دہشت گرد کون؟

امریکی صدر بارک اوباما نے رات کو بارک کیا کہ صلیبیوں کے بڑے دشمن اسامہ کو شہید کردیا گیا۔ اس خبر پر صلیبی دنیا سڑکوں پر نکل آئی ۔جشن منایا گیا۔ سر عام اس جشن فتح میں انتہائی حیا سوز کارستانیاں دیکھنے میں آئیں۔ خیر یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ صلیبیوں کے ہاں یہ سبھی کچھ انکے شریفوں کے معمولات ہیں۔ پاکستان کے اخبارات نے خبر دی کہ امریکی فوج نے چار ہیلی کاپٹروں میں سوار ہو کر پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلعی صدر مقام ایبٹ آباد میں حملہ کر کے حضرت مجاہد اعظم اسامہ بن لادن کو شہید کردیا۔ پاکستان کے ٹی وی نے وزیر اعظم اور دفتر خارجہ کے بیانات جاری کیئے۔ امریکی ہیلی کاپٹروں کا پاکستان کی حدود میں داخلہ کیسے ہوا۔ جگہ ائر فورس اور آرمی کے نصب شدہ ریڈار وں کو کیا امریکی لیزر شعاعوں سے ناکارہ کرکے ہیلی کاپٹر سینکڑوں کلو میٹر اندر آگئے۔ اس وقت پاکستان کی فوج کیا کررہی تھی، کاکول آرمی اکیڈیمی کے نزدیک اتنا بڑا معرکہ ہوا، ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہوا یا کسی سکیم کے تحت جان بوجھ کر اسے تباہ کیا گیا، امریکی خبیث پاک سرزمین پر پون گھنٹہ سے زائد عرصہ تک کاروائی کرتے رہے۔ سوچنے اور فکر کرنے کا مقام ہے کہ اگر امریکی اس طرح بے دھڑک اتنی بڑی مہم سر کرگئے اور پاکستان کے عوام کا اسی فیصد خزانہ جن لوگوں پر خرچ ہوتا ہے وہ لوگ کیوں بے خبر رہے؟ پھر ایک اور رخ سامنے آتا ہے کہ دنیائے کفر پر بھاری اسامہ بن لادن کیا ایبٹ آباد پکنک منا رہے تھے۔ جو دوسروں کو ہر طرح کے ہتھیار کا استعمال سکھاتا تھا خود غیر مسلح تھا؟ کوئی اسکا جاں نثار بھی نہ تھا، اسے بچانے کے لیئے ایک خاتون آگے آگئی؟ پھر اسکی لاش کو اسی وقت جاکر سمندر برد بھی کردیا گیا۔ لگتا ہے کہ امریکہ اور اسکے پاکستانی حمائتیوں نے جھوٹی کہانی کی ریہرسل یا تیاری نہیں کی۔ افغانستان سے ہیلی کوپٹر کتنی ٹینکیاں پٹرول کی ساتھ لائے؟ جھوٹ بولتے بولتے اسکی شکل ہی بگاڑ دی۔ غازی بیس سے انکا اڑنا تو مانا جا سکتا ہے۔ وہ جگہ بھی قریب ہے اور ملک کے اندر ہے لھذا ریڈاروں کو کیا پڑی کے ملک کے اندر سے پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹروں کی نشاندہی کرے ۔ ہمارے ریڈار تو اتنے بیچارے سہمے ہوئے ہیں کہ وہ تو روزانہ حملہ آور ڈرون طیاروں کی بھی نشاندہی نہیں کرتے ۔ امریکی صدر، وزیر خارجہ اور دوسرے سپوکس مینوں اور وومینوں کے لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتے بیانات امریکیوں کی مکاری ،فریب کاری اور جھوٹ پوری دنیا پر واضح ہورہا جبکہ پاکستان کے حکمرانوں کا بھی یہی حشر ہورہا ہے۔عوام تو اب آرمی چیف، ایر فورس چیف ، صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان سے سوال کررہے ہیں کہ ہمیں بتاﺅ کیا یہ پاکستان ایک آزاد اور مختار ملک ہے اس میں امریکی کیسے گھس آئے۔ یہ ہماری برداشت سے باہر ہے۔ اب ہمارے ایٹمی اثاثوں کا کیا بنے گا۔ ایسی صورت حال میں عوام کو اپنا تحفظ کرنے کا اختیار ہے۔ پاکستان مسلم عوام نے بنایا تھا۔ ۔

آئے دن پاکستانی امریکی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ڈرون حملوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے صدر، وزیر اعظم اور پاکستان کی سرحدوں کے محافظ جناب سالار اعلی کی جانب سے اکثر و بیشتر امریکی بدمعاشی اور دہشت گردی پر بڑی زور دار مذمت کرتے ہیں۔ ابھی وہ الفاظ مذمت فضا میں تحلیل بھی نہیں ہوتے کہ پھر ایک اندوہ ناک خبر پی ٹی وی نشر کرتا ہے کہ امریکی عفریت نے پاکستان کے غیور عوام میں سے ۵۲ کو نگل لیا۔ جنکی تعداد بتائی جاتی ہے کہ عورتوں اور بچوں سمیت چالیس افراد شہید ہوگئے۔ شمالی علاقہ جات کے مسلمان مرد،جوان، بوڑھے، عورتیں اور بچے اس طرح قتل ہورہے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں یہودیوں کے قاتل فرعون کی مثال بھی ناکافی ہے اگر ہلاکو خان کی مثال دی جائے تو وہ بھی معقول نہیں کیونکہ وہ ایک طوفان کی طرح آیا اور خون کی ندیاں بہا کر چلا گیا مگر وہ تو مشرف بہ اسلام ہوکر اسلام کے محافظ اور خادم بنے۔ یہ کیا ہورہا ہے؟ توجہ طلب بات یہ ہے کہ لفظ دہشت گردی کس نے اخذ کرکے امریکہ مخالف عناصر پر چسپاں کیا۔ اسی پچھلی دہائی کی بات ہے جب پاکستان کے اقتدارپر غاصبانہ قبضہ رکھنے والوں نے امریکہ کے مسلم کش اقدامات میں اسکی حمائت ہی نہیں کی بلکہ بھرپور تعاون کیا۔ پاکستان بننے کے بعد سے افغانستان کے عوام اور پاکستان کے عوام انتہائی پیارومحبت اور اعتماد کے ساتھ رہ رہے تھے۔ کشمیر کی جنگ ہو یا بھارت سے پنجہ آزمائی قبائلی لشکر وں نے ہمیشہ ہراول دستوں کا کام کیا۔ روس بدمست ہاتھی بن کر آگے بڑھا تو افغانستان کے مسلمانوں نے جس جی داری سے ایک عالمی سپر پاور کا بھرکس نکالااسکا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ہاں کہنے کو کہہ سکتے ہیں امریکہ نے میزائلوں کے ٹال لگا دیئے۔ اسلحہ خود نہیں چلتا چلانے والوں نے چلایا اور وہ بھی ایک بڑی عالمی مسلح قوت پر۔ امریکہ کو دنیا میں اپنے سوا کوئی اور سپرپاور قبول نہیں۔ یورپی طاقتیں وہ صرف اسلیئے برداشت کرتا ہے کہ وہ صلیبی ہیں اور امریکہ کی ہر بدمعاشی میں اسکے ساتھی ہیں۔ پہلی جنگ عظیم ہویا دوسری۔ ہر جگہ یہ تمام خبیث اکٹھے نظر آتے ہیں۔ راولپنڈی کے اوجھڑی کیمپ میں لاتعداد میزائلوں کا ٹال لگا ہواتھا۔ پھر ایک روز کسی سازش کے نتیجہ میں میزائل اس طرح اڑے کہ کئی کئی میلوں تک آگ برسنے لگی۔ کتنی تباہی ہوئی، کتنے لوگ لقمہ اجل بنے ، کتنے معذور ہوگئے۔ یہ ٹال کس کی اجازت سے لگے، انکے تحفظ کی ذمہ دار کس کے سپرد تھی؟ بس چند تعزیتی بیانات آئے اور معاملہ ختم۔ یہ تھی دہشت گردی امریکہ نے کرائی اور پاکستان کے جنرل ضیاءالحق نے سرپرستی کی۔افغانستان کے عوام دنیا کے بہترین مجاہدین اسلام ہیں۔ امریکہ سمجھا تھا کہ روس کے جانے کے بعد وہا ں اسکا سکہ چلے گا۔ مگر اسکے برعکس ہوا۔ جن لوگوں نے روس کا مقابلہ کیا وہ کسی کے تنخواہ دار ٹٹو نہ تھے۔ وہ جذبہ اور شوق جہا د سے سرشار تھے۔ روس کے جاتے ہیں ان لوگوں نے وہاں حقیقی اسلامی ریاست قائم کردی۔ اور بہت تھوڑے عرصہ میں افغانستان کے طول و عرض میں قرآن و سنت کے قانوں کی عملداری وجود میں آگئی۔ عالمی سطح پر ایک طویل عرصہ بعد خلافت اور امیرالمومنین کا نام منظر عام پر آیا۔ اسلام کی اصل روح خلافت ہے۔ خلافت علی منہاج النبوت ہی عین اسلام ہے۔ جس میں خلیفہ عوام کا خادم ہوتا ہے۔ اگر اس پہلو کی جانب مسلمان توجہ کریں کہ پہلی جنگ عظیم تک متحدہ اسلامی ریاست کا وجود تھا۔ سلطان ترکی کو خلیفہ مانا جاتا تھا۔ موجودہ خودمختار اسلامی ممالک خلیفہ کا حکم مانتے تھے اور انکی حیثیت صوبوں کی تھی۔ اگر کہیں کوئی فاتح علاقے فتح کرتا تو پروانہ اطاعت گزاری خلیفہ کی خدمت میں ارسال کرتا۔ نیز بیت المال میں رقم بھی جمع کراتا۔ اور اسے سند اطاعت عطا کی جاتی تھی۔ اگرچہ کہ اس نظام میں خامیاں تھیں لیکن نام خلافت ہی ایسا متبرک ہے کہ کفار اس نام سہی لرزتے ہیں۔ جب امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے اسلامی ریاست کے حصے بخرے کرلیئے تو برصغیر میں تحریک خلافت چلی۔ آج تک خلافت کی بحالی اگر نہ ہوسکی تو اسکی وجہ صرف نام نہاد اسلامی ممالک کے حکمران ہیں۔ انگریزوں نے ان علاقوں کو آزاد کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی کو سامنے رکھا کہ مسلمان کبھی متحد نہ ہوں اور ان آزاد کردہ علاقوں میں انکے ایجنٹ برسراقتدار آتے رہیں۔ جہا ں کسی نے سراٹھایا اور غیرت مسلم جاگی امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے اسے راہ سے ہٹانے کے لیئے کیا کچھ نہیں کیا ۔ اس کار بدکی سرانجام دہی میں انہوں نے اپنے پالتونام نہاد مسلمانوں کو استعمال کیا۔

آئیے ذرا حقیقت کا اعتراف کیجیئے۔دنیا کے تمام مسلمان عوام تو مسلم کش دہشت گردی کا اعتراف کرتے ہیں ، اس سے نفرت کرتے ہیں، انکے سینوں میں انتقال کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔ جہاں تک مسلم حکمرانوں کا تعلق ہے وہ غیرت مسلم اور مسلم خودی سے عاری ہیں۔ مسلم افغانستان میں ایک پرسکون اور آئینی حکومت پر حملہ امریکہ اور اسکے حواریوں نے کیا ۔تو میں دنیا کے دانزوروں ، سیاستدانوں، امن کے داعی اور انسانیت کے علمبرداروں اسے سوال کرتا ہوں کہ کیا امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا یہ اقدام کہیں عدل وانصاف اور انسانیت کی فلاح کا مظہر نظر آتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ تھی دہشت گردی کی ابتدا۔جسکی معاونت پاکستان کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے کی۔ پرویز مشرف اکیلا نہ تھا اسکے ساتھ بیوروکریسی، سیاستدان اور فوجی جرنیل تھے۔ کیا ایک مسلمان کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی پر چڑھائی کرنے والے کافر کی مدد کرے۔ ایسا کرنا تو قرآن و سنت کے مطابق از خود کفر ہے۔ جس نے ایک مسلمان کو جان بوجھ کرقتل کیا اسکا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جن لوگوں نے افغانستان کے مسلمانوں کے قتل میں امریکہ کا ساتھ دیا بلا شبہ وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔ تو کیا وہ مسلمان ہیں۔ پرویز مشر ف ماضی کا بدکردار مسلم دشمن ہے۔ مگر یہ جو شہید ذوالفقارعلی بھٹو کے جانشین بن آئے ہیں۔ ذرا انہیں دیکھیں کہ کس ڈھٹائی سے اس صاحب کردار سے رشتہ جوڑتے ہیں کہ جس نے پاکستان کو اس وقت ایٹمی طاقت بنانے کی ابتدا کی جب مسلم دنیا میں کسی کو اس کا خیال تک نہ تھا۔ ۔پھر اس شہید نے دنیا کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور تمام مسلمانوں کو متحد کرنے کا ارادہ کرلیا تو اسکی بات شہید شاہ فیصل اور جناب کرنل قذافی سمجھے۔ جب لاہور میں دوسری اسلامی کانفرنس کے روح پرور مناظر جھلملا رہے تھے توہ امریکہ اور اسکے اتحادی صلیبیوں کی نیندیں حرام ہوچکی تھیں ۔ انہیں دوبارہ مسلم اتحا دکی اٹھتی موجیں نظر آنے لگیں۔ امریکہ خبیث نے عظیم مسلم رہنما شاہ فیصل کو اسکے بھتیجے کے ہاتھوں قتل کرایا۔ شہید بھٹو نے ایٹمی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کو ملک میں بلایا۔ بقول ڈاکٹر صاحب کے کہ میرے کام میںبیوروکریسی حائل ہوئی ۔ جسکی شکائت میں نے شہید بھٹو سے کی تو انہوں نے کہا کہ تمہیں جو ضرورت ہوبلاواسطہ مجھ سے طلب کرو۔ فائلوں اور بیوروکریسی کو چھوڑو۔ امریکہ کو پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا کب گوارا تھا۔ امریکہ نے کھل کر اسکی مخالفت کی۔ مجھے یاد ہے کہ جب راولپنڈی کی بنک روڈ پر جناب عظیم قائدنے امریکہ کا دھمکی آمیز خط عوام کو دکھایا اور کہا کہ ملک میں نظام مصطفے کا مسئلہ نہیں۔ یہ ہنگامے امریکہ کے ایما پر ہورہے ہیں۔ لوگوں کو اسلام کے نام سڑکوں پر لایا گیا۔ جبکہ شہید وزیر اعظم کہ رہے تھے کہ آئین میں اسلامی نظام کے نفاذ کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ علماءکرام اس کام کو مکمل کرنے میں مدد کریں۔ مگر بات تو کچھ اور تھی ۔ اگر اس تحریک میں صداقت تھی تو شہید وزیراعظم کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد نظام مصطفے نافذ کرایا جاتا لیکن قائدین تحریک نے تو جنرل صاحب سے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ مغربی جمہوری نظام تو کفر ہے جسکا اقرار ہمارے قائدین تحریک خود کرتے تھے۔ لگتا تو یہ ہے کہ یہ لوگ امریکہ کے ایما پر تحریک چلارہے تھے۔ اقتدار سے محروم کرنے کے باوجود امریکہ اپنے آپکو شہید وزیر اعظم کی جانب سے غیر محفوظ سمجھ رہا تھا۔ تو اسنے آپکو قتل کرانے کا منصوبہ بنایا۔افسوس ہرشاخ پر الوبیٹھا تھا۔کفر کی حرکتوں پر ہم خنداں زن ہیں کہ انگریز سلطان ٹیپو شہید سے اس قدر دہشت زدہ تھے کہ مائیں بچوں کو ٹیپو نام سے درایا کرتی تھیں اور بعد شہادت سلطان کے قریب جانے سے ڈرتے تھے۔ انگریز نے مجاہدین اسلام اور غازیوں کو دہشت گر د کا نام دیا، جنگ آزادی کو غدر کا نام دیا اور یہی ہمارے اسوقت کے لکھاریوں نے لکھا ۔ شہید وزیر اعظم بھی امریکہ کی نگاہ میں دہشت گرد تھے۔ جبھی عدالتیں کیا تھیں؟ خود سوچیں جب جج صاحب کسی جرنیل سے پوچھ کر فیصلہ لکھیں تو کیا وہ انصاف ہوگا؟۔ یاد رکھیں ارشاد الہی ہے تلک الایام نداولھا بین الناس یہ دن لوگوں کے درمیان گردش میں رہتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ تاریخ سچوں کو سچا اور جھوٹوں کو جھوٹا ثابت کرتی ہے۔ نامہ اعمال تو پہلے سے مکمل ہیں صرف لوگوں کی عبرت کے لیئے ایسا ہوتا ہے۔ جیسا کہ اب شہید وزیراعظم پیغام دے رہا ہے کہ مجھے امریکہ اور اسکے ساتھیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی ،پھرسے خلافت کی بہاریں لانے کی پاداش میں شہید کیا۔ خبردار آج میری سچائی کے پرچم بلند ہورہے ہیں اور جھوٹوں پر لعنت ہورہی ہے۔ لیکن عین اسی وقت ایک مفاد پرست ٹولہ خود کو اس کا وارث بھی کہتا ہے اور اسلام دشمنی میں امریکہ کا ہر حکم بجا لارہا ہے۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو ہوتے تو امریکہ کو افغانستا ن، عراق اور لبیا پر چڑھائی کی جرات نہ ہوتی۔ وہ ایک غیر مند مسلمان رہنما تھا۔ بھارت نے سازش کرکے بھائی کو بھائی سے جدا کیا مگر جناب وزیراعظم اپنے مسلم بھائی بنگلہ دیش کو دوسری اسلامی کانفرنس میں لے آئے اور بھارت کے منہ پر تمانچا مارا کہ تم ہمیں جدا نہیں کرسکتے کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔یہ ذوالفقار علی بھٹو، ایک نظریہ ، ایک سوچ کا مالک کہ ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔ ہاں میں یہ بھی یاد دلاﺅں گا کہ ہماری قوم بڑی سای اور دوسرے الفاظ میں لائی لگ ہے۔ جہاں کسی جرنیل یا بڑے افسر یا سرمایہ دار کو وضو کرتے یا نماز پڑھتے دیکھ لیا بس اسے اوج ثریا پر پہنچا دیا۔ قوم مسلم کا دل شیشہ ہے۔ اسی مذہبی لبادے میں ظالموں نے اس کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے جرنیل صاحب نے اقوام متحدہ کے اسمبلی اجلاس میں قرآن پاک کی تلاوت کرائی، شلوار قمیص اور اونچے پائنچے نے تو ہمیں گھائل ہی کردیا۔ بس امیرالمومنین بنتے بنتے رہ گئے۔ زکوةمیں سود اور سود سے زکوة کا ملغوبہ تیار کیا۔ ملک میں تین قانون نافذ تھے۔ تھانہ دار استفسار کرتا کہ جناب کس قانون کے تحت پرچہ درج کروں۔اسلام بڑا روشن نظام ہے مگر اسے نافذ کرنے والے کی نیت بھی روشن چاہیئے۔ میں بات شہید وزیر اعظم کی کررہا تھا۔ جب وہ پس زندان تھے تو وفاق کی نمائندہ پاکستان پیپلز پارٹی شاذونادرہی نظر آئی۔ بڑے سورما ملک چھوڑ گئے، کچھ جیالوں نے فرعونی کوڑے کھائے جنکا نام اب تاریخ کے صفحات سے مٹا دیاگیا ہے۔ جب وزیر اعظم سخت اور کڑی آزمائش سے گزر رہے تھے تو عبوری حکومت میں شمولیت اور مجلس شوری کی رکنیت کے لیئے جاگیر دار، علما، مشائخ اور پیر بھرپور ہاتھ پاﺅں ماررہے تھے۔ جب شہید وزیر اعظم کو امریکہ کے ساجدوں نے تختہ دار پر لٹکا دیا تو کئی مذہبی اور سیاسی شخصیات نے حلوے پکواکریوں اظہار مسرت کیا جیسے عظیم مسلم مجاہد اسامہ بن لادن رحمہ اللہ علیہ کی شہادت پر یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زداری نے کیا ۔ شہید وزیر اعظم اور حضرت اسامہ شہید دونوں میں بہت حد تک مماثلت ہے عقائد و نظریات اتحاد امت، امت کے مستقبل کو درخشاں کرنے کے دونوں میں ایک جیسا جنوں پایاجاتاہے۔ اگر شہید وزیر اعظم آج ہوتے تو اسامہ شہید اور شہید وزیر اعظم امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے ہاتھوں خون مسلم کا بدلہ چکا چکے ہوتے ۔ کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب تیز مزاج تھے، ہاں حق بات پر ڈٹ جانا ایک سچے مسلمان کا وطیرہ ہے اور یہی انکا مشرب تھا۔ جبھی تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وہ دلیرانہ خطاب کیا کہ ان جیسا خطاب کسی نے آج تک جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر نہیں کیا۔ انکے کلمات کہ ہم ایک ہزار سال تک لڑیں گے۔ مسلمان قوم کے لیئے ایسا وظیفہ ہے کہ جو عظمتوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ حیرت ہے کہ موجود ہ پی پی پی کے وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ امریکی ڈرون حملوں کو بزور طاقت ہمیں روکنے کی صلاحیت نہیں بس بات چیت یعنی منت سماجت کرکے ہی کام چلائی گے۔ کیا یہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کا وزیر اعظم ہے؟۔ ایٹمی سائنسدان ثمر مبارک مند فرماتے ہیں کہ ڈروں طیاروں کو گرانے کی صلاحیت ہمارے پاس موجود ہے حکومت کہے تو سہی ہم اس کا تدارک کریں گے۔ افسوس قوم سوئی ہوئی ہے۔ شہید وزیر اعظم اور اسامہ کا حقیقی دشمن امریکہ اور اسکے اتحادی ہیں۔ دونوں نے مسلمانوں کو دنیا کی عظیم سپر پاور بنانے کا عزم کیا تھا۔دونوں کو شہید کرانے کے لیئے نام کے مسلمانوں کو استعمال کیا گیا۔ حیرت و استعجاب کی لہریں اذہان و قلوب سے افکاروتدبر کے لیئے پریشان کن گرداب پیدا کردیتی ہیں۔جب پی پی پی کا وزیراعظم ایک عظیم مسلم مجاہد کے امریکیوں کے ہاتھوں شہادت پر تہنیت کے پیغامات نشر کرتاہے۔ وہ صرف اس امریکہ اور اسکے اتحادی صلیبی شیطانوں کو خوش کرنے کے لیئے ، ان سے مزید اپنی تجوری کے لیئے ڈالر حاصل کرنے کے لیئے،اپنے بزگوں کی روایات کو بھی بھلا دیا ہے۔ یہ تو میں نے اہل اسلام کی آنکھیں کھولنے کے لیئے چند الفاظ لکھے لیکن اس دکھ کا مداواکیا ہے؟دل جلتا ہے، خون کھولتا ہے کہ آج مسلمان کثرت عددی ، کثرت وسائل، کثرت زر،کثرت آلات حرب کے باوجود صلیبیوں کے سامنے ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ فلسطین ہو یا کشمیر،افغانستان ہو یا عراق، لیبیا ہویا یمن ہرجگہ امریکی شیطانی ریشہ دوانیاں جاری ہیں۔ عظیم صلیبی عالم گیر جنگ کئی سالوں سے شروع ہوچکی ہے۔ ہر مسلم ملک میں امریکی سازشی موجود ہیں۔ مسلمان اپنے فرائض کی بجاآوری کے لیئے کلمہ شہادت کا اب حق اداکریں اور اس کے لیئے میری تجاویز یہ ہیں:

