ماﺅں کا عالمی دن ہر سال مئی کی
دوسری اتوار کو بڑے ذوق وشوق سے منایا جاتا ہے ۔ دنیا نے تو ماں کے حوالے
سے ایک دن مخصوص کر دیا ہے مگر اسلامی تعلیمات کی رو سے ماں اس دنیا کا سب
سے حسین تحفہ اور ایک ایسا پھول ہے جو ساری کائنات کو مہکا رہا ہے اور ماں
کا وجود ہی باعث راحت وآرام ہے ۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ کہ جنت ، جسکی
نعمتوں کا کوئی شمار ہی نہیں جو کہ اس عالم ناپائیدار کی آخری آرام گاہ ہے
۔وہ ماں کے قدموں تلے ہے ۔ خدا اور رسول کے بعد جو سب سے اونچا درجہ ہے وہ
عورت کو بحیثیت ماں کے حاصل ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”والدین کے ساتھ
حسن سلوک کرو اور خاص طور پر اپنی ماں کے ساتھ “ ۔ حدیث نبوی ؑ ہے کہ عورت
پر سب سے زیادہ حق اسکے شوہر کا جبکہ مرد پر اس کی ماں کا ہے ۔ ویسے تو
اسلامی تعلیمات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بار بار تاکید ہے مگر ماں
کے ساتھ خاص طور پر زیادہ تاکید ہے ۔ بلکہ ماں کا حق باپ کی نسبت تین گناہ
زیادہ ہے ۔ چونکہ ماں کے احسانات زیادہ ہیں لہٰذا اس کے حقوق بھی بہت زیادہ
ہیں ماں کی نافرمانی کو گناہ کبیر ہ میں شمار کیا جاتا ہے ۔ ماں کی خدمت
اور اطاعت وفرمانبرداری کی باربار تاکید موجود ہے ۔ یہ تو ہیں اسلامی
تعلیمات اب اگر ہم اپنے معاشرتی رسوم ورواج کا جائز ہ لیں تو ماں کی حیثیت
ہمیں بے حد ثانوں نظر آئیگی یعنی اسلامی معاشرے میں تو ماں کی حاکمیت کو
تسلیم کیا جاتا ہے مگر پاکستانی معاشرے میں ماں کی حیثیت ثانوی ہے ۔ بچوں
کے ذہن میں باپ کا تصور ایک حاکم کا سا ہے ۔ بچے جب اپنے گھر میں باپ کو
ماں پر حکمرانی کرتے دیکھتے ہیں تو وہ اسکو حاکم سمجھتے ہیں ۔ خاص طور پر
لڑکا جب باپ کو ماں پر حکمرانی کرتے دیکھتا ہے تو جوان ہو کر باپ کے نقش
قدم پر چلتے ہوئے ماں کو محکوم اور رعایت تصور کرتا ہے اور ہوش سنبھالتے ہی
وہ اپنی ماں پر حکمرانی کرنے لگتا ہے یعنی اپنی ماں کی فرمانبرداری کے
برعکس وہ اپنی ماں پر حکم چلاتا ہے اس پر رعب ڈالتے ہوئے خود کو اسکا اور
اپنی بہنوں کا حکم تصور کرتا ہے ۔ گھر سے شروع کی ہوئی یہ حکمرانی وہ عورت
ذات پر مسلط کردیتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی رعیت تصور کرتا ہے اور یوں
پوری عورت ذات ہی محکوم ہو کے رہ جاتی ہے اور یہ اثر تا حیات بڑھتا ہی جاتا
ہے اور یوں پاکستانی معاشرے میں عورت کی حیثیت ایک محکوم ، محتاج اور دست
نگر کی سی ہو جاتی ہے ۔ اسی ظلم وجبر کے معاشرے میں عموماً عورت ہی اپنے
بچوں کی پرورش کی ذمہ داری نبھانے کے لیے گھر کے ساتھ ساتھ باہر بھی محنت
مزدوری کرتی ہے ۔ یعنی گھر میں بحیثیت لڑکی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی
پرورش اور بحیثیت ماں اپنے بچوں کی پرورش عورت کی ہی ذمہ داری ہے ۔ اب ذرا
ماں کے وجود کا تصور کریں اور اس کی ذمہ داری کا بھی ۔ ماں جو کہ ایک
نگہبان وجود ہے ،سایہ ہے ، چھتری ہے گھر کی ، اس کی تمام ذمہ داریاں جذباتی
ذمہ داریاں سمجھ کے قبول کر رکھی ہیں۔ گھر میں ماں ایک آیا بھی ہے ، ایک
باورچن بھی ، ایک دھوبن بھی ،ایک درزن بھی،ایک چوکیدار بھی ہے اور کام کرنے
والی ماسی بھی اور یہ سب کام وہ ایک بے تنخواہ کے ملازم کی حیثیت سے کرتی
ہے ۔ جو اپنی مرضی سے چھٹی بھی نہیں کرسکتی اور گھر کے علاوہ باہر کی معاشی
ذمہ داریاں بھی وہ اٹھاتی ہے یعنی اندورنی اور بیرونی دوہری ذمہ داریوں کے
ساتھ ساتھ دوہرے استحصال کا شکار اور بدلے میں بس ایک وقت کی روٹی اور بعض
اوقات وہ بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ بیٹے کی شادی کے بعد تو ماں کی حیثیت عموماً
خاموش تماشائی کی سی ہو کے رہ جاتی ہے جس کی رائے کو کوئی بھی اہمیت نہیں
دی جاتی اور بیٹے بیوی کی خوشی کے لیے ماں کی نافرمانی کرتے وقت یہ نہیں
سوچتا کہ ماں کے حقوق کیا ہیں ۔ حالانکہ بغور دیکھا جائے تو ہر عورت کو ماں
بننا ہے اور ہر عورت کو ساس بھی بننا ہے ۔ اگر بہو یہ سوچ لے کہ کل کو وہ
بھی اپنے بیٹے کی بہو کی ساس بنے گی اور بیٹا اس کی نافرمانی کرے تو کیسا
لگے گا؟تو وہ اپنی ساس کو بحیثیت ماں کے اس کے حقوق سے محروم کرنے کی بجائے
خود اپنے آنے والے کل کے لیے اپنی عزت اورعظمت کو محفوظ کرلے گی اور وہ
بحیثیت عورت اور بحیثیت ماں عظیم ہو جائیگی ۔ آئیے ہم سب مل کے اس مدرز ڈے
پر عہد کریں کہ بحیثیت عورت ہم سب عورتوں کے حقوق ان کی عزت اور عظمت کا
تحفظ کریں گی اور ایک دوسرے کو ان کے حقوق دلوانے میں معاون ثابت ہونگی ۔
Happy Mother Day To All Woman
|