2مئی 2011ء کو اسامہ بن لادن کی
ہلاکت و شہادت کی خبر پڑی تو دل میں عجیب سی گدگدی ہو نے لگی۔ موت اس لئے
کہ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے اسامہ کو ہلاک کر دیا اور شہادت اس لیے کہ
ہو سکتا ہے کہ خدا کے ہاں اس کا مرتبہ ہم جیسے گناہگاروں سے بلند و بالا ہو
اور جس طرح سے دنیا میں غیر مسلموں سے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی روح اس کے
بدن سے جدا ہو ئی وہ شہادت کا رتبہ رکھتی ہو۔
اخبار میں امریکہ کی طرف سے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی شہ سرخیاں نمایاں
دیکھیں تو زیر لب مسکرا دیا اور دل سے ایک صدا بلند ہو ئی کہ امریکہ نے
بلاآخر ایک اور اسامہ کو کنارے لگا دیا۔ اسامہ کی موت کا یہ پہلا واقعہ
نہیں ہے اور اسی طرح کے دس مزید واقعے کی توقع امریکہ سے کرنا کوئی اچھنبے
کی بات نہیں، جن میں سے دوچار اسلام آباد اور اس کے قرب وجوار میں ہو نے کے
امکانات بھی ہیں۔اسامہ کی تلاش میں جتنے بے قصور لوگوں کی اولاد ،ماﺅں ،
بہنوں اور باپ کو موت کے منہ میں دھکیلا گیا تو ان میں سے جس کا باپ بچ گیا
تو وہ اسامہ کا نظریاتی جانشین بن گیا تو جس کا بیٹا بچ گیا تو وہ بھی
اسامہ کا نظریاتی جانشین بن گیا اور اسی طرح اب سے سلسلہ سالوں پر محیط ہو
چکا ہے تو اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اسامہ کی ہلاکت کی تصدیق و تائید کر
کے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ہرگز ایسا ہو تا نظر نہیں آتا اور امریکہ
سمیت جو لوگ ایسا سوچ رہے ہیں وہ سبھی احمقوں کی جنت میں سو رہے ہیں۔اس
دہشت گردی کو پاکسان میں اتنا دوام بخش دیا گیا ہے کہ اس میں عام لوگوں کے
ساتھ ساتھ ہماری فوج بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔
آج سے تین سال پہلے میں نے اپنے کالج کے کمرہ جماعت میں کھڑے ہو کر ایک
تقریر میں یہ بات کہی تھی کہ امریکہ کا مقصد صرف وصرف پا کستان کے ایٹمی
اثاثوں تک رسائی حاصل کرنا اور پاکستان کے وسائل پر قابض ہونا ہے۔جس کی
کالج کے سر براہ نے مکمل مخالفت کی تھی ۔تو میں آج بھی یہی کہتا ہو ں کہ
امریکہ کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے جس کے لیے وہ اسامہ کا ڈھونگ رچا
رہا ہے۔ اب تو ہمارے بلوچستان کے وسائل کا بھی امریکہ کو علم ہے کہ اگر وہ
وسائل پاکستان کے ہاتھ آگئے تو پاکستان بھی امریکہ کے آگے سینہ تان کر کھڑا
ہو جائے گا جس طرح کہ ایران امریکہ کو آنکھیں دیکھا تا نہیں گھبراتا ۔
ایک اخبار نے اسامہ کے چہرے کی مسخ شدہ تصویر شائع کی اسے دیکھ کر تو ایک
بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ یہ اسامہ بن لادن 25 سے 30 سال کی عمر کا ہے جسے
امریکہ نے ایبٹ آباد جیسے علاقے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔نہ جسد خاکی
کی کوئی خبر اور نہ سمندر برد کرنے کا ثبوت،جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب
ٹوپی ڈرامہ ہے۔ایک عام شعور کی بات یہ کہ دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب ترین
شخص ،جس کے آگے پیچھے پہاڑوں اور غاروں میں بھی کئی کئی نقاب پوش اور مسلح
محافظ ہو تے تھے وہ ایک معمولی طرز کے سیکیورٹی حصار سے مزین گھر میں کیسے
رہ سکتا تھا۔۔۔؟کوئی بھی باشعور شخص اس امریکی دعوے کو قبول کرنے کے لیے
تیار نہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہو سکتا کہ اسامہ کہیں اور طبعی موت مر
چکا ہو اور اس کے علامتی بیوی بچے امریکہ کے ہاتھ لگ گئے ہوں اور انھیں بھی
پاکستانی بچوں کا طرح ڈالر دے کر خرید لیا گیا ہو جس کی وجہ سے وہ اسامہ کی
ہلاکت کی تصدیق کر رہے ہیں اور اسامہ کے من گھرٹ وصیت نامے بھی سامنے لا ئے
جارہے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ دہشت گردی کی جنگ میں امریکی معیشت ڈھانواں ڈھول ہو چکی ہے
اور اپنی گرتی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے امریکہ کو ایک ایسے بزدل اور
کمزور ملک کی ضرورت ہے جو صرف ”تنگ نہ کر یار“ کے جملے کا استعمال کرتے ہو
ئے ہر ناجائز اقدام کو سر تسلیم خم کرتے ہو ئے قبول کر لے اور دنیا میں ہم
جیسے بزدل ،کمزور اور لالچی ملک کی مثال نہیں ملتی۔دوسری اہم بات یہ کہ
امریکہ کو افغانستان سے اپنی فوج کو واپس بلانا ہے تو اس کے لیے ایبٹ آباد
کا ڈرامہ کارگر ثابت ہورہا ہے۔ہمارے لالچی اور بزدل حکمرانوں کی حالت” تنگ
نہ کر یار“ سے بھی گئی گزری ہے کہ اگر انھیں ان کی مطلوبہ تعداد میں ڈالر
تھما دئے جا ئیں تو یہ کئی کئی گھنٹے تک ایئر پورٹ پر ڈالرں کا انتظار کرنے
کے لیے بھی تیار بیٹھے ہیں۔
مبارک ہو اسامہ بن لادن بشرطیکہ تجھے پاکستان میں غیرمسلموں کے ہاتھوں موت
نصیب ہو ئی،تیرے جانے کے بعد بھی امریکہ تجھ جیسے نڈر مجاہدوں سے خوف زدہ
ہے اور روز قیامت تک غیر مسلم مسلمانوں کے جہاد سے خوف زدہ رہیں گے چونکہ
حدیث نبوی ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا تو دنیا کی کتنی ہی بڑی سپر
پاور آجائیں تو نبی کے امتیوں کے جہاد کے آگے بے بس ہی رہیں گی۔اسامہ تیری
جرات کو سلام اور دوسری طرف ہمار ے نکھٹو حکمران ہیں کہ انھیں غیروں کے
ہاتھوں شہادت قبول نہیں کیونکہ یہ شیر کی ایک دن کی زندگی سے زیادہ دیہاتی
گیدڑوں کی سو سالہ زندگی کے پوجا ری ہیں۔ |