۱۔ تمام اسلامی ممالک کے حکمران ماسواایران اور لیبیا کے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے غلام ہیں جب تک ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم نہیں کیا جاتا مسلم امہ اپنے مقاصد منشاءالہی کے مطابق حاصل نہیں کرسکتے لھذا تمام اسلامی ممالک کے عوام اپنے دین کی سربلندی کے لیئے کھڑے ہوجائیں اور ان منافق حکمرانوں کو اقتدار سے علیحدہ کریں۔

۲۔ سورة المائدہ میں حکم الہی کے مطابق یہودو نصاری ہمارے دشمن ہیں اور جو انکا دوست ہے وہ بھی انہیں میں سے ہے۔ ہر طرح کے تعلقات امریکہ اور اسکے اتحادی صلیبیوں سے منقطع کرکے مکمل بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا جائے۔

۳۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے قرآن پاک کی بیحرمتی کی اور ہمارے آقا و مولا ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیں انکی قبیح اور شیطانی حرکات کا انسے بدلہ لینے کے لیئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے مثلا انکے سفارتی عملہ کو اسلامی ممالک سے نکالا جائے، انکی مصنوعات کی درآمد اور اپنی مصنوعات ان ممالک میں بھیجنے پر سخت پابندی عائد کی جائے۔

