غریبی کے دنوں سے لے کر بستر مرگ تک، عرفان خان کی ایک ایسی کلاس فیلو جس نے ان کا ہاتھ کبھی نہ چھوڑا

image


بھارتی فلم انڈسٹری کے اداکار عرفان خان جو کہ 29 اپریل 2020 کو کولون کے کینسر کے سبب موت کا شکار ہوئے ۔ عرفان خان کا شمار بالی وڈ کے ان اداکاروں میں ہوتا تھا جو کہ نہ تو ہیرو جیسی شخصیت کے حامل تھے اور نہ ہی ان کے دادا پر دادا اس انڈسٹری کا حصہ رہے تھے اس کے باوجود انہوں نے اپنے کام اور محنت اس بالی وڈ فلم انڈ سٹری کے ساتھ ساتھ ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں بھی جو مقام حاصل کیا تھا وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے- ان کی بھارتی قلم مقبول، انگریزی میڈيم ، ہندی میڈیم کا ذکر کیا جائے یا سلم ڈاگ ملینئير میں ان کی اداکاری کو سراہا جائے ان سب کے لیے ستائش کے لیے الفاظ کم پڑ سکتے ہیں مگر عرفان خان کی تعریف کم نہ ہو گی ۔

عرفان خان کی کامیابیوں کا یہ سفر راتوں رات طے نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے انہوں نے ایک دشوار گزار راستہ طے کیا جہاں پر اپنے اخراجات کی تکمیل کے لیے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شامل تھا تو کبھی انہوں نے اے سی ٹھیک کرنے والے ٹیکنیشن کے طور پر بھی کام کرنا پڑا تو کیا-
 

image


1986 میں نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں جب عرفان خان نے داخلہ لیا تو اس وقت وہ اپنے باپ کا پیسہ کاروبار اور آرام دہ زندگی سب صرف اور صرف اداکاری کے شوق کے سبب چھوڑ چکے تھے اور بہت غربت کی زندگی گزار رہے تھے- اسی جگہ ان کی ملاقات اپنی ہم جماعت ستاپا سکدار سے ہوئی جب پہلی بار سلام بمبئی کے لیے میرا نائر نے ایک بین الاقوامی پروجیکٹ کے لیے عرفان خان کا انتخاب کیا تو اتنی بڑی آفر کے ملنے پر عرفان خان بہت خوش تھے اور اس خوشی کو ان کے ساتھ بانٹنے والی واحد ہستی اس وقت بھی ستاپا ہی تھیں جن کے ساتھ مل کر انہوں نے بہت خوشی منائی تھی-

مگر پھر جب اس فلم میں سے ان کے کردار کو ختم کر دیا گیا تو کامیابی کے ملنے سے پہلے ہی ناکامی کے اس دکھ میں بھی ستاپا یہ عرفان کی ہم نشین تھیں- خوشی اور غم کے اس ساتھ کا دورانیہ ایک دو سالوں پر نہیں بلکہ نو سالوں پر محیط تھا اور بالآخر انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کا فیصلہ کر لیا-

دونوں ہی کچھ بننے کے خواب آنکھوں میں لیے جدوجہد کے دور سے گزر رہے تھے اس وجہ سے ایک دوسرے کا درد سمجھتے تھے- عرفان اگر بطور اداکار اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے تو ستاپا بطور ایک ڈائیلاگ رائٹر اپنا مقام بنانے کی خواہاں تھیں -
 

image


کامیابی کی جدوجہد کے اس سفر کو اس وقت تھوڑا آرام نصیب ہوا جب 2003 میں عرفان خان کی فلم مقبول نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے اور اب عرفان خان سائڈ رول کرنے والا اداکار نہ رہا تھا اس کا شمار ایسے اداکاروں میں ہونے لگا تھا جس کے اوپر لوگ فلم لکھواتے تھے-

کامیابیوں کے اس سفر میں بھی ستاپا عرفان خان کے ساتھ تھی جب کسی بھی ایوارڈ شو میں لوگ کیمرے لے کر دیوانہ وار عرفان خان کی جانب بڑھتے تھے اس وقت میں ستاپا کیمرے کی نظروں سے دور ہو کر ایک جانب کھڑی ہو کر پُرنم مسکراہٹ سے عرفان خان کی ان تمام کامیابیوں پر خوش ہوتی تھیں- آسکر ایوارڈ کی تفریب میں بھی جب سب آنکھیں عرفان کو دیکھ رہی تھیں ان میں ستاپا وہ واحد خوش قسمت انسان تھیں جن کو عرفان خان کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں اور ان کے ساتھ ان کی محبت کا شکریہ اداکر رہی تھیں-

اس خوبصورت اور پیار کرنے والے جوڑے کی محبت کی نشانی بابل اور ایان کی صورت میں ان کے ساتھ تھیں مگر 2019 میں عرفان خان پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ ایک موذی مرض کولون کے کینسر میں مبتلا ہو چکے ہیں- ایک ایسی بیماری جو دنیا کے بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے اس بیماری سے عرفان خان کے خوابوں کو ان کی کامیابیوں کو بریک لگا دیا- انہیں لگا کہ اس طویل جدوجہد کے سفر میں اب تھکن اترتی جا رہی ہے انہیں اب پھر سہارے کی ضرورت ہے اور ایک بار پھر ستاپا آگے بڑھیں اور انہوں نے بیمار عرفان خان کا ہاتھ تھام لیا اور ان کو یقین دلا دیا کہ ماضی کی طرح ہر حالت میں وہ عرفان کے ساتھ ہیں-
 

image


امریکہ میں ایک سال کے طویل عرصے میں جب کہ کینسر کا صبر آزما علاج چل رہا تھا ستاپا عرفان کو سہارا دینے کے لیے ہر پل اس کے ساتھ ہوتی تھیں- یہاں تک کہ واپس آنے کے بعد فلم ہندی میڈیم کی شوٹنگ کا مرحلہ شروع ہوا اس دوران بار بار عرفان کی طبعیت خراب ہو جاتی تھی مگر ان کے حوصلے کی طرح ستاپا ان کے ساتھ رہیں- یہاں تک کہ فلم کی ریلیز کے بعد جب عرفان کوان کی والدہ کے انتقال کی خبر ملی اور لاک ڈاون کے سبب وہ ان کی تدفین میں شرکت نہ کر سکے اس وقت ستاپا کا کاندھا ہی عرفان کا سب سے بڑا سہارا تھا جس پر انہوں نے آنسو بہائے تھے مگر اب جب عرفان خان اپنے آخری سفر پر روانہ ہو چکے ہیں ان کے اور ستاپا کے ساتھ کے پچیس سال پورے ہو چکے ہیں اور ستاپا تنہا رہ گئی ہیں-

YOU MAY ALSO LIKE: