعضوں نے محض اپنا ادبی قد
اونچا کرنے کو ایڑیاں اٹھائی اور لگے اقبال پر کیچڑ اچھالنے ، اس سے کسی کو
علم کی روشنی تو نہ ملی البتہ ان کے من کی روشنائی جا بجا پھیل گئی، کسی نے
ان پر الحاد و کفر کے فتوے لگائے اور انکو اسلام شکن کہہ کر اپنے اندر کی
سیاہی سے سفید صفحات کو بھی کالا کر ڈالا، اور انکی تمام زندگی اقبال کے
بارے یہی کوشش رہی کہ ’’ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے‘‘ مگر جب بھی
ایسوں نے اپنی ذات کے لئے چاند تک جانے کی کوشش کی ان پر صرف شہاب ثاقب
برسے اور وہ منہ کے بل زمین پر آ رہے،
انہی عاقبت نا اندیشوں ، اسلوب سے بے بہرہ اور الفاظ کی ترکیب و معنی سے بے
خبر ، اک پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ ہو، ایک نابغہ انور شیخ بھی ہیں
اور یہ وہ وحشت مزاج ہے کہ جس نے عروج سطوت رفتگاں کے اس مینارہ نور کی
عظمت کے بغض میں اپنا ذاتی عناد اپنی کتابوں میں نکالا اور کئی ایک کتب
اقبال کے خلاف ترتیب دیں اور اپنے تئیں قرآن و سنت کی روشنی میں انکو اسلام
شکن شاعر قرار دے ڈالا۔ ان کی اس بے سروپا اور بسیار تحریری کے عارضے میں
مبتلا کتا ب کا کئی مرتبہ مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ فاضل مصنف
کے اعتراضات اور الزامات کا جواب مجھ پر اقبال کا قرض ہے اور یہی وہ جذبہ
تھا جس نے مجھے ان مضامین کی تحریر کی تحریک دلائی، موصوف کی کتاب کا بغور
مطالعہ کرنے سے ایک بات تو اظہر من الشمس تھی کہ حضرت کو تحریر میں ربط کا
خیال نہیں کہیں وہ اسلام کے داعی بنے اور اقبال کو دائرہ اسلام سے باہر
دھکیل دیا، تو کہیں کارل مارکس، لینن ، مزدک اور دیگر کے افکار پر بے تکی
بحث کر کے اسکو اقبال کی زبان دینے کی کوشش کی، اقبال کی شخصیت کا آئینہ
پاش پاش کرنے کی کوشش میں موصوف بھول گئے کہ یہ تو وہ آئینہ ہے کہ ’’ شکستہ
ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں‘‘
فاضل مصنف کی کتاب کا رد لکھتے کوشش ہو گی کہ قلم تہذیب کے حصار میں رہے ،
علمی دلائل کے گلابوں کی پتیاں چن کر ان میں خلوص اور اخلاق کی حلاوت شامل
کئے تمدن کی دھیمی آنچ پر تخلیق کی شرینی تیار کروں، پھر بھی کہیں قلم اگر
بہک جائے تو اس کی ذمہ داری فاضل مصنف کے زبان و بیان پر ہو گی کہ بقول
غالب:
ہر اک بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
(باقی اگلی قسط میں جاری ہے)
نوٹ:
اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کے مطالعے سے بھی مدد لی گئی:
۔ فکر اسلامی کی تجدید اور علامہ اقبال (ڈاکٹر اسرار احمد)
۔ مطالعہ اقبالیات (ڈاکٹر وسیم انجم)
۔ اقبال مشاہیر اہل قلم کی نظر میں (ڈاکٹر محمد کلیم ضیاء ۔ بھارت)
۔ نعیم جاوید (بھارت)
|