ماں سے بڑا واقعی کوئی استاد نہیں ہوتا

ماﺅں کے عالمی دن کے موقع پر لکھی جانے والی ایک منفرد تحریر

تحریر : محمد اسلم لودھی

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ماں سے بڑا کوئی استاد نہیں ہوتا کیونکہ دنیا میں آنے کے بعد انسان کی زبان سے جو پہلا لفظ نکلتا ہے وہ ماں ہی ہوتا ہے ایک فرشتے کی مانند اپنی ذات کو مٹا کر ماں بچے کے دکھ درد اور پریشانی میں اس وقت تک ساتھ رہتی ہے جب تک بچہ شعور کی حالت میں پہنچ کر رشتوں کی پہچان نہیں کرنے لگتا ۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو مڑ کر ماﺅں کے دکھوں اور پریشانیوں کا مداوا کرنے کی جستجو کرتے ہیں بلکہ اپنی ذات کو ہی ماں کے سانچے میں ڈھال کر دنیا میں فلاح اور نیکی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں ۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ دنیا والے مجھے مفکر پاکستان اور بہت سے القابات سے پکارتے تھے لیکن جب ماں پیار سے مجھے " بالی " کہہ کر پکارتی تو مجھے کائنات کی دولت مل جاتی۔ محمد علی جناح کو بھی حضرت قائداعظم بنانے والی ان کی عظیم ماں ہی تھی جنہوں نے آپ کو ایک نئے جذبے اور ولولے سے تعلیم حاصل کرنے پر نہ صرف ایک بار پھر آمادہ کیا بلکہ اپنی محبت کی قربانی دے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ بھیجا ۔ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں کہ وطن عزیز سے والہانہ محبت اور خدمت ٬ فرخدالی ٬ انسانیت سے پیار٬ سادگی ٬انکسار ماں کی جانب سے ورثے میں ملا ہے جس کی بدولت میں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا۔حکیم محمد سعید شہید فرماتے ہیں کہ ماں کی تربیت کی بدولت ہی انہوں نے زندگی کے آخری سانس تک انسانی صحت اور خدمت انسانی کو اپنا مقصد حیات بنائے رکھا۔عبدالستار ایدھی کہتے ہیں کہ ماں سکول جاتے ہوئے جیب خرچ کے طور پر اس ہدایت کے ساتھ دو پیسے دیا کرتی تھیں کہ ایک پیسہ خود کھالینا اور دوسرا پیسہ کسی ضرورت مند کو خیرات کر دینا۔محمد حنیف رامے کہتے ہیں کہ میرے پیٹ میں اکثر درد رہتا تھا باقی لوگ تو میری اس تکلیف کا مذاق اڑاتے لیکن ماں نے میری اس تکلیف کو کبھی نظر انداز نہ کیا جب کوئی دوا کارگر ثابت نہ ہوتی تو ماں اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کر میرے ننگے پیٹ کے ساتھ لگا دیتیں پھر نہ جانے کیا ہوتا درد خود بخود ٹھیک ہوجاتا ۔عمران خان کے مطابق مشکلا ت سے لڑتے ہوئے کامیابیوں کو تلاش کرنے کا ہنر ماں نے ہی سکھایا تھا جس کی محبت کی ایک عظیم مثال شوکت خانم ہسپتال کی شکل میں آج موجود ہے ۔میرزا ادیب اپنی کتاب مٹی کا دیا میں لکھتے ہیں کہ مجھے دلور سے میرزا ادیب بنانے والی ماں ہی تھی جس نے مجھے تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کیا ۔اشفاق احمد خاں لکھتے ہیں ماں گرمیوں کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں آگ کے سامنے بیٹھ کر مزے سے روٹی پکایا کرتیں ان کے سرخ و سفید چہرے پر پسینے کی دھار نمودار ہوتی تو وہ ہاتھوں میں پیڑا پکڑے آستین سے اپنا چہرہ پونچھ لیتیں ہر اگلی روٹی پکاتے ہوئے یہی عمل انہیں دھرانا پڑتا لیکن کبھی زبان پر شکوہ نہ ہوتا ۔ ممتاز مفتی کو کسی نے وہم ڈال دیا کہ ان پر جادو ہوگیا ہے وہ کسی بزرگ کے پاس گئے اور معاملہ کہہ سنایا بزرگ نے مراقبے سے سر اٹھایا اور بولے مفتی صاحب آپ پر کوئی سفلی عملی اثر انداز نہیں ہوسکتا ماں کی دعاﺅں نے چاروں اطراف سے آپ کو گھیر رکھا ہے ۔ ٹیسٹ کرکٹر محمد یوسف کہتے ہیں کہ میرے والد انتہائی سخت مزاج تھے ہمیشہ ان کے ہاتھوں میری پٹائی ہوتی رہتی لیکن ماں اسی قدر نرم اور تحمل مزاج تھیں وہ اس وقت مجھے بے پناہ حوصلہ دیتیں جب والد مجھے زدوکوب کرچکے ہوتے ۔وہ اپنے ساتھ مجھے لٹا کر خود بھی سسک سسک کر رونے لگتی ۔ماں کی حوصلہ افزائی کی بدولت ہی دنیائے کرکٹ محمد یوسف کے بغیر نامکمل ہے ۔