رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کو عشرہ مغفرت کا نام دیا
گیا ہے، جیسے آپ نے رحمت مانگی ہے، اسی ترتیب سے مغفرت کی طرف جانا چاہیے،
اکثر لوگ، اپنوں، دوستوں اور مہربانوں کے سامنے رو پڑھتے ہیں اور ان میں سے
زیادہ تر دنیاوی امور، روزگار، بیماری، یا کسی ظالم کے ھاتھوں مجبور لوگ
کسی دوست کو مسیحا سمجھ کر، یا کسی صاحب اختیار کو رہنما جان کر رو پڑتے
ہیں۔ دکھ درد کو ھلکا کرنے کے لیے دوستوں یا اپنوں کا کندھا ھی تو ھوتا ھے،
لیکن سوچئیے ذرا کہ ھم نے رب کو کبھی اپنا سمجھا، اس کے قریب گئے، ندامت
اور عاجزی کا رویہ اختیار کر کے اس کو سامنے بیٹھا کر اپنے دکھ درد بیان
کیے، ویسے بھی رونا صرف رب العزت کے حضور ھی ھونا چاھیے تھا کیونکہ کسی سے
توقع رکھنا اور پھر توقعات کا قتل ھونا یہ تو معاشرے کی روایت ہے، فطرت ھے،
حقیقت ھے،کوئی ماں سے زیادہ کتنا آپ کا ھو سکتا ھے، یا کوئی استاد ومربی،
یا مرشد و رہنما کتنا آپ کا ھو گا ، یہ صرف مجاز اور حقیقت کا فرق ہے، ھم
مجاز کو تو سب کچھ سمجھ کر رو پڑتے ہیں کیونکہ کہ اس کے دیکھنے اور سننے کا
ھمیں یقین ہے، اور اگر یہی تصور رب کے لیے پیدا ھو جائے تو کسی کے سامنے
رونے کی عادت ختم ہو جاتی ہے۔" یہ جو کبھی اے حقیقت منتظر نظر لباس مجاز
میں" کا تصور ابھرتا ہے تو یہ دراصل اسی مجاز کا کیا دھرا ہے، جب اللہ
تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے گزر کر محبوب حقیقی تک
پہنچنے کا راستہ متعین کر دیا تو پھر کسی عام آدمی کے سامنے رونے سے خودی
کیسے پروان چڑھ سکتی ہے، جب ھم دعا کرتے ہیں تو درودشریف کو راستہ بنا کر
دیا گیا تو پھر ادھر ادھر بھٹکنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟، شاہ عبد الطیف
بھٹائی نے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ علم کا راستہ اختیار کریں، خالی عقیدت
سے علم پروان نہیں چڑھے گا، خالی کرامات رہ جائیں گی اور اس کو سن سن کر آپ
حقیقت سے راہ فرار اختیار کریں گے۔اج رمضان المبارک میں مغفرت کے عشرے کی
تیاری آزمائش ھے کہ ھم اللہ سے کتنا تعلق مضبوط کرتے ہیں کہ وہ مجاز کی طرح
حضوری کا باعث بنے، میں کوئی صوفی نہیں اور نہ ہی معرفت کا نقطہ بیان کر
رہا ہوں، دعویٰ کرنے اور ایک ھی جست میں منزلیں طے کرنے والے بہت مل جائیں
گے لیکن راہ حق کی حقیقت کم لوگ بتائیں گے۔ازمائشیں کیا کیا ھیں ان کا تعین
کریں، ایک آزمائش فخر وتکبر کی ھے اس میں نہ گھسیں کیوں کہ یہ صرف رب
العالمین کو زیب دیتی ہے، مال ودولت کی آزمائش ھے اس پر جمع اور ضرب کا
فارمولا لگانے کے بجائے، تقسیم کا فارمولا لگا دیں، نفسانی خواہشات ھیں اس
میں بھٹکنے اور فوری معافی، ندامت جلد جانا، اور اپنے آپ کو اس کے سامنے
پیش کر دینا ،اس آزمائش سے بھی نکال دے گا۔اپ جتنا جھکتے جائیں گے وہ آپ کو
اتنا معراج کی طرف لے جائے گا، عمل کا تکبر تنگ کرے گا پھر سجدے میں گر
جائیں، وہ اٹھا دے گا اتنی آ سانی کو مشکل میں نہ ڈالیں وہ غفور، ستار ھے
معافی اس کی بڑی صفت ہے بس عاجزی اور انکساری کے ساتھ دنیا بھی بہتر اور
آخرت بھی سنور جائے گی، دوسرا حصہ معاملات کا ھے، حق ادا کریں آسانی کے
ساتھ، کمزور کے ساتھ کھڑے ہو جائیں استطاعت کے ساتھ، ظالم کو روکیں اپنی
طاقت کے ساتھ، فرض ادا کریں اپنی ھمت کے ساتھ اور معاف کر دیں حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی فتح مکہ، طائف کے منظر اور عزیز و اقارب کے ڈھائے جانے
والے ظلم کو مثال بنا کر، استغفار کی تسبیح اور گردن نیچے کیا دیکھا نہیں
منظر آپ نے عام معافی کے وقت، کیا رواداری نہیں دیکھی مواخات مدینہ کے وقت،
کیا بھوک، بستر۔ اور جفاکشی کو سمجھا نہیں رحمت العالمین اور تاجدار کائنات
کی، پھر اترانا ، تکبر، غرور اور اختیار کا نشہ کیسا ہے، آج تہیہ کر لیں ھم
عشرہ مغفرت میں ھیں! تو یقین جانیے وہ دامن معافی پھیلا کر متمکن ھے ۔بے شک
وہ معاف کرنے والا غفور الرحیم ہے۔کوئی صاحب دل ھے تو آگے بڑھ کر بازی جیت
جائے۔
یہ بازی عشق کی بازی ھے، اس میں ھار کہاں، جیتوں تو تجھے پاؤں اور ھاروں تو
پیا تیری!!!
|