زندگی کے بہت سے تجربات میں سے ایک اہم تجربہ محبت کا ہے۔
یہ ایک فطری جذبہ ہے۔ میں اپنی گزشتہ تحریر "آؤ ڈھونڈیں محبت" میں اس بات
کی طرف اشارہ کر چکی ہوں کہ محبت سے انکار انسانی فطرت سے انکار ہے۔
انگریزی میں کہتے ہیں:"you fall in love, you fall out of love". اب انسان
محبت تو ہمیشہ اندھوں کی طرح کر لیتا ہے یعنی "you fall in love" والی بات
باآسانی عمل پزیر ہو جاتی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ انسانی جزبات آزمائش سے
گزرنا شروع ہوتے ہیں۔ پھر %99 یہی ایک جملہ سامنے آتا ہے:"we are not made
for each other". یہ جملہ عام طور پر مرد حضرات کی طرف سے آتا ہے اور
خواتین کا جزباتی ہاضمہ اس کو ہضم کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اب شروع ہوتا ہے
بے حد پیچیدہ مرحلہ"you fall out of love" جس میں بہت کچھ fall apart ہو
جاتا ہے۔
مرد ایک دفعہ انکار کر دیتا ہے تو سو کوششیں عورت کی طرف سے شروع ہوتی ہیں۔
مرد ان کوششوں کے نتیجے میں بار بار پھنستا ہے اور بارہا محبت سے انکار کی
طرف آتا ہے۔ عورت کی ایک سوچ:"کیا میری چاہت ناکام ہو گئ؟یا میں محبت کے
قابل نہیں" اور اس مرد کی زندگی کی پھر پہرہ داری کرنے کی خواہش تاکہ کوئ
اور اسے نہ ملے۔۔۔۔مزید دیوانگی، مزید جھگڑے، مرد کے احساس ندامت اور بار
بار محبت میں داخل اور خارج ہونے کے عمل کو تیز بنا دیتی ہے۔ مرد کی نفسیات
میں ایک چیز بالآخر پھنس جاتی ہے کہ یہ عورت میری اتنی دیوانی ہے یہ کسی
اور کی نہ۔۔۔۔لیکن میں حاصل کیسے کروں؟کئ معاشرتی مسائل۔۔۔عورت محبت کے
حصول کے لیے ہر کوشش کرتی جاتی ہے پھر چاہے وہ اندر سے تھک چکی ہو اور مرد
کو یہ پہلو تھکا دیتا ہے کہ کسی اور کو حاصل نہ ہو یہ چاہت۔۔۔۔۔وہ چاہت جو
درحقیقت چاہت رہ ہی نہیں گئ ہوتی بس حاصل کرنے کی ضد بن کے رہ گئ ہوتی ہے
کہ محبت کو بس حاصل کی منزل تک لے جانا ہے۔ جب آپ ایک لکھاری ہوتے ہیں تو
آپ معاشرے کو نہ چاہتے ہوۓ بھی پڑھتے رہتے ہیں۔ مشاہدات نے ثابت کیا ہے کہ
محبت دو لوگ کرتے ہیں اور بھگتنا اردگرد کے معاشرتی تعلقات کو پڑتا ہے۔
"You fall out of love" کا عمل ہونے نہ ہونے کے بیچ ایک عرصے تک لٹکتا رہتا
ہے۔اس کی مثال بالکل ایسی ہوتی ہے جیسے پکوڑے کو گرما گرم تیل سے ابھی
نکالا ہی جاۓ کہ وہ پھر کڑاہی میں جا گرے یہاں تک کہ وہ جلنا شروع ہو جاۓ۔
دوست احباب اور ہمدرد اگر بیچ میں آ کے سمجھا دیں تو وہ کڑاہی میں بیٹھی
راکھ کی حالت تک جا پہنچتے ہیں کیونکہ وہ عظیم محبت کے دشمن جو ٹھہرے۔ ان
