آج سے ٹھیک چار دن قبل ہم نیوز کے شو بریکنگ ود مالک میں
آپ نے مولانا طارق جمیل صاحب کو معافی مانگتے دیکھا ہوگا. اس معافی کی وجہ
یہ ہے کہ پرائم منسٹر کورونا فنڈ کے لئے حکومت کی جانب سے ایک ٹیلی-تھون کا
انعقاد کیا گیا جس پر مختلف چیینلز کے صحافی اور اینکر حضرات کو مدعو کیا
گیا. لیکن اس کے آخر میں دعا کے لئے حضرت مولانا طارق جمیل صاحب کو خاص طور
پر پرائم منسٹر کی خواہش کے مطابق مدعو کیا گیا. ٹیلی - تھون کے آخر میں
حسب پروگرام مولانا صاحب تشریف لائے اور دعا سے پہلے کچھ بیان فرمایا. جس
میں انھوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر قوم چار چیزیں چھوڑ
دے یعنی جھوٹ، دھوکہ، بے حیائی اور حرام ذرائع آمدن تو ہم اس کورونا وائرس
سے نجات حاصل کرسکتے ہیں. کیونکہ یہ چار چیزیں قوم کو تباہ و برباد کر دیتی
ہیں اور اگر یہ چار چیزیں چھوڑ دیں تو ﷲ ہم سے راضی ہوجائے گا اور یہ
کورونا وائرس سے نجات حاصل ہوجائے گی. نیز انھوں نے میڈیا کے جھوٹے ہونے کا
گلہ کیا اور مزید ایک چینل کے مالک کی روداد سنائی جو کہتا تھا کہ مولانا
چینل بند ہوسکتا ہے لیکن جھوٹ نہیں بند ہوسکتا. بس یہ ہی الفاظ مولانا کی
معافی کی وجہ بن گئے. کیونکہ جیسے ہی ٹیلی-تھون سے اینکر اور دیگر صحافی
واپس آئے تو مولانا پر تنقید کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا. وہاں موجود کچھ
اینکرز نے مولانا کے لئے تیز و تند الفاظ کا بھی چناؤ کیا. بس پھر تو میڈیا
پر شور بدتمیزی برپا ہوگیا. اس موقع پر جہاں مولانا کو تنقید کا نشانہ
بنایا گیا. وہاں بعض نے اس کو بے معنی بحث قرار دیا. نیز یہ کہ اتنا شور
برپا ہوا کہ مولانا صاحب کو یہ بحث ختم کرنے کے لئے معافی مانگنا پڑی. جس
پر کچھ اینکرز کا ردعمل یہ تھا کہ مولانا کے پاس کوئی دلیل نہیں اس لئے
انھوں نے معافی مانگ لی اور اس کو اپنی جیت گردانتے رہے. لیکن ان احمقوں کی
جنت میں رہنے والے باسیوں کو کون سمجھائے کہ یہ معافی ان کی جیت نہیں بلکہ
کسی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے. کیونکہ مولانا نے ان کو بے نقاب
کردیا ہے اور کیا ہی خوبصورت پیغام دیا ہے کہ جاہل کے منہ نہ لگو اور دلائل
ہوتے ہوئے بھی معافی مانگ کر بات رفعہ دفعہ کرو. بد قسمتی سے ہمارے ملک میں
معافی ہمیشہ عوام کی خدمت کرنے والے کو مانگنا پڑتی ہے. آج سے پہلے ہمارے
اور سب کے محسن عبدالقدیر خان کو معافی مانگنا پڑی، پر کسی نے یہ نہیں سوچا
کہ ہم چوروں اور جھوٹوں سے معافی نہیں منگواتے بلکہ اس کے برعکس محسن اور
شریف شخصیات سے معافی کا مطالبہ کرتے ہیں. یہی تو ہمارے معاشرے کا علمیہ
ہے. لیکن یہاں میں یہ بات سوچ رہا ہوں کہ میڈیا کو جھوٹا کہنے پر صرف چند
اینکرز ہی آگ بگولہ کیوں ہوئے؟ آپ نے وہ کہاوت تو سنی ہوگی چور کی داڑھی
میں تنکا بس یہ ہی اس بحث کا ماخذ ہے. کیا میڈیا جھوٹ نہیں بولتا اگر آج
عوامی سروے کروایا جائے تو سب کچھ سامنے آجائے گا. کیونکہ بعض اینکرز اور
صحافیوں کے ایسے جھوٹ ہیں جو آج بھی ہضم نہیں ہوتے مثلاً کہ نواز شریف کچھ
بھی ہو باہر نہیں جائیں گے، زرداری کبھی جیل سے ضمانت پر رہا نہیں ہوں گے.
