کورونا وائرس کی خیرو برکات میں ایک اہم شئے یہ بھی ہے کہ
اس نے ہمیں احساس دلایا کہ ملک میں دفاقی نظام نافذ ہے۔ کورونا کی جنگ میں
عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اصل کام تو ریاستی حکومتیں کررہی ہیں۔ یہ اور
بات ہے مرکز کی جانب صوبائی حکومت کو تعاون کے بجائے دخل اندازی ملتی ہے۔
اس کی شکایت غیر بی جے پی وزرائے اعلیٰ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ٹیکس میں
جمع کیا گیا ان کا حصہ تک لوٹایا نہیں جارہا ہے۔ وزیر اعظم کے پرائیویٹ
ٹرسٹ کو سی ایس آر کی سہولت حاصل ہے لیکن وزیر اعلیٰ فنڈ اس سے محروم ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے عمومی رہنمائی آتی ہے یعنی بھاشن تو سننے کو ملتا
ہے مگر راشن نہیں ملتا۔ لاک ڈاون جیسے نازک معاملے میں بھی ریاستی حکومتوں
کا فیصلہ ہی حتمی اور نافذالعمل ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی بار مرکز
سے پہلے ریاستی حکومتیں اہم فیصلے کر لیتی ہیں اور مرکز کو لامحالہ اسے
قبول کرنا پڑتا ہے۔ لاک ڈاون کی حالیہ توسیع کا اعلان کرنے کے لیے مودی جی
نے بھاشن دینے کی زحمت تک گوارہ نہیں کی۔ شاید انہیں بتا دیا گیا اب لوگ
لاک ڈاون کی طرح ان سے بھی اکتاچکے ہیں ۔
کورونا وائرس کے تعلق سے عالمی سطح پر دو متضاد رویہ مثلاًا یک جنوبی اور
دوسرا شمالی کوریا کاسامنے آیا ہے۔ جنوبی کوریا نے ساری معلومات صاف وشفاف
رکھی ۔ کورنا سے متاثرین کی تعداد کو تسلیم کیا اور اس کو قابو میں لانے کے
لیے غیر معمولی اقدامات کرکے مثالی کامیابی حاصل کی ۔ اس کے برعکس شمالی
کوریا نے انکار کا رویہ اختیار کیا اور کہہ دیا کہ وہاں کوئی متاثرنہیں ہے۔
اس کے بعد کچھ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوا یہاں تک کہ شمالی کوریا کے
سربراہ کو خود قرنطینہ میں جانا پڑا ہے۔ اس کے بعد طرح طرح کی یہاں تک کہ
موت تک کی قیاس آرائی شروع ہو گئی ہے جن کا خاتمہ یکم مئی کی تقریبات میں
کنگ جونگ کی شرکت سے ہوا۔ ان دونوں رویوں کی روشنی میں جب ہم اپنے ملک کا
جائزہ لیں ہماری حالت شمالی کوریا سے مماثل نظر آتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا
ثبوت جانچ میںسست رفتاری کا عمل ہے۔کورونا کے سلسلے مرکز کا عملی رحجان
جاننے کے لیے ایسے صوبوں کا جائزہ لینا ضروری ہے جہاں بی جے پی برسرِ
اقتدار ہےمثلاً گجرات ، اتر پردیش یا مدھیہ پردیش وغیرہ ۔ ان میں فی الحال
گجرات دوسرے اور مدھیہ پردیش چوتھے نمبر پر ہے ۔
ہندوستان دنیا پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے اس کے باوجود ایک طویل عرصے کے
بعد ہمارے یہاں جانچ کی شرح ہر دس لاکھ میں ۲۲ سے بڑھ کر لاک ڈاون کے چالیس
دن بعد 758 تک پہونچا ہے جبکہ پاکستان میں بھی وہ 919 ہے ۔دنیا بھر کے
ممالک سے اگر ان اعداد کا موازنہ کیا جائے تو یہ بہت کم ہے۔ اس کو دیکھ کر
یہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں صحیح تعداد کی پردہ پوشی کا رحجان ہے۔ اتر
پردیش جیسے بڑے صوبے میں جہاں سے وزیر اعظم آتے ہیں جانچ کی شرح قومی اوسط
سے بہت کم بلکہ نصف کے آس پاس ہے۔ گجرات فی الحال دوسرے نمبر پر آگیا ہے
