گمشدہ محبت

وہ د ھواں اگلتی انگیٹھی کے گرد جمع تھے۔ رات کے سنا ٹے میں ان کی آ وازیں میں با خو بی پہچان سکتا تھا ۔
” میرا تو یہ ما ننا ہے کہ یہ جذ بہ محض ریت پر لکھے ہو ئے چا ر الفاظ ہیں جو ہوا کی ہلکی سی شرارت سے مٹ جا تے ہیں “ ۔ اطہر فروش محبت کے با رے میں اپنی رائے پیش کر تے ہو ئے بو لا ۔
بو ڑھے کو چوان نے کہا ۔ ” اے اطہر فروش ! تجھے تو ہر چیز اپنی خو شبو ﺅں کی طرح مصنو عی اور نا قص لگتی ہے۔۔۔ محبت تو انسان کی پر چھا ئی ہے “ ۔
سنگ تراش اونچی آ واز میں بو لا ۔ ” بھائیوں ! مجھے پہلے یہ تو سمجھا ﺅ کہ محبت آ خر ہے کیا چیز “ ؟ ۔
گلی کے کو نے میں جا ری یہ بحث طو یل ہو گئی ۔ وہ آپس میں الجھنے لگے ۔ تب دیوار کے ساتھ ٹیک لگا ئے ملا ح نے اپنی خا مو شی توڑی ۔
” اے دوستوں ! جیسا کہ تم جا نتے ہو ، میں ایک جا ہل ملا ح ہوں۔۔۔آج تک کسی کتب خا نے کا ر خ نہیں کیا اور نہ ہی کسی درس گا ہ میں قدم رکھا ۔ لیکن اس کے با وجود میں اپنے سینے میں ایک ایسی دا ستا ن لیے گھو م رہا ہوں جو تمھا رے سا منے محبت کا بھید کھول دے گی “ ۔
کو چوان خو شی سے چلا یا ۔ ” اگر ایسا ہے تو ہم تمھا ری دا ستان ضرور سنے گے “ ۔
میں اسے سننے کے لیے کھڑکی کے کچھ اور قر یب ہو گیا ۔ پھر ملا ح نے اس ُاداس رات میں اک دلفریب دا ستان چھیڑ دی ۔
یہ ُاس وقت کی بات ہے جب میرا پڑاﺅ بحر ہند کے ساحل پر تھا ۔ ایک دن جب میں اپنی کشتی کے شکستہ حصو ں کی مر مت کر رہا تھا تو ایک اجنبی شخص میر ے قریب آکر کھڑا ہو گیا ۔ بے تر تیب بڑھی ہو ئی داڑھی ، گر د آ لود کپڑوں اور ہا تھ میں پکڑی ہو ئی کتاب سے وہ کو ئی فلسفی معلو م ہو تا تھا ۔ وہ دھیمے لہجے میں بو لا ۔
” میں علم کا متلاشی ایک مسا فر ہوں۔۔۔حکمت و دانش کے مو تی سمیٹتے ہوئے میں نے عظیم کتب خا نے گھنگا ل ڈالے اور معرف درس گا ہوں میں مقیم عا لموں کی محفل میں وقت گزارا پر میں آج تک محبت کے معنی نہ سمجھ سکا۔۔۔میں اس عظیم جذبے کی حقیقت کو نہ پا سکا ‘ اب کا غذ کے سا تھ چمٹے ہو ئے سیا ہ الفاظ میر ی آنکھوں میں چبھتے ہیں “ ۔
میں نے حیر انگی سے اس کی طرف دیکھتے ہو ئے کہا ۔ ” میں تو ایک جا ہل گوار ملا ح ہوں جو مچھلیوں کی بو لی سمجھتا ہے۔۔۔۔لہروں کی چال سے موسموں کا مزاج معلوم کر تا ہے اور کشتی کو اپنی اولاد ما نتا ہے ۔ میں بھلا اس سلسلے میں تمھاری کیا مدد کر سکتا ہوں “ ۔
میر ی بات سن کر فلسفی نے اپنی کتاب قریب ہی گھاس پھوس کے ڈھیر پر پھینک دی ۔ ” مجھے کسی عا لم کی نہیں بلکہ ایک رہبر کی ضرورت ہے ۔ ہم دونوں دنیا گھو میں گے۔۔۔۔محبت کو تلاش کریں گے اور اس کی فطرت کو جا نیں گے “ ۔ اس کی خواہش سن کر میں انکار نہ کر سکا ۔ چو نکہ کچھ دنوں کے بعد ہم سفر پر روانہ ہو گئے ۔
دس دن کی مسافت طے کرنے کے بعد ہم اک ایسے شہر میں پہنچے جہاں لو گوں میں پر سرار جوش و خروش پا یا جا تا تھا ‘ با زاروں میں غیر معمو لی بھیڑ تھی۔ لوگ نئے کپڑے خرید رہے تھے ‘ عور تیں بنا ﺅ سنگھار میں مصروف تھیں اور بچے چہکتے پھر رہے تھے ۔ فلسفی نے ایک راہ گیر سے پو چھا ۔ ” یہ لوگ کو ن سا تہوار منا نے کی تیا ر یوں میں لگے ہو ئے ہیں “ ؟ ۔
” ارے تمھیں نہیں معلوم “۔ وہ حیر انگی سے بو لا۔ ” مہا راجہ نے اپنی شا دی کی خو شی میں آ ج ہر خا ص و عام کو اپنے محل میں دعوت دے ر کھی ہے ‘ لو گ وہی جا نے کی تیا ری کر رہے ہیں “۔
دو پہر کو شہری ہجو م کی صو رت میں مہا را جہ کے محل کی طر ف بڑھنے لگے ۔ وہ آپس میں با تیں کر تے جا رہے تھے ۔
” ارے سنو ! کیا تمھیں خبر ہے کہ مہا راجہ کی نئی نو یلی دلہن نے بیاہ رچا نے کے لیے کیا شر ط لگا ئی تھی۔۔۔وہ چا ہتی تھی کہ مہا راجہ پہلے شما لی ریاست فتح کر ے پھر شا دی کے خو ا ب دیکھے “ ۔
” ہا ں یہ درست ہے۔۔۔ مہا راجہ سا ت سا ل تک اس عو رت کی خاطر جنگ و جد ل میں مصروف رہا اور آخر کا ر کا میاب ہو گیا “ ۔
” سنا ہے دلہن کا ز یور روم سے منگوایا گیا ہے اور لبا س مصر کے جو لا ہو ں نے تیا ر کیا ہے “ ۔
” وا قعی مہا را جہ اس سے از حد محبت کر تا ہے “ ۔
لو گ محل کے سا منے بڑے احا طے میں جمع ہو نے لگے ۔محا فظ چیخ چیخ کر لو گوں کو ہدایات دے رہے تھے۔ سرخ وردی میں ملبوس نگران اعلیٰ لو گو ں سے کہہ رہا تھا ۔
” ابھی چند لمحوں بعد مہا راجہ اور مہا رانی رعا یا کے سا منے جلوا افروز ہو نگے۔۔۔اداب کو خاطر میں رکھتے ہو ئے سب کی نگا ہیں اس طرف ( اس نے اونچے برج کی کھڑکی کی طرف اشا رہ کیا) ہوں اور ہا تھ بندھے ہو ئے ہوں “ ۔ پھر کھڑکی کا پردہ اٹھا ‘ مہا راجہ اور مہا رانی نے لو گوں کی طرف دیکھ کر ہا تھ ہلا یا ۔ میں نے فلسفی سے کہا ۔ ” یہ دونوں واقعی ایک دوسرے کی محبت میں سر شار ہیں “ ۔
” افسوس کہ تم نے انا پر ستی کو محبت سمجھ لیا “ ۔ فلسفی نا گواری سے بو لا۔ ”یہ دونوں اپنی اپنی ذات کے ُا ڑ ن کھٹو لے میں سوار ہو کر ایک دوسرے سے ا ونچا ا ڑ نے کی کو شش کر رہے ہیں۔۔۔۔۔
یہ وہ نہیں جس کی ہمیں تلاش ہے “ ۔
ہم نے انجان سر زمینوں پر سفر جاری رکھا۔۔۔ہزاروں اجنبی چہروں پر عیاں کہا نیوں کو پڑھا اور ان کے پیچھے سوئی ہو ئی حقیقت کو جگا یا۔ کہیں جنسی بھوک کو محبت کا جھو ٹا لبا دہ اوڑھے دیکھا تو کہیں خود پرستی کو محبت کے نام پر پروان چڑ ھتے پا یا۔ ہما رے اردگرد بے شمار بہروپییئے تھے جو محبت کی توہین کر رہے تھے۔ یہ کیسی درد ناک بات تھی کہ ہم محبت کی تلاش میں تھے مگر ہما ری راہوں میں جگہ جگہ نفرت کے آتش فشاں جل رہے تھے ۔ نفرت کسی بھو کے درندے کی طرح اپنے سامنے آنے والی ہر چیز نکل رہی تھی۔۔۔مذہیب جو محبت کے پا نیوں میں ڈوبا ہو تا ہے۔۔۔اب بارود کے ڈھیر میں سسک رہا تھا۔ نام نہاد اعلیٰ تہذیبوں میں آدم خوروں کا راج تھا‘ گھر کے مکین، شہری اور ریاستیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی تھیں۔ زیر زمین کار خانوں میں اسلحہ سازی عروج پر تھی۔۔۔آسمان سے آگ برسانے اور زمین کو پھاڑنے کی تد بیریں سو چی جا رہی تھیں۔ سفر کے دران ہم نے میدان جنگ کا منظر دیکھا۔۔۔توپوں کے دہانوں سے دھواں اٹھ رہا تھا‘ میدان انسانی گوشت کے لو تھڑوں سے بھرا ہوا تھا‘ بارش نے خون کو زمین پر کچھ اور پھیلا دیا تھا۔ میدان کے وسط میں ایک فوجی ہاتھ میں شراب کی بوتل پکڑے کھڑا تھا، اس کا وزنی بوٹ ایک بچے کی کٹی پھٹی لاش پر تھا، وہ اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر چلا یا۔ ” ہم جیت گئے “۔
سر شام شہر کے کوچوں، گلیوں سے گزرتے ہوئے ہم نے ایک کمسن طوائف کو اپنی کو ٹھری کی دہلیز پر بیٹھے ہو ئے دیکھا جو بڑی اداسی سے گنگنا رہی تھی۔۔۔
” محبت جب سے روٹھ گئی ہے ،،،،دھرتی جسے سوکھ گئی ہے “ ۔
پھر جا ڑے کے موسم میں ہم بحر الکاہل کے ساحل پر قائم ایک ریاست میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ بڑے بڑے گو داموں میں خوراک ذخیرہ کر رہے ہیں ۔ فلسفی نے ایک شخص سے پوچھا۔
” تم آخر یہ اتنی خوراک کیوں جمع کر رہے ہو“؟۔ اس شخص نے جواب دیا ۔
” کیو نکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری ریاست میں کبھی بھی خو راک کی قلت پیدا ہو “۔ فلسفی نے کربناک لہچے میں کہا ۔
” پر جو محبت کا قحط ہمارے دلوں میں پڑ چکا ہے اس کا کیا کرے “۔
محبت کی تلاش میں بھٹکتے ہمیں سالوں گزر گئے ۔ ایک دن فلسفی چلتے چلتے رک گیا، وہ قبرستان کی کچی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس کے دل کے بادبان پھٹ گئے اور وہ غم کے لاوے میں ڈولنے لگا ۔
” ہم بھی کیسے بےوقوف ہیں “۔ فلسفی مجھ سے مخاطب ہوا ۔ ” سلگتی ہو ئی دوزخ میں جنت کی ٹھنڈک تلاش کر رہے ہیں۔۔۔اے ملاح ! دیکھ کہ دنیا میں نفرت کی ہزاروں شکلیں ہیں پر محبت کا نام و نشان نہیں ہے‘ افسوس کہ ہم نے اتنا عر صہ ایک سراب کے پیچھے بھاگتے ہو ئے گزار دیا۔ کتا بوں میں درج محبت کی کہا نیاں صرف کہا نیاں ہیں۔۔۔سب جھوٹ ہے ۔۔۔بس حقیقت ایک ہی ہے اور وہ ہے نفرت۔ میرے دوست! ہمارا یہ سفر رائیگاں گیا“۔
دل کی کشتی کے شکستہ حصوں سے پانی داخل ہونے لگا۔۔۔وہ اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپاتے ہوئے روپڑا۔ کچھ فاصلے پر برگد کے درخت کی اوٹ سے ایک فقیر نکل کر ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا اور بو لا ۔ ” سنو! یہاں سے بہت دور مغرب کی طرف گھنے جنگلوں سے ڈھکا ہوا ایک جزیرہ ہے۔۔۔۔تم محبت کو وہاں پاﺅ گے“۔
فقیرکی بات سن کر ہم نے اپنی امید کی کشتی سنبھا لی اور پرسرار کائنات کے لا متنا ہی سمندر میں اتر پڑے جہاں لہریں عرش کے موسیقاروں کی دھنوں پر رقص کر تی ہیں اور نو رانی کمہاروں کی انگلیوں کی حرکت سے اس میں طغیا نی پیدا ہوتی ہے۔ ہم محو سفر رہے حتیٰ کہ ستارے بو ڑھے ہو گئے اور آسمان کچھ اور جھک گیا ‘ سورج سرد پڑ گیا اور چاند بدصورت ہو گیا۔ یہ من کا سفر تھا جو نفس کی اندھیر سرنگوں میں جاری تھا۔ بلا آ خر ہم ایک صبح جزیرے پر پہنچ گئے ‘ یہاں ُ حسن کے تمام شہکار مو جود تھے۔۔۔جنگل، پہاڑ، جھیلیں ، آبشار،پھل پھول ، چرند پرند۔۔۔غرض قدرت کی تصویر کے سب رنگ یہاں چمک رہے تھے۔ ایک غار کے دہا نے کے قریب پہنچ کر فلسفی نے کھو ئے ہو ئے لہجے میں کہا۔ ” کیسی مقدس جگہ ہے یہ “۔ تب غار کے اندر سے انتہا ئی سر یلی آ واز ہما ری سماعت سے ٹکرائی
” یہاں سب بستے ہیں۔۔۔ُ حسن، امن، سکون ، مسرت پر افسوس کہ انسان یہاں نہیں بستے “ ۔ یہ سن کر ہم غار میں داخل ہو ئے اور پکار کر کہا۔” کون ہے یہاں پر “۔ وہی دل نشین آواز دوبارہ گو نجی ۔ ” شا ید کہ میرا نام تم نے سنا ہو۔۔۔میں محبت ہوں ‘ مدت ہو ئی کہ انسان نے مجھے اپنے دل سے نکال کر اس تا ریک غار میں پھینک د یا ‘ تب میرے ہم جو لی یعنی ُ حسن، امن، سکون اور مسرت بھی یہاں آ بسے اور پھر جنگیں،بد امنی اور آ فتیں انسان کا مقدر ٹھہریں۔ کیو نکہ انسان نے مجھے دھتکا ر کر نفرت کو اپنا ساتھی بنا لیا۔ کیا تم جا نتے ہو کہ نفرت اور میرے درمیان کیا فرق ہے۔۔۔اے نا دا نوں ! میں اگر کسی ویران، بیا بان، اجڑے ہو ئے دل میں بھی بسیرا کرلوں تو اسے جنت بنا دوں جبکہ دوسری طرف اگر نفرت کسی ولی کے من میں بھی گھس جا ئے تو اسے دوزخ بنا دے۔ ہا ئے افسوس کہ انسان نے اپنے عہد کا سب سے گھٹیا سودا کیا ہے ۔ سنو کہ میں ایک ایسا عظیم جذ بہ ہوں جو دلوں کی غلاظت کو دھیرے دھیرے صاف کر تا ہے اور جب دل بیما ریوں سے پاک ہو جا تا ہے تو تم اس میں میرا چہرہ دیکھ سکتے ہو۔ میں تمھیں اور کیا کیا بتاﺅں۔۔۔۔تخلیق کار نے مجھے انسان کو انسان اور انسان کو کا ئنات کے ساتھ جو ڑے رکھنے کے لیے پیدا کیا ہے پر اب ان کے درمیان خلاء ہے جسے نفرت کہتے ہیں۔ اے کاش کو ئی تو ” غلام فرید “ آئے جو مجھے اپنے دل کے آنگن میں ا تا رے اور میری روح کو اپنے کلام میں پرو کر صحراﺅں میں میئں بر سائے۔۔۔کو ئی تو ہو۔۔ ۔۔
کو ئی تو مسیحا آ ئے جو مجھے اپنی چادر میں سمیٹ کر اس جلتی ہو ئی دنیا پر تان دے “ ۔
Ahsan Raza
About the Author: Ahsan Raza Read More Articles by Ahsan Raza: 2 Articles with 1775 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.