تحریر : منزہ سید
عصرِ حاضر میں جہاں جدید ٹیکنالوجی کی صورت میں بیشمار سہولیات نے انسان کو
نفع پہنچایا اور ’’سوشل میڈیا ‘‘ کی صورت میں رابطوں کو وسعت ملی، وہیں
’’الیکٹرانک گیمز‘‘کی شکل میں چند خرافات بھی سامنے آئی ہیں۔
آئیے!’’ آن لائن گیمز ‘‘کے حوالے سے انسانی ذہن پر پڑنے والے منفی و مثبت
اثرات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ یہ کس طرح ہمارے معاشرتی رویوں پر اثر انداز
ہو رہی ہیں۔۔اور کس طرح ہمارے بچوں،نوجوانوں اور بڑوں کو اپنی گرفت میں
جکڑے ہوئے ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ آن لائن گیمز نے جہاں انسانی ذہن کو آسودگی بخشی وہیں
ہائی بلڈ پریشر ،نظر کی کمزوری،ڈپریشن انگزائٹی اور فرسٹریشن میں بھی مبتلا
کیاہے ۔۔اور بعض گیمز کے خوفناک نتائج بھی سامنے آئے ۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ
ان گیمز کے کرتا دھرتا افراد نے گیمز ہی کے ذریعے نوعمروں بچوں کو ایک ایسے
جال مکروہ جال میں پھنسایا جس کا انجام کارصرف اور صرف خودکشی پر ہوا۔
جی ہاں! آپ بالکل درست سمجھ رہے ہیں۔۔یہاں تذکرہ کیا جا رہا ہے...بدنامِ
زمانہ آن لائن گیم’’ بلیو وھیل ‘‘ کا ۔
اس کو کسی بھی ویب سائٹ یا پلے سٹور پر انسٹال کے لئے پیش نہیں کیا گیا
بلکہ اس کی طرف مائل کرنے کے لئے اسے پوشیدہ رکھا گیا اور دیگر آن لائن
گیمز کے دوران اس کا لنک بھیجا جاتا تھا ۔اس گیم کے آغاز میں ہی کھلاڑی کے
بارے میں ہر قسم کی معلومات حاصل کر لی جاتی تھیں اور مختلف چیلنجز مکمل
کرنے کو کہا جاتا تھا۔۔۔ان چیلنجز کو ایک ایسے’’ ایڈونچر ‘‘کی شکل دی جاتی
تھی کہ نوجوان پوری دلچسپی کے ساتھ اس میں الجھے رہتے تھے۔۔ اوراس کے آ خری
چیلنج میں کسی بھی بلند عمارت سے کود کر خودکشی کرنا یا تیز دھار آلے سے
اپنی کلائی کاٹنا وغیرہ ہوتا تھا۔یوں اس مکروہ گیم نے بہت سے ممالک میں
نوجوانوں کی جان لی۔۔۔۔جب اس گیم کی تباہی کی گونج پوری دنیا میں پھیلی تو
اس گیم پر پابندی لگا کر اس کے بانی کو گرفتار کیا گیا۔۔۔تو حیرت انگیز
انکشافات سامنے آئے۔۔۔’’بلیو وھیل‘‘نامی گیم کا بانی ایک نفسیاتی مریض تھا
اور اپنے ساتھ ہونے والے ہر قسم کے ظلم و زیادتی کا انتقام وہ دوسروں سے
خودکشی کروا کے لیا کرتا تھا۔۔
اور اب ہم ایک اور گیم پر بات کرتے ہیں جواس وقت پوری دنیا میں’’ پب جی
(PUBG)‘‘ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔۔۔۔گیم میں صرف اور صرف قتل و غارت
گری شامل ہے۔۔۔۔ایک جہاز سے سو پلیئرز کسی بھی جزیرے میں چھلانگ لگاتے ہیں
اور سب ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔۔۔۔جو سب کو مارنے کے بعد
زندہ بچ جائے وہ اس گیم کا ’’فاتح ‘‘قرار پاتا ہے۔
اس گیم کے دوران بیشترکھلاڑی ٹیمز کی شکل میں بھی جزیرے پر جاتے ہیں۔۔۔اور
آن لائن مائیک پر ان کی گفتگو کچھ اس قسم کی ہوتی ہے۔۔۔چرچ میں لُوٹ