ممتاز بزنس مین اور عظیم سماجی رہنما حاجی انعام الہی اثر فرماتے ہیں کہ جب میں 16 سال کی عمر میں اپنے گھر چنیوٹ سے دو ہزار میل دور کلکتہ شہر میں بسلسلہ روزگار گیا تو دیار غیر میں مجھے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ کلکتہ میں ناریل کی شراب اور پان بیڑی کا استعمال عام تھا لیکن ماں کی اس نصیحت نے پردیس میں ہر برائی سے مجھے بچائے رکھا ۔ " کہ بے شک برائی سے بچنا ہی انسانی عظمت کی دلیل ہے برائی سے بچنے والوں کو اللہ بھی پسند فرماتا ہے ۔" ماں کی نصیحتوں کو پلے باندھ کر آپ زندگی کی شاہراہ پر مشکلات سے لڑتے جھگڑتے آگے بڑھتے چلے گئے ۔حاجی صاحب کہتے ہیں کہ 1959 میں جب میرے کاروباری حالات اچھے نہ تھے ماں نے حج کی خواہش کا اظہار کیا ۔مالی استطاعت نہ ہونے کے باوجود ماں کی بات کو اس لیے نہ ٹال سکا کہ اس میں بھی خدا کی طرف سے کوئی حکمت ہوگی ۔ کاروبار بند کر کے خود بھی ماں کے ساتھ ہی حج پر روانہ ہوگیا حج سے واپسی پر ماں نے نصیحت آمیز لہجے میں فرمایا کاروبار میں کامیابی کے لیے انسانی خدمت اور دین کی سربلندی کے لیے کاوشیں کرتے رہو اللہ تمہیں بہت عزت دے گا ۔ ماں کی یہ بات سو فیصد سچ ہوئی ۔ آج جب ماں ہمارے درمیان موجود نہیں ہے تو ان کی دعاﺅں کا اثر بہرحال باقی ہے ۔ماں سے محبت کرنے والوں میں ممتاز برنس مین اور معروف سماجی رہنما میاں محبوب اقبال کسی سے پیچھے نہیں ہیں ان کا شمار بھی چنیوٹ برادری کے انتہائی اہم کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں جہاں مجھے اللہ تعالیٰ نے بے پناہ آسائشیں اور سہولتیں عطا فرمائی ہیں وہاں مشکلات اور پریشانیوں نے بھی مجھے کسی قدر گھیرے رکھا لیکن مشکل کی ہر گھڑی میں قرآن پاک کی تلاوت اور ماں کی دعا ہی نجات کا باعث بنی ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی مشکل آتی ہے تو ماں خواب میں آکر رہنمائی کرتی ہے پھر اللہ تعالٰی وہ مشکل آسان کردیتا ہے ۔ ایک اور ممتاز سماجی رہنما ایس ایم اشفاق کہتے ہیں کہ میری تربیت اور کردار میں سب سے زیادہ حصہ ماں کا شامل ہے گھر میں جتنا بھی رزق آتا ماں اس میں سے کچھ نہ کچھ بچا کر غریبوں اور ضرورت مند ں کو تلاش کر کے ان تک پہنچا دیتیں ۔ماں کی یہی کاوش عادت بن کر میرے زندگی کے معمولات میں مستقل طور پر شامل ہوچکی ہے مجھے اس وقت تک سکون میسر نہیں ہوتا جب تک میں اپنے رزق میں سے خیرات نہ کرلوں ۔ڈاکٹر جاوید ندیم بٹ جن کا شمار پاکستان کے ممتاز معالجین میں ہوتا ہے وہ ناک٬ کان٬ گلا کے سپیشلسٹ کہلاتے ہیں وہ اس وقت تک ایک لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج کرچکے ہیں جبکہ چار ہزار سے زائد ناک کان اور گلے کے کامیاب آپریشن کرنے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے ۔ وہ اپنی ماں کی یاد وں کو تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1981میں میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا زیادہ تر چوٹیں سر پر آئیں جس وجہ سے کراچی کے سرکاری ہسپتال میں طویل عرصہ تک زیر علاج رہا بطور خاص اس دوران ماں کی محبت اور شفقت کو دیکھنے کا بہت قریب سے موقع ملا ۔ ان کی دعاﺅں سے جب میں صحت یاب ہوگیا تو انہوں نے فرمایا بیٹا پڑھ لکھ کر ایسا ڈاکٹر بنو ۔ جو غریب اور مستحق لوگوں کا بھی بے لوث علاج کرے ۔ اس کے باوجود ابھی یہ منزل بہت دور تھی لیکن صرف ماں کی خواہش پر میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا اور ڈاکٹر بن کے ماں کے اس عزم کو پورا کرنے اور انسانی خدمت کے لیے 21 جنوری 1996 کو حجاز ہسپتال میں بطور ای این ٹی سپیشلسٹ ڈاکٹر ملازم ہوگیا ۔جہاں تنخواہ تو ہر ڈاکٹر کو ملتی ہیں لیکن قابل ذکر بات مسیحا کی حیثیت سے وہ خوشدلانہ اور ہمدرانہ رویہ ہے جو وہ صحت یاب کرنے کے لیے اپنے ہر مریض کے ساتھ ڈاکٹر اپناتا ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ڈاکٹر جاوید ندیم بٹ نہ صرف ایک انسان دوست مسیحا ہیں بلکہ حجاز ہسپتال کے بہترین سفیر بھی ہیں ان کے مثبت رویے اور بہترین تشخیص سے حجاز ہسپتال کے بارے میں ایک اچھا تاثر ابھر رہا ہے ۔