لیکن پھر تاریخ پاکستانی میں ہم نے دیکھا کہ میاں نواز شریف باہر بھی چلے
گئے اور زرداری صاحب ضمانت پر رہا بھی ہوگئے. اور یہ ہی نہیں سب سے بڑا
جھوٹ جو اس موقع پر بولا گیا کہ عمران خان کی حکومت مارچ تک مشکل سے قیام
کرے گی. لیکن آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں عمران خان کی ہی حکومت ہے.
لہٰذا یہ بات تو مولانا کی جھوٹ نہیں کہ میڈیا جھوٹ بولتا ہے. اب جبکہ
مولانا معافی مانگ ہی چکے ہیں تو میں یہ بات ذہن نشین کرواتا چلوں کہ میڈیا
نے یہ کروا کے اپنے آپ کو کمزور اور بے نقاب کروا لیا ہے. اس موقع پر ایک
واقعہ بیان کرتا چلوں جو کہ علماء حق کی تذلیل کرنے والوں کے انجام سے
متعلق ہے . کمال ابن القدیم نے تاریخ حلب میں بیان کیا ہے کہ : ابن منیر
نامی شخص جو حضرات شیخین کو برا کہتا ہے، جب مرگیا تو حلب کے نوجوانوں کو
ابن منیر کا انجام دیکھنے کا داعیہ پیدا ہوا، آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے
سنا ہے کہ جو شخص سیدناابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتا ہے تو اس
کا چہرہ قبر میں سور جیسا ہوجاتا ہے ، اور ہم جانتے ہیں کہ ابن منیر شیخین
کو برا کہتا تھا، چلو اس کی قبر کھود کر دیکھیں کیا واقعی ایسا ہی ہے، جیسا
کہ ہم نے سنا ہے، چنانچہ چند نوجوان اس پر متفق ہوگئے اور بالآخر انہوں نے
ابن منیر کی قبر کھود ڈالی، جب قبر کھودی گئی تو کھلی آنکھوں سے دیکھا گیا
کہ اس کا چہرہ قبلہ سے پھر گیا اور سور کی شکل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چنانچہ
اس کی لاش کو عبرت کے لیے مجمع عام میں لایا گیا پھر اس کو مٹی میں چھپا
دیا گیا. مولانا کو بھی برا کہا گیا لیکن مولانا نے بڑے ظرف کا مظاہرہ کیا
بلکہ معافی تک مانگ لی کہ معاملہ یہیں ٹھہر جائے. جب کہ ان پر عمران خان کا
درباری ہونے کا الزام عائد کیا گیا. لیکن جب یہی مولانا نواز شریف سے ملنے
ان کے گھر جاتے اور جب انھی مولانا صاحب نے کلثوم نواز کا جنازہ پڑھایا تو
ان نام نہاد دانشوروں کے نزدیک مولانا صاحب درباری نہیں تھے. یہاں ساری بات
بغض عمران پر ختم ہوتی ہے کہ مولانا نے عمران خان کو قوم کی آخری امید کیوں
کہا، مولانا نے کیوں یہ کہا کہ اسے اجڑا چمن ملا ہے. اگر ہم مولانا کی بات
کریں تو تبلیغ میں انکی زندگی گزر گئی ہے. جتنی ان دانشوروں کی عمر ہے اتنا
تو حضرت کا تبلیغ کے لئے سفر ہے. یہی طارق جمیل ہیں جن سے تمام مکاتب فکر
راضی ہیں اور سب عقیدت و احترام سے انھیں سنتے ہیں. مولانا نے ہر شعبہ ہائے
زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تبلیغ کے ذریعے دین کی طرف مائل کیا ہے.
کیونکہ مولانا محبت و امید کی بات کرتے ہیں. اس لئے لوگ ان کی طرف راغب
ہوتے ہیں. یہ حضرت کا ہی کمال ہے جنھوں نے سخت سے سخت دل اپنے زور بیان سے
نرم کردیئے. اب جبکہ کچھ تیز جملے ان کی زبان سے نکل گئے تھے جس کا مقصود
کچھ غلط نہیں تھا بلکہ حدیث ہی کا بیان تھا. کیونکہ مولانا بھی انسان ہیں
اور کوئی بھی انسان خطا کا پتلا ہوتا ہے. لیکن غلطی کو معاف کرنے والا ہی
بڑا ہوتا ہے. نیز جو اپنی غلطی تسلیم کرلے وہ سب سے بڑا ہوتا ہے. اس موقع
پر مولانا کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرنا علماء حق کی تذلیل کے مترادف ہے. ﷲ
عزوجل ان لوگوں کو دنیا میں عبرت کا نشانہ بناتا ہے جو لوگ علماء کرام کی
تذلیل کرتے ہیں. ہمیں اپنی زبان علماء کرام کی غیبت و تذلیل سے محفوظ رکھنی
چاہیے. نیز یہ کہ ان کی خوبی اور نیک باتوں پر عمل کرنا چاہیے. ﷲتعالیٰ
ہمیں تمام علماء دین و حق سے عزت اور محبت کرنے والا بنائے. آمین |