توہین نہیں، تنقید........ گستاخانِ رسول کی نئی منطق

بعض نام نہاد دانشوروں کا کہنا ہے کہ حضور نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں کرنی چاہیے البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنقید ہو سکتی ہے۔ لہٰذا توہین اور تنقید کا فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تنقید کا عقیدہ ایک ایسے سنگین گناہ کی جسارت ہے جس سے ہر مسلمان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ راجپال کی معنوی اولاد اور سلمان رشدی کے مقلدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف جس اعتبار سے کروایا ہے، اگر ان میں سے کسی ایک بات پر بھی دل و دماغ سے یقین نہ کیا جائے تو آدمی مسلمان نہیں رہتا۔ قرآن مجید سے حکمت و دانائی کے جو عملی پہلو لیے جا سکتے ہیں، حضور خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بغیر وہ کبھی حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ قرآن مجید میں 40 مقامات پر اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبی اور رسول ہیں۔ شارح اور شارع ہونے کے ساتھ ساتھ مطاع بھی ہیں اور مطمع نظر بھی۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے، بالکل اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے قاضی القضاء ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ چیلنج تو بڑی دور کی بات ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے سے کسی مسلمان کے دل میں ملال پیدا ہونے سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایسے حکم اور فیصل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ سے پہلے اور بعد میں بھی کسی کو رتی برابر رائے زنی کی اجازت نہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصل الاصول ہیں۔ سوائے اللہ تعالیٰ کے کائنات میں کوئی ایسا مستحق نہیں جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زائد تعظیم و توقیر کا استحقاق رکھتا ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ جامعیت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور تمام رسولانِ عظام کے اوصاف و محاسن، فضائل و شمائل اور کمالات و معجزات کا بھرپور مجموعہ اور حسین مرقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں، رسولوں اور ساری اولاد آدم کے اوصاف حمیدہ اور خصائل عالیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھر دیے تھے تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام ذریت آدم کے حسن و جمال، اوصاف و خصائل، تعریفوں، خوبیوں، صفتوں، بھلائیوں، نیکیوں، کمالوں، ہنروں، خلقوں اور پاکیزہ سیرتوں کے مجموعہ ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں آدم علیہ السلام کا خلق، شیث علیہ السلام کی معرفت، نوح علیہ السلام کا جوشِ تبلیغ، لوط علیہ السلام کی حکمت، صالح علیہ السلام کی فصاحت، ابراہیم علیہ السلام کا ولولہ توحید، اسماعیل علیہ السلام کی جاں نثاری، اسحاق علیہ السلام کی رضا، یعقوب علیہ السلام کا گریہ و بکا، ایوب علیہ السلام کا صبر، لقمان علیہ السلام کا شکر، یونس علیہ السلام کی انابت، دانیال علیہ السلام کی محبت، یوسف علیہ السلام کا حسن، موسیٰ علیہ السلام کی کلیمی، یوشع علیہ السلام کی سالاری، داﺅد علیہ السلام کا ترنم، سلیمان علیہ السلام کا اقتدار، الیاس علیہ السلام کا وقار، زکریا علیہ السلام کی مناجات، یحییٰ علیہ السلام کی پاکدامنی اور عیسیٰ علیہ السلام کا زہد و اعجازِ مسیحائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے بلکہ یوں کہیے کہ پوری کائنات کی ہمہ گیر سچائی اور ہر ہر خوبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات میں سمائی ہوئی ہے۔