۴۔ چونکہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے پرامن افغانستان، عراق اور لییا پر فوج کشی کی ہے لھذا دنیا میں جہاں کہیں بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی عسکری تنصیبات ہیں ان پر حملے کرکے انہیں تباہ کردیا جائے۔

۵۔ اسلامی ممالک میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے فوجیوں کو مسلمانوں کے خون کے قصاص میں قتل کیا جائے۔ حکم الہی کے مطابق ان پر غیظ وغضب کیا جائے تاکہ انکی نسلیں یاد رکھیں۔

۶۔ سرمایہ دار مسلمان عظیم صلیبی عالمگیر جنگ کے لیئے مجاہدین اسلام کو سرمایہ فراہم کریں۔

۷۔ دنیائے اسلام ایک بلاک ہے اور صلیبی کافر ہر جگہ انکے نرغہ میں متحدہ عساکر اسلامیہ کم از کم یورپین سے اپنے مسلم علاقے اندلس سمیت واپس لیں۔

۸۔ جب تک خلافت برپا نہ ہوگی اتحاد ممکن نہیں اور بغیر اسکے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا علاج ناممکن ہے۔

۹۔ مسلمان اللہ کا پجاری ہے اور اللہ حی و قیوم ہے اللہ کے کسی مجاہد یا پیارے کی شہادت سے ہمارے اعمال کمزور نہ ہوں کیونکہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ اور قیامت کے روز اسکے اعمال اسکے کام آئیں گے۔ جو لوگ دین حق کی سربلندی میں جدوجہد کرتے شہید ہوچکے وہ کامیاب ہوگئے۔ ہمیں بھی اپنے اللہ اور رسول کی خوشنودی کے لیئے اپنے بھائیوں اور بزگوں کی راہ پر چلتے ہوئے، مسلمانوں سے محبت کرتے ہوئے دین کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے مقاصد زیست کو پورا کرنا ہے۔

تو ہر مسلمان ملک کے مسلم عوام اٹھو! اپنے رب کی خوشنودی کے لیئے صلیبیوں کو انکے انجام بد تک پہنچا دو۔ اللہ ہم سب کاحامی و ناصر ہو گا۔ آمین۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 129954 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More