کرو.۔۔۔ہاسپٹل میں لُوٹ کرو۔۔۔سکول میں لُوٹ کرو۔۔۔گھروں میں لُوٹ
کرو۔۔۔گاڑی والوں کو مار کے گاڑی چھینو۔۔۔فلاں فلاں کوگن سے بندہ
مارو۔۔۔گرینیڈ مارو۔۔۔۔مرنے والوں کا سامان اٹھا لو۔۔۔۔تمہا رے پیچھے یا
سامنے بندہ ہے مارو۔۔۔۔میں مر گیا۔۔۔تم مر گئے وغیر وغیرہ۔
اب آئیے! دیگر آن لائن گیمز کی بات کرتے ہیں کہ کس طرح ان گیمز نے بچوں
نوجوانوں ور بڑوں کو اپنے ارد گرد سے بیخبر کر رکھا ہے۔۔۔۔کوئی بھی شخص
اپنی ہار برداشت نہیں کرسکتا ۔۔۔..اس لئے آن لائن گیمز پر کوئی بھی انسان
صرف جیت کی صورت میں ہی آسودہ رہ سکتا ہے۔۔۔ورنہ مسلسل ہار کسی بھی بچے یا
نوجوان کو اندرونی طور پر ذہنی مریض اورچڑچڑا بنا دیتی ہے ۔۔۔جس کی وجہ سے
وہ اِرد گرد کے لوگوں کے ساتھ خوشگوار رویہ قائم نہیں رکھ سکتا۔۔اور بعض
اوقات والدین کے ساتھ بھی بدتمیزی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔۔اسی وجہ سے جہاں
کھانا پینا چھوٹتا ہے وہیں تعلیمی دوڑ میں بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔
پوری دنیا میں بچوں کے ساتھ ساتھ شادی شدہ یا عمر رسیدہ افراد بھی آن لائن
گیمز میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔۔۔اور یہ دونوں طبقے بھی آن لائن گیمز کی
دلدل میں غرق ہو کر اپنے جیون ساتھی یا کھانے پینے سے کافی حد تک بے نیاز
اور بے خبر ہو چکے ہیں۔
آن لائن گیمز کی دنیا میں پاکستان اور ہندوستان میں’’ کوائن سیلنگ‘‘(Coin
Selling) کا دھندہ بھی منظرِ عام پر آ چکا ہے....جسے ایزی پیسہ یا کارڈز کے
ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔اور اکثر و بیشتر سکے (Coin)فروخت کرنے والے پیسے
پہلے وصول ہو جانے پر کوائنز خریدنے والے کو کوائنز دئیے بنا ء ہی بلاک بھی
کر جاتے ہیں۔۔۔۔کوائنز پہلے مل جانے کی صورت میں بھی اسی قسم کا ظالمانہ
بلاک سامنے آتا ہے جو پیسے دئیے بناء ہی پیش کیا جاتا ہے۔
اب ایک اور انوکھی بات پر روشنی ڈالتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔۔۔کسی بھی
لڑکی کو گیم پر دیکھتے ہی مرد حضرات فوراً اپنا فون نمبر لکھتے ہیں اور گیم
چیٹ پر باقاعدہ فرمائش کرتے ہیں کہ فون کرنا۔۔اوریوں وہ پوری گیم کے دوران
لڑکی کی جیت کے لئے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔۔۔۔حیرت ہوتی ہے اور بے انتہا
افسوس بھی کہ بحیثیت انسان یا بحیثیت قوم ہم کس طرف جا رہے ہیں.؟.....
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ذہنی تنزلی ہمارے معاشرے کو کس طرف لے کر جانے
والی ہے۔
اگر آپ کے پاس اس کا جواب نہیں ہے تو اپنے بچوں کو آن لائن گیمز کی دنیا سے
دور رکھنے کے لئے انہیں جسمانی بھاگ دوڑ والے کھیلوں اور ورزش کی طرف مائل
کرنے کی کوشش کیجیئے اور خود بھی یہ سب شروع کیجیئے کیونکہ آن لائن گیمز
توآپ اور ہم سب بھی کھیلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|