کسی اہل دل شاعر نے کیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے:
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت و محبت ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے اور وہ اسے اپنے لیے باعث فخر اور موجبِ نجات سمجھتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا۔
بہ مصطفی ﷺ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ ایک ایسا انسان ہی صاحب قرآن ہونے کے شرف کا مستحق و متحمل ہو سکتا تھا جس کے کردار کی بلندی اور دل کی پختگی کی کرہِ ارض پر اور کوئی مثال نہ ملتی ہو۔ اور ظاہر ہے کہ صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت نافذِ قرآن کی بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوہ حسنہ سے قرآن کی روح کو من و عن منطبق و نافذ کر کے اپنے آپ کو بہترین اور کامل رہبر کے طور پر بھی ثابت کیا۔ اور یہی وہ در اصل مشکل ترین مرحلہ تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ تمام و کمال سرخرو ہوئے اور جہاں خداوند ذوالجلال نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعتبار اور اعزاز بخشا کہ ”اے ایمان والوں! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔“ (التغابن: 12، محمد:33، النور:54، المائدہ:92، النسائ:59) بلکہ من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ (النسائ:80) یعنی رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی کو اللہ کی اطاعت قرار دیا، کیونکہ وما ینطق عن الھوٰیo ان ھو الا وحی یوحیٰ وہ خود سے کچھ نہیں کہتے بلکہ جو ان کو وحی کیا گیا ہے، اسی کی تبلیغ کرتے ہیں۔ (النجم:3، 4)

مندرجہ بالا دو تصریحات سے یہ بات علی وجہ البصیرت واضح ہو جاتی ہے کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف ذاتی کردار کے حوالے سے اپنی معراج پر فائز ہیں بلکہ اپنی سیاسی حیثیت میں بھی افضل ترین ہیں۔ ان ہر دو حیثیتوں میں ان کا احترام کس قدر لازم ہے، خود قرآنِ حکیم نے اس کے پیرائے مقرر کر دیے ہیں۔ سورہ الحجرات کی اولین آیات ہی میں حکم ہوتا ہے۔ ”یاایھا الذین امنوا لا تقدموا بین یدی اللّٰہ ورسولہ“ اے ایمان والوں، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پہل نہ کرو (الحجرات:1) اس سے اگلی دو آیات اس باب میں حرفِ آخر ہیں جس میں بہت بڑی وارننگ بھی دے دی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ”یاایھا الذین امنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوتِ النبی ولا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون۔“ اے ایمان والوں، اپنی آوازوں کو نبی ﷺ کی آواز سے اونچا نہ ہونے دو، اور نہ ان سے اونچی آواز میں بات کرو جیسا کہ تم آپس میں بات کرتے وقت کرتے ہو، ایسا نہ ہو کہ تمھارے اب تک کے اعمال اس طرح ضائع ہو جائیں کہ تمھیں احساس تک نہ ہو۔ (الحجرات:2) اسی سورہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ زندگی کے باقی معاملات میں کس طرح رہنا ہے اور حتیٰ کہ جب کوئی ان کے دروازے پر آئے تو کون سے آداب ملحوظِ خاطر رکھے۔ کیونکہ یہ وہ بارگاہ سیادت پناہ ہے جہاں دوسری تمام سیادتوں کے پر جل جاتے ہیں، جہاں قوموں کے سردار اور ملکوں کے سلاطین، سلطانی و سرداری کی قبائیں بہت دور تک چھوڑ کر سر کے بل آتے ہیں، جہاں کج کلاہیاں ایک ایک نگاہ پر نثار ہوتی ہیں، جہاں خسروی اپنا انداز خرام بھول جاتی ہے۔ مذکورہ ارشادات میں حکمت تو یہ ہے کہ نبیﷺ کی حیثیت ان کی طبعی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تاابد قائم ہے اور یہی احترام ہمیشہ ملحوظ رکھا جائے گا۔ بخاری شریف کی بیان کردہ حدیثِ مبارکہ میں روح الامین حضرت جبرئیل علیہ السلام کے انسانی شکل میں دربارِ نبوت میں حاضر ہونے کا ذکر ہے۔ جبرئیل علیہ السلام خاموشی سے آتے ہیں اور آپﷺ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حاضرین کو ان کے اس طرح باادب طریقے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والا کوئی معمولی اور اَن پڑھ نہیں جو پوچھے گئے سوالوں کے جوابات کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس واقعہ سے یہ سبق دینا بھی مقصود تھا کہ دربارِ نبوت میں بیٹھنے اور بات کرنے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ اپنے حبیبﷺ کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتا ہے کہ اس نے براہِ راست تخاطب کے حوالے سے ایک دفعہ بھی حضور نبی اکرمﷺ کا نام لے کر آپﷺ کو نہیں پکارا، بلکہ جہاں کہیں مخاطب کیا ہے تو عزت و تکریم کے کسی صیغے ہی سے آواز دی ہے کہ یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک.... یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین.... یا پھر محبت سے ”یا ایھا المزمل“ اور ”یاایھا المدثر“ کہہ کر پکارا ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں اولوالعزم انبیا کو جگہ جگہ ان کا اصل نام اور اسم سے پکارا گیا ہے۔ جیسے ”یاآدم اسکن انت و زوجک الجنة“ ”تلک بیمینک یا موسٰی“ ”یا داود انا جعلنک خلیفة“ ”یا زکریا انا نبشرک بغلام ن اسمہ یحیی“ ”یا یحیٰی خذ الکتاب بقوة“ ”یانوح اھبط بسلام“ ”یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الیّ۔“ اس طریق مخاطبت کے مطابق چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو بھی ”یامُحَمَّداً، یااحمد“ کہہ کر پکارتا، مگر اللہ تعالیٰ کو اس درجہ آپﷺ کا احترام سکھانا مقصود تھا کہ تمام قرآنِ مجید میں ایک جگہ بھی آپﷺ کو نام لے کر مخاطب نہیں کیا۔ بلکہ تعظیم و تکریم پر مبنی خوبصورت اور بہترین القابات پر مشتمل ناموں ہی سے آپﷺ کو پکارا ہے۔

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے شیطان کو ہر ایک انسان کا رفیق اور قرین بنایا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی ہے کہ میں اس کے شر سے محفوظ و مامون رہتا ہوں۔ (صحیح مسلم) ابن ابی سرح کے واقعہ میں حضور نبی کریم ﷺ سے ایک انصاری نے کہا تھا۔ ”ھلا اومات الی“ آپ نے مجھے اشارہ کیوں نہ فرما دیا تو نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی نبی کو یہ سزاوار نہیں کہ اس کی آنکھ خیانت کرے۔ (صحیح مسلم) حالانکہ دز دیدہ نگاہی ظاہر کا باطن کے خلاف نہایت خفیف اور معمولی سا عمل ہوتا ہے۔ جب ایسا معمولی سا فعل بھی نبی کریم ﷺ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے تو پھر آپ ﷺ پر تنقید کیسی؟ منکرین عصمت رسول کی کور ذوقی اور سیاہ بختی دیکھیے کہ وہ چاند پر تھوکتے نہیں شرماتے۔

نبی حسن الوہیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص انعام کی ابتداءانبیاء سے ہوتی ہے۔ نبی اپنے علم، عمل اور اخلاق کے اعتبار سے بلکہ جسمانی اور روحانی اعتبار سے ساری کائنات سے بلند ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو وہ رفعت اور بلندی عطا فرماتا ہے جو کائنات میں کسی اور کے لیے متصور نہیں ہوتی۔ حضور نبی رحمت حضرت محمد مصطفی ﷺ تو سردار الانبیاء ہیں۔ یہاں تک کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کے بارے میں فرمایا: ورفعنا لک ذکرک (الانشراح : 4) یعنی اے محبوب ﷺ! ہم نے آپ کو عزت و تکریم کے حوالے سے اس قدر رفعت عطا کی ہے کہ ہم نے آپ کے ذکر کو بھی آپ کے لیے بلند فرمایا۔ فقہا نے لکھا ہے کہ سب نبیوں کی نبوت حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نبوت کی مرہون منت ہے۔ اگر نعوذ باللہ حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت پر کوئی نقص آجائے تو تمام نبیوں کی نبوت باطل ہو جائے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم پر کوئی مسلمان دلیل طلب نہیں کرسکتا، اسی طرح حضور نبی کریم ﷺ کے حکم پر بھی کوئی مسلمان دلیل طلب نہیں کرسکتا۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ کوئی دلیل طلب کئے بغیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے اور کوئی دلیل طلب کیے بغیر حضور نبی کریم ﷺ کی اطاعت کرے۔ قبل از نبوت اور بعد از نبوت آپ ﷺ کی پوری زندگی معصوم عن الخطا پر مبنی ہے۔ آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں جس پر اعتراض کیا جاسکے۔ تنقید اس پر ہوتی ہے جس میں کوئی بشری کمزوری ہو یا وہ غلطی کرتا ہو، یا وہ گنہگار ہو اور ایسے شخص کی اطاعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جبکہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ جو کچھ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے کہتے ہیں۔ نبی عام بشری کمزوریوں سے بالکل پاک ہوتا ہے۔ نبی بشر ضرور ہوتا ہے مگر وہ بے عیب بشر ہوتا ہے۔ نبی عبد ضرور ہوتا ہے مگر ایسا عبد ہوتا ہے جو تمام عباد اللہ میں سب سے ممتاز، افضل اور اعلیٰ ترین ہوتا ہے بلکہ وہ ایک ایسا عبد ہوتا ہے کہ جو اللہ اور عباد اللہ کے درمیان واسطہ ہوتا ہے۔

نبوت و رسالت سراسر وہبی چیز ہے اس میں ادنیٰ سی خامی بھی نہیں پائی جاتی۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اس عطا میں شک کرے اور کہے کہ نبی میں کوئی نقص ہوسکتا ہے اور اس پر تنقید ہوسکتی ہے تو گویا اس نے اللہ تعالیٰ کا تمسخر اور نبوت و رسالت کی تکذیب و تضحیک کی۔ نبی کی معصومیت کا خود خدا حافظ و ناصر ہوتا ہے۔ نبی اس لیے معصوم عن الخطاء ہوتا ہے کہ اس کا کوئی قول ایسا نہیں ہوتا جو وحی الٰہی سے باہر ہو اور کوئی فعل ایسا نہیں ہوتا جو مرضی خدا کے خلاف ہو۔ جید علماءکرام اور فقہاءحضرات کا کہنا ہے کہ ایسا عقیدہ (کہ نبی ﷺ پر تنقید ہوسکتی ہے) کفر و شرک، ارتداد اور اسلام سے انحراف ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنے والے کا جان و مال مباح ہے۔ ایسے ملعون شخص سے بیزاری اور نبوت ضروری ہے۔

کوئی ایسا لفظ جس سے حضور نبی کریمﷺ کی ادنیٰ سی گستاخی یا بے ادبی کا شائبہ بھی پایا جائے، اس کا استعمال حرام ہے۔ آپﷺ کی 63 سالہ زندگی ہر قسم کے عیب و نقص سے مبرا و منزہ ہے۔ اس لیے منصب نبوت ہر قسم کی تنقید سے بلند و بالا ہے۔ انبیاءکرام معصوم عن الخطاءہوتے ہیں۔ حضور خاتم النبین حضرت محمدﷺ سیّد الانبیاءہیں۔ آپﷺ پر کسی بھی قسم کی تنقید ”توہین رسالت“ ہی کے زمرے میں آتی ہے، امت کے جلیل القدر علماء نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، یہ دانشور اگر ان کتابوں کا بغور مطالعہ کرلیں تو انہیں گستاخانِ رسول کے دائرہ اثر سے نکلنے کا موقع مل جائے گا، علامہ تقی الدین سبکی کی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول“ علامہ ابن الطلاع اندلسی کی تالیف ”اقضیة الرسول“ مشہور حنفی عالم، علامہ زین العابدین شامی کی ”تنبیہ الولاة والحکام علی احکام خیر الانام“ اور علامہ ابن تیمیہ کی شہرہ آفاق تصنیف ”الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ اس موضوع پر ایسی کتابیں ہیں جنہوں نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اور سب اس پر متفق ہیں کہ بارگاہ رسالت ﷺ میں کسی بھی قسم کی تنقید کی سزا موت اور قتل ہے۔

بقول مولانا محمد احمد حافظ: ”اہل مغرب جب بھی ذات رسالت مآبﷺ پر تنقید کرتے ہیں تو اس سے ان کا مقصود سوائے تنقیص اور توہین کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی معاند تنقید اس لیے نہیں کرے گا کہ اس سے حضرت محمد ﷺ کا مرتبہ بلند ہو، مستشرقین کی ساری تنقید پڑھ لیجیے، ان کے پیش کردہ اعتراضات کا مطالعہ کر لیجیے، ان تمام کے پیچھے واضح طور پر یہ جذبہ کار فرما نظر آئے گا کہ آنحضرتﷺ کی ذاتِ اقدس کو موردِ تنقید بنا کر نعوذ باللہ آپ کے روئے زیبا کو داغ دار کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ دینی عقائد، احکام، اعمال اور آپ کی ذات گرامی پر تنقید کو اس لیے برداشت نہیں کرے گا کہ اس کا کوئی علمی پیرایہ ہے.... بھلا حضور نبی کریمﷺ پر تنقید کا معاذ اللہ کوئی علمی پیرایہ بھی ہو سکتا ہے؟.... ذرا تصور کیجیے کہ ایک ادنیٰ مسلمان کے سامنے بھی کوئی بھاری بھر کم علمی شخصیت اپنے علم و مطالعہ کے زور پر آنحضرتﷺ پر اعتراضات اٹھائے تو اس کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ یقینی طور پر اس کی پہلی کوشش اس ناہنجار کو تہ تیغ کرنے کی ہی ہوگی۔ ذات رسالت مآبﷺ پر تنقید کو برداشت کرنا قرآنی منشاء کے بھی خلاف ہے۔ جب سورئہ بقرہ آیت 104 میں اہل ایمان کو مخاطب کر کے تمام لوگوں کو بتا دیا گیا کہ آپﷺ کے سامنے (لا تقولو راعنا و قولوا انظرنا) ”راعنا“ نہیں بولنا بلکہ ”انظرنا“ کہہ کر آپ سے درخواست کرنی ہے اور سمع و طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ بے ادبی اور بے اکرامی کے ادنیٰ شائبے کو بھی رد کر دیا گیا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ”مسلمان تنقید کو برداشت کرتا ہے“ سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریمﷺ کی ذات گرامی نقد و نظر کی میزان میں رکھی جا سکتی ہے؟ .... قطعاً نہیں۔ حضور نبی کریمﷺ کی ذات گرامی تنقیدی پیمانوں میں رکھے جانے سے ماورا ہے۔ تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ کسی شخص نے آپﷺ کو نعوذ باللہ گالی دی نہ برا بھلا کہا محض کسی سنت عمل پر اپنی طبعی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تب بھی اس پر تلوار سونت لی گئی۔ الامام المجاہد حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا معروف واقعہ ہے کہ دورانِ درس ایک حدیث شریف آئی جس میں تھا کہ آنحضرتﷺ کو سبزیوں میں کدو بہت پسند تھا، قریب بیٹھے کسی شخص نے کہا ”مجھے تو پسند نہیں“ (مقصود آپﷺ کی توہین نہ تھا) حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فوراً طیش میں آ گئے۔ مسند کے پاس رکھی اپنی تلوار نکالی اور کہا ”ابھی اپنے ایمان کی تجدید کرو ورنہ تیرا سر اڑاتا ہوں....“ اس ردِ عمل کو کیا نام دیا جائے گا....؟ بلاشبہ علماءامت نے مستشرقین اور دیگر ملاحدہ وزنادقہ کی تنقیدات کا عالمانہ اسلوب میں جواب دیا ہے تاکہ عامة الناس کو معاندین کی فریب کاریوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ علمیت بگھارنے کے نام پر ذات رسالت مآبﷺ پر تنقید کی نہ صرف کھلی چھوٹ دے دی جائے اور اسے ٹھنڈے پیٹوں ہضم بھی کیا جاتا رہے۔ اگر برداشت کے نام پر تنقید کو روا تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہر دشمن رسول تنقید کی آڑ میں آپﷺ کی توہین و تنقیص کو شعار بنا لے گا۔“
Muhammad Mateen Khalid
About the Author: Muhammad Mateen Khalid Read More Articles by Muhammad Mateen Khalid: 17 Articles with 27963 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.