کو نیست و نابود کرنا جہاد ہے۔ ایک عرصے تک زبردستی دو لوگ اس بات کو
نبھاتے رہتے ہیں کہ ہمیں گہرا عشق ہے یہاں تک کہ دو محبت بھرے دل محبت سے
خالی دل بننا شروع ہو جاتے ہیں۔پھر خیال آتا ہے کہ اتنا عرصہ جو ساتھ رہے
وہ ساتھ چھوڑیں تو چھوڑیں کیسے؟پھر عقل و فہم کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ اس
نتیجے پہ عمل کرنا شروع کیا جاتا ہے کہ محبت نہ بھی ہو تو کیا؟ساتھ رہا جا
سکتا ہے۔ اب ساتھ رہنے کے لیے کوئ جواز درکار ہے۔سو بہن بھائ، باپ بیٹی، بس
اچھے دوست کے القابات کو ساتھ چپکا کے سفر جاری وساری رکھا جاتا ہے۔ ایک
رشتے کی بنیاد جن جزبات پہ رکھی گئ ہو وہ رشتہ اسی رنگ میں بار بار واپس
آتا ہے۔ آدھا بھائ، آدھی بہن، آدھا باپ، آدھی بیٹی اور بس اچھے دوست کے
لبادے میں چھپی پرانی تھکی محبت رہے سہے جزبات کا کباڑہ کرتی رہتی ہے۔ پھر
تھکے عاشقوں کی حالت جون ایلیا کے شعر جیسی ہو جاتی ہے:
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئ
ایک محبت جو تھکنے کے بعد مر چکی ہوتی ہے اس کو زندہ رکھنے کے لیے نہ صرف
بالآخر نفرت دل میں گھر کر لیتی ہے بلکہ کتنے قیمتی رشتے بھی بلند محبت کی
شاہانہ تلوار سے ذبح ہوتے ہیں پھر چاہے وہ سمجھانے والے ماں باپ ہوں، بہن
بھائ یا رفقاء۔ اس وقت سب دشمن لگتے ہیں۔ انسان اپنی دنیا الٹانے کے بعد اس
نتیجے پہ پہنچتا ہے کہ رابطہ ختم کرنا بہتر تھا۔اپنی اور اپنے پیاروں کی
رگوں میں زہر تو اتر گیا لیکن بھوت نہ اترا۔۔۔۔
محبت میں پڑنے اور گلے میں پڑنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی طرح بخوشی
نکاح کرنے اور تنگ آ کے نکاح کرنے کے نتائج و ثمرات میں زمین آسمان کا فرق
ہے۔
اے شخص ماں کی حالت تو دیکھ
اے شخص باپ کی حالت تو دیکھ
اے شخص بھائ کی حالت تو دیکھ
اے شخص بہن کی حالت تو دیکھ
اپنے مظلوم دوست کی حالت تو دیکھ
اپنے خیرخواہ کی حالت تو دیکھ
اپنے چہرے کا نقشہ تو دیکھ
اپنی زندگی کا نقشہ تو دیکھ
جو پا رہا ہے اس کو دیکھ
کیا کھو بیٹھا ہے اس کو دیکھ
چل کچھ نہ دیکھ رب کو دیکھ
قرآن کے احکامات کو دیکھ
کیا یہ ایک رشتہ اتنا ضروری تھا
بھائ مان جا دوست ہوں تیرا
فاصلہ ضروری تھا
فاصلہ ضروری تھا
فاصلہ ضروری تھا
غرض جب آپ ایک دفعہ سمجھ جائیں کہ مزید معاملہ چلنا نہیں تو ایک دفعہ اس
معاملے کو ختم کر دینا عقلمندی ہے۔ رابطہ منقطع کرنا ہی اس کا حل ہے۔ نہیں
سمجھ آئ؟لگے رہئیے جناب۔ وقت کی مار سب سمجھا دیتی ہے۔۔۔۔۔۔
|