لیکن وہاں ٹسٹ کی شرح مہاراشٹر کے مقابلے نصف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹڑ
میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد جہاں 485تک پہنچ گئی وہیں گجرات میں یہ
تعداد236 ہے۔ ٹسٹنگ میں کمی اس لیے کی جارہی ہے کہ اگر خدا نخواستہ وہ پہلے
مقام پر آجائے تو اس سے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی نیک نامی پر حرف
آجائےگا۔ اس خطرے کے پیش نظر ٹسٹ کی تعداد سے کھلواڑ کیا جاتا ہے جو
بدقسمتی سے ظاہر ہوگئے ۔
اس کی ایک مثال دیکھیں ۱۴ اپریل جملہ ۱۷۳۳ ٹسٹ ہوئے اور ان میں سے ۷۸ لوگ
مثبت نکلے ۔ حکومت اگلے دن ۳۲۱۳ ٹسٹ کیے گئے تو اسی لحاظ سے مریضوں کی
تعداد ۱۱۶ ہوگئی۔ اس گھبرا کر ۱۶ اپریل کو اچانک ٹسٹ دو دن قبل سے بھی کم
۱۷۰۶ تک پہنچ گئی۔ ان میں سے بھی ۱۶۳ مریض نکل آئے یہ تشویشناک صورتحال
تھی ۔ اس کے باوجود اگلے دن ٹسٹ کی تعداد ۲۵۳۵ تک بڑھا گیا تو متاثرین کی
تعداد میں معمولی اضافہ ہوا اور وہ تعداد ۱۷۰ پر پہنچی ۔ اگلے دن پھر سے
۲۶۶۴ ٹسٹ کیے گئے لیکن متاثرین کو تعداد میں ۱۰۰ سے زیادہ کا اضافہ ہوگیا۔
حکومت نے ٹسٹ کی تعداد میں اضافہ جاری رکھا اور اسے ۳۰۰۲ تک پہنچا دیا تو
مزید تقریباً ۱۰۰ لوگوں کا اضافہ ہوگیا ۔ اس کے بعد ۲۰ اپریل کو ۴۲۱۲ کردیا
گیا اور متاثرین کی تعداد میں اچھی خاصی کمی دیکھنے میں آئی یعنی وہ ۱۹۶
پر آگئی۔ ۲۱ اپریل کو ۳۵۱۳ ٹسٹ ہوئے جو ۷۰۰ کی کمی تھی تو پوزیٹیو کیس ۲۳۹
ہوگئے۔ اس کے بعد ۲۲ اپریل کو مزید ایک ہزار ٹسٹ کم کیے گئے اور تب جاکر
پوزیٹیو کیس میں کمی آئی اورتب جاکر یہ تعداد ۲۰۶ تک آسکی۔ اس کھیل کے
باوجود ۱۷ اپریل تک جو گجرات چھٹے مقام پر تھا اور اب دوسرے پر آگیا ۔ یہ
بہت خطرناک رحجان ہے جہاں کچھ لوگوں کی شبیہ بچانے کے لیے عوام کوخطرے میں
ڈال دیا جائے۔
مرکزی حکومت میں کورونا سے نمٹنے والے ایمپاورڈ گروپ-2 کے سربراہ سی کے
مشرا نے اعتراف کیا ہے کہ ”23 مارچ کو ہم نے پورے ملک میں 14915 ٹیسٹ کیے
تھے، 22 اپریل کو ہم نے 5 لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ کیے ہیں۔ یہ 30 دنوں میں 3
گنا ہے۔ لیکن ہمیں یہ پتہ ہے کہ یہ کافی نہیں ہے اور ہمیں اس کی رفتار کو
آگے مزید بڑھانا ہے لیکن پھر ۲۶ کو یہ خبر آگئی کہ حکومت کے پاس ٹسٹ کٹس
کا اسٹاک کل ساڑھے ۶ لاکھ ہے ایسے میں کب تک چلے گا اور اگر نئی فراہمی نہ
ہوسکے تو کیا ہوگا؟ جہاں تک گجرات کا سوال ہے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق
وہاں سے تبلیغی جماعت کے مرکز میں کوئی نہیں گیا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت
ہے کہ اسی شہر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نمستے کرنے کے لیے وزیراعظم
نریندر مودی اپنے ہزاروں بھکتوں کے ساتھ پہنچے تھے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ
امریکہ میں سب سے برا حال ٹرمپ کے شہر نیویارک کا ہے اور مودی جی کے احمد
آباد کے بارے میں ہیبت ناک خبریں آرہی ہیں ۔ احمد آباد کے میونسپل
کمشنرنے مئی کے آخر تک ۸ لاکھ متاثرین کا اندازہ لگایا ہے اور سورت کے
بارے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار کی بات کی جارہی ہے۔ خدا کرے کہ یہ پیشن گو ئی
غلط ثابت ہو۔
|