"الست بربکم.. کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں "

الله رب العزت سے کیسی محبت ہونے لگتی ہے جب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس نے تو پیدائش سے قبل ہی اپنے رب ہونے کا عہد بنی آدم سے لے رکھا ہے.

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّكَ مِنۡۢ بَنِىۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُهُوۡرِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ وَ اَشۡهَدَهُمۡ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ‌ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّكُمۡ‌ؕ قَالُوۡا بَلٰى‌ ۛۚ شَهِدۡنَا ‌ۛۚ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنۡ هٰذَا غٰفِلِيۡنَۙ‏.(١٧٢)
"اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ایک نسل نکالی اور انھیں خود ان پر گواہ کیا ، کیا میں تمہارا رب نہیں ، سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو ہمیں اسکی خبر نہ تھی"

ہر شخص اپنی ایک فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور اسی سے منسوب حقائق کو تلاشتے ہوئے اپنے دین کے سچ کے ساتھ جڑ جاتا ہے. الله نے ہر شخص کو فطرت اسلام پر پیدا کیا. والدین جب اولاد کی تربیت کرتے ہیں تو پیدائش کے دن سے اسکے اندر اپنے افکار ، دین اور تعلیم کی ترویج شامل کرتے ہیں. انہی کے مطابق وہ اسے ڈھالنا شروع کرتے ہیں لیکن جوانی کے دور میں اگر اسے وہی حقائق اپنے اندر جانچنے اور کائنات کی رمز کو سمجھنے کے بعد اپنے اندر اتارنے کا موقع ملے تو اسکا وجود پکار اٹھتا ہے کہ ہاں یہ وہی ہے جو ادراک میرے اندر پہلے روز سے ڈالا گیا تھا . کان میں دی گئی صدا "لا الہ الا الله"سے آشنائی ہونے لگتی ہے. اس سے متصل حقائق کا ربط قائم ہونے لگتا ہے. اسی طرح الله نے انسان کو ایک فطرت ، ایک دین پر پیدا کیا. یاد کرو تم خلیے کے ہزارویں حصے کے برابر تھے اور جب تم سے پوچھا گیا کہ "کیا میں تمہارا رب نہیں". تو تم سب ہی پکارے "کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے" تو دیکھو اپنے گواہ تم خود ہوئے ، تمہاری گواہی تمہارے اندر ہی موجود ہے. کیا تم نے اسے جانچا ، پہچانا، تلاش کرنے کی کوشش کی. اور یہی فطرت انسانی پر جب الله کے بھیجے ہوئے پیغمبر نے ایک الله کی جانب بلایا تو انسان کی فطرت نے وجود سے متصل گواہی کو پا لیا، اسے ڈھونڈ لیا، وہ "قالو بلیٰ" کی شہادت کو پہچان کر دنیا میں اس روز کی گواہی سے جڑ گیا ، اس نے پیغمبر کے احکامات کو مان کر زبان و دل سے اقرار کر لیا ، ایمان و تقویٰ کے درجے پر فائز ہو گیا کہ ہاں یہی تو ہے میری اپنی دی ہوئی شہادت جسکا اقرار مجھے آج کرنے کا موقع ملا ہے.

تو کیا انسان کے اندر پلنے والی بیزاری اسے اس جانب نہیں بلاتی کہ اسکے قول و قرار میں تضاد ہے. کیا یہ بے چینی اسے پکار پکار کر یہ نہیں کہتی کہ تم اپنی گواہی بھول گئے. تم آج سکوں کی راہ کی تلاش میں ہو. اور آج تم اپنی فطرت کی گواہی سے اپنا قول و فعل ملانے کے فرق کو مٹانے کے لئے بے تاب ہوئے پھرتے ہو یہ وہی تضاد ہے جو انسان کو اسکی فطرت اور کائنات کی فطرت سے ملانے پر گامزن ہے لیکن انسان اپنی عقل و فکر کی بنیاد پر ثبوت تلاش رہا ہے. دین ثبوت نہیں مانگتا ، دین کی حجت الله نے گواہی کے دن اور رسالت کو مکمل کر کے عطا کر دی . پھر انسان کیوں نا مکمل رہ گیا. کہ اس نے اپنے اندر ہی اپنے آپکو تلاش نہیں کیا. اس نے کائنات میں بنانے والی ہستی کے پیغام کو سننے ، جاننے ، عمل کرنے اور اس تار سے اپنا تار جوڑنے کی کوشش نہیں کی. یہ بے چینی، یہ بیزاری بہت جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے.

تو کیا تمہیں محسوس ہوتا ہے. وہ جلوہ جسے تم دیکھ چکے ، تمھارے آس پاس ہی کہیں موجود ہے. وہ گواہی جو تم دے چکے تمہارے سامنے اسکی نشانیاں موجود ہیں. کیا تمہارا دل کائنات کو دیکھ کر اسکی نشانیوں کو تلاش نہیں کرتا ، کیا تم ہر نشانی دیکھ کر بھی غور و فکر نہیں کرتے ، کیا تم نے جاننے کی چاہ نہیں کی کہ کائنات کا ہر جزو کس کے آگے جھکا ہوا ہے كس کے سامنے سجدہ ریز ہے. کائنات کا عظیم ترین نظام کس کے ہاتھ میں ہے. جب دنیا اور کائنات کی وسعتوں میں تمہیں اسکا کوئی ایک اشارہ ملتا ہے تو روح کیسے کھل اٹھتی ہے ، کیسے گواہی سے شہادت کا اقرار ملتا ہے ، ہاں یہی، یہی تو ہے میرا الله! کیسے انسان کے وجود میں سکون کی لہر اور شکر گزاری کا احساس پھیل جاتا ہے. تو سوچو کیا الله کو تمہاری گواہی کی ضرورت ہے ؟ وہ تو بہت بلند عظیم تر ہے. یہ گواہی تمہارے ہی لئے ہے تا کہ تم جان سکو ہر شے کا مالک الله ہے. قیامت تک یہ حجت تمام ہو چکی! کہ انسان اس روز نہ کہہ سکے گا کہ میں نے تو کوئی اقرار نہ کیا تھا. جان لو الله کے ساتھ عہد کر چکے ہو اور چین اور سکوں اس میں پنہاں ہے کہ یہ عہد وفا کر دو عہد کو مکمل کر لو. اسکی رضا سے اپنا آپ جوڑ لو اس کو اسی سے مانگ کر پا لو. آج اس کے حکم پر لبیک کہنے کا مقام ہے. یہ بے چینی کا تضاد ختم ہو گا جب تم اپنی فطرت اور وجود کو ایک پیرائے میں لا کر یکسوئی اختیار کر لو گے. اور اس روز جب وعدے کی مدت پوری ہوگی تم کہہ نہ سکو گے کہ مجھے کچھ خبر نہ تھی ، جب کہ الله تم تک پیغام پہنچا کر تم پر احسان کر چکا ہے کہ کہیں تم شکر گزار بنو. الله کے احساس کے بنا کوئی احساس مکمل نہیں ہوتا. اور الله کی گواہی کے بنا کوئی گواہی مکمل نہیں ہوتی. یوم الست بھی الله کے رنگوں میں سے ایک رنگ ہے کہ اسکا ادراک اور اقرار جب تمہارے اندر اتر جائے گا تو سر سے پاؤں تک اور یوم الست سے یوم آخر تک صرف الله کے ہو کر رہ جاؤ گے . بس گواہی تو تمہارے مان لینے میں ہے..!

Quratulain Ashraf
About the Author: Quratulain Ashraf Read More Articles by Quratulain Ashraf: 13 Articles with 31443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.