عظیم شخصیات کی ماﺅں کے اس معیار کو دیکھتے ہوئے جب میں اپنی ماں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان کی عظمت اور بلندی کردار کا بخوبی احساس ہوتا ہے غربت٬ بے وسائلی نے کبھی پیچھانہیں چھوڑا بھوکے پیٹ ٬ کپڑوں پر پیوند لگاکر زندگی گزارنے کے باوجود ماں کی زبان سے کبھی شکوے کا ایک لفظ نہیں سنا وہ ہمیشہ صابر و شاکر عورت کی طرح مسائل اور پریشانیوں سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے ہماری پرورش اور تربیت کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب ماضی کے دریچوں میں اتر کر ماں کی زندگی کو کریدتا ہوں تو وہ مجھے حوصلہ کا پہاڑ دکھائی دیتی ہیں۔8 مئی کو دنیا بھر میں ماﺅں کا دن منایا گیا اس موقع پر ماں سے وابستہ یادوں نے مجھے کچھ اس طرح گھیر رکھا ہے کہ ان کے ساتھ گزارا ہوا ایک ایک لمحہ مجھے یاد آرہا ہے اور میں ایک کمسن بچے کی طرح خود کو ان کی ذات کا حصہ تصور کر کے ان کی تلاش کو نکل کھڑا ہوتا ہوں ۔ اس کے باوجود کہ ماں ( ہدایت بیگم ) 10 جون 2007 کو اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں لیکن کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جب ان کی یاد دامن گیر نہ ہوتی ہو ۔ ممتاز مفتی کی طرح میں خود بھی اپنے ارد گرد ماں کی دعاﺅں کا حصار محسوس کرتا ہوں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ماں سے بڑا واقعی کوئی استاد نہیں ہوتا کیونکہ ماں کی آغوش ہی وہ پہلی درسگاہ ہے جہاں سے انسان کی تربیت کا آغاز ہوتا ہے اور زندگی کی آخری سانس تک ماں کی آغوش اور ان کی باتیں اور لوریاں بھلائی نہیں جاسکتیں۔

بچوں کے لیے فکر مندی سے سوچنا ٬ دیکھ بھال کرنا اور احتیاط کرنا ہر ماں کی فطرت میں شامل ہے ہر ماں یہ جبلت اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتی ہے ایک نسل سے دوسری نسل میں اپنے تخلیقی عمل سے آگے منتقل کرتی جاتی ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ عمل تخلیق اور بقائے کائنات کاایک لازمی جزو اور تسلسل ہے رحمت کا یہ حسین عطیہ اصل میں خالق کائنات ہی کی طرف سے انسان کو ملا ہے یہ اس کی شفقت کا بے پایاں کا معمولی سا عکس ہے جو اس نے ماں کی شکل میں ظاہر کررکھاہے